تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     24-07-2014

کھیل لڑکوں کا ہوا، دیدئہ بینا نہ ہوا

خود کردہ را علاجے نیست۔ جلد یا بدیر وسط مدّتی الیکشن تو شاید ہو رہیں ۔ سیاسی لیڈر چیزوں کو خود کیوں سلجھا نہیں لیتے ؟ ایسے بحران کو دعوت کیوں دیتے ہیں کہ کھیل ان کے ہاتھ سے نکل جائے۔ 
قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کُل
کھیل لڑکوں کا ہوا، دیدۂ بینا نہ ہوا
دارالحکومت افواہوں کی زد میں ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ آنے والا کل کیا لائے گا۔ سانحۂ ماڈل ٹائون کے بعد علّامہ طاہر القادری کے نعرۂ انقلاب اور عمران خان کے آزادی مارچ نے بے یقینی بہت پیدا کر دی ۔ پنجابی محاورے کے مطابق سیاسی پارٹیاں گندے پانی میں مچھلیاں پکڑنے کی کوشش کر رہی ہیں ۔ حاصل وصول توخیر کیا، کوئلوں کی دلالی میں بعض کا منہ کالا ہونے کااندیشہ ضرور ہے ۔ 
اپنے وطن سے ان کی وابستگی کیسی ہے ۔ محترمہ شہلا رضا کے بیان سے اندازہ کیا جا سکتاہے ۔ فرمایا کہ واشنگٹن میں زرداری صاحب کے ساتھ صدرِ مملکت کا سلوک روا رکھا گیا۔ پھر فرمایاکہ امریکہ ، برطانیہ اور متحدہ عرب امارات نے پندرہ برس تک مارشل لا نافذ نہ ہونے کی ضمانت دی تھی ۔ فوج میں کس نے ضمانت دی تھی ؟ عہدِ آئندہ کے سپہ سالاروں نے ؟ کس قدر احمقانہ خیال ہے ۔ مار شل لا کا کوئی خطرہ تو موجود ہی نہیں الّا یہ کہ 14اگست کو اسلام آباد میں لاشوںکے ڈھیر لگادیے جائیں۔ ایسا وہ کیوں کریں گے ؟فرض کیجیے کہ مارشل لا کا اندیشہ ہے۔ مضطرب تو شریف خاندان کو ہونا چاہیے، زرداری صاحب کیوں؟ کیا وزیرِ اعظم نے آنجناب کو واشنگٹن بھیجا؟ انتیس سال کا سیاسی تجربہ رکھنے والے میاں صاحب کیا احمق ہیں کہ ان صاحب کو ذمہ داری سونپیں ۔ ابھی کل ہی انہوں نے عمران خان کے حق میں بیان داغا۔ شہلا رضا کو کس چیز نے سنسنی خیز انکشاف پر آمادہ کیا؟ ہیجان کا شکار وہ ہرگز نہ تھیں ۔ پیپلز پارٹی کے ترجمان نے شتابی سے تردید کر دی ۔ کچھ سوال مگر باقی رہ گئے۔ انکل سام کوکیا ہمیشہ کے لیے آقا تسلیم کر لیا گیا ؟ عربوں کو مداخلت کاحق دے دیا گیا؟ سبحان اللہ، سبحان اللہ! 
زرداری صاحب کے خیر مقدم سے آشکار ہے کہ امریکہ بہادر سے پیہم ان کا رابطہ ہے ۔ اپنا آدمی وہ انہیں گردانتے ہیں ۔ ان کے ساتھ طویل صلاح مشورے کی ضرورت وہ محسوس کرتے ہیں ۔ ایک زمانہ وگرنہ وہ تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو صدر بش کے ناشتے میں شرکت کے لیے دبئی سے واشنگٹن پہنچیں اور امریکی صدر نے آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا تھا۔ کچھ تو ہے ، جس کی پردہ داری ہے ۔ 
دیکھیے، اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبدِ نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا
تصدیق یا تردید مشکل ہے ۔ نون لیگ کے ذرائع ایک بڑی ہی دلچسپ کہانی سناتے ہیں ۔ یہ کہ وزیراعظم کے حالیہ دورۂ کراچی نے انہیں مشتعل کیا۔ ان کا اندازِ فکر یہ ہے کہ میٹرو بس اور حمزہ شہباز کو شریک وزیرِ اعلیٰ بنانے پر وہ خاموش رہے ۔ سندھ میں وزیراعظم مداخلت کیوں کرتے ہیں ؟ وہ کراچی میں اپنی مرضی کے پولیس افسر مقرر کرنے کے آرزومند کیوں ہیں ؟ طے یہ پایا تھاکہ مرکز و پنجاب نون لیگ اور سندھ پیپلز پارٹی کی چراگاہ 
ہے ۔ لیگ کے ایک لیڈر نے کہا :زرداری صاحب عمران خان کے چیلنج سے فائدہ اٹھانے کے آرزومند ہیں۔ ان کے بقول سابق صدر نے پیغام بھیجا کہ نظام کی بقا اور عمران خان سے نمٹنا مقصود ہے توحلیف کو حسنِ سلوک کی ضمانت دی جائے۔ بہترین طریق اس کا یہ ہے کہ( بیچارے )ممنون حسین سے استعفیٰ لے کر زرداری صاحب کو پھر سے صدر بنا دیا جائے۔ جیسا کہ عرض کیا، ان دعووں کی صداقت کو جانچنا ممکن نہیں ؛البتہ اندازہ یہ ہوتا ہے کہ صورتِ حال غیر معمولی ہے ۔ 
پروفیسر طاہر القادری کے چودہ کارکنوں کا قتل نون لیگ کے لیے ایک سنگین سوال ہے ۔ کہا جاتاہے کہ اب تک ہونے والی تحقیقات کے مطابق آئی ایس آئی اور ایم آئی جس میں شریک ہیں ، حکمران پارٹی کے کئی رہنما ذمہ دار دکھائی دیتے ہیں ۔ سیاسی بصیرت رکھنے والے ایک خفیہ ایجنسی کے سبکدوش رہنما نے منگل کی شب اس اخبار نویس سے کہا: اگر یہ ثابت ہو گیا ۔ اگر کمیشن کا فیصلہ پنجاب حکومت کے خلاف ہوا تو نون لیگ کا مستقبل تاریک ہو سکتاہے ۔ علّامہ طاہر القادری سے اگروہ مصالحت نہیں کرتے تو حکومت بدلتے ہی کئیوں کے خلاف قتل کے مقدمات درج ہوں گے ۔ یہ نواب محمد احمد خان کے متنازعہ مقدمے کی مانند نہ ہوگا کہ حکم دینے والے معلوم و معروف ہیں ۔ 
دعویٰ یہ ہے کہ پسِ پردہ علّامہ صاحب کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں ۔ یہ الگ بات کہ مقتولین کی طرف سے ایف آئی آر درج نہ ہو سکی ۔ یہ الگ بات کہ انٹر میڈیٹ کالج ایسی سیاست کرنے والے پرویز رشید پیہم ان کا تمسخر اڑا رہے ہیں ۔ سامنے کا سوال یہ ہے کہ علّامہ صاحب کے لیے پسپائی اب کس طرح ممکن ہے ؟ کارکنوں کے بہیمانہ قتل پر یک طرفہ طور پہ معافی وہ کیسے دے سکتے ہیں ۔ اس کے بعد مریدانِ با صفا میں ان کی کیا حیثیت باقی رہے گی؟ کیا وہ پاکستان میں قیام فرمانے کے قابل ہوں گے ؟ 
نون لیگ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ سلسلۂ جنبانی عمران خان کے ساتھ بھی ہے ، ثالثوں کے توسط سے۔ مبینہ طور پر تجویز اس سلسلے میں یہ ہے کہ زرداری صاحب کی ''بلیک میلنگ‘‘ سے بچنے کے لیے کپتان سے معاملہ طے کر لیا جائے۔ سینیٹ کے آئندہ انتخابات میں حکمران جماعت ایوانِ بالا میں اکثریت حاصل کر سکتی ہے ؛چنانچہ آئندہ سال عمران خان کو وسط مدّتی الیکشن کی پیشکش کر دی جائے ۔پھر وہی پرویز رشید... ایک دن آپ نے ارشاد فرمایا: تحریکِ انصاف کی ''جلوسیوں‘‘ سے ہم ڈرتے نہیں۔ منگل کی شام یہ کہا ـ: عمران خاں لندن بہت جاتے ہیں ، کبھی اللہ کے گھر بھی جایا کریں ۔ یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ موصوف اب تک بیس حج اور چالیس عمرے کر چکے ۔ ہر رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف فرماتے ہیں ۔ زندگی ان کی قائد اعظم کے افکار اور تحریکِ پاکستان کا شعور عام کرنے میں گزری ہے ۔ یہ تو محض کسرِ نفسی ہے کہ خود کو حاجی پرویز رشید نہیں کہتے ۔ ناقص مشیر کس طرح اپنے لیڈروں کوتاریخ کے کوڑے دان کی طرف لے جا تے ہیں ، یہ ایک موضوع ہے ، جس پرکبھی کسی نے دادِ تحقیق نہ دی۔ 
انتخابی اصلاحات کی پارلیمانی کمیٹی سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ نواز شریف اور ان کے ساتھی اصلاحات کیوں پسند کریں گے؟ کمیٹی میں شامل ہو کر تحریکِ انصاف نے پہاڑ سی غلطی کا ارتکاب کیا۔ جس طرح فخر الدین جی ابراہیم کو چیف الیکشن کمشنر اور نجم سیٹھی کو نگران وزیرِ اعلیٰ مان کر ۔ اب ان کے لیے ایک ہی راہ باقی ہے ۔بڑی تعداد کے ساتھ کئی دن کا دھرنا، جس میں وسط مدّتی الیکشن حاصل کیا جا سکے۔ خود کو مشکل میں انہوں نے ڈال لیاہے اور آسانی کے ساتھ اس سے باہر نکل نہیںسکتے۔ نون لیگ کا عالم بھی یہی ہے ۔ دھاندلی تو ہوئی ہے او ربڑے پیمانے کی دھاندلی۔ سارے ڈبّے وہ کیسے کھول سکتے ہیں۔ آدھے سے زیادہ ووٹ ناقابلِ شناخت ہیں۔ کس کی ماں کو وہ ماسی کہیں گے ؟ 
خود کردہ را علاجے نیست۔ جلد یا بدیر وسط مدّتی الیکشن تو شاید ہو رہیں ۔ سیاسی لیڈر چیزوں کو خود کیوں سلجھا نہیں لیتے ؟ ایسے بحران کو دعوت کیوں دیتے ہیں کہ کھیل ان کے ہاتھ سے نکل جائے۔ 
قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کُل
کھیل لڑکوں کا ہوا، دیدۂ بینا نہ ہوا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved