آج ایس ایم ایس کے ذریعے ایک لطیفہ موصول ہوا جو کچھ یوں تھا کہ ایک سرائیکی نے پہلی بار روزہ رکھ لیا جس نے اسے بہت پریشان کیا۔ آخر خدا خدا کر کے شام ہوئی تو افطار کے وقت اس نے جو دعا مانگی وہ کچھ اس طرح سے تھی:
''اے اللہ میں تیرے رزق تھیں روزہ کھلیسوں‘ تے وت روزہ نہ رکھیسوں‘‘ یعنی اے اللہ میں تیرے دیئے ہوئے رزق سے روزہ کھولتا ہوں اور آئندہ کبھی روزہ نہیں رکھوں گا۔ اس سے ہمیں اپنے متعدد سرائیکی دوست یاد آ گئے جنہیں یہ لطیفہ سنانا مقصود تھا۔ سب سے پہلے تو رفعت ناہید کو فون کیا جو ملتان سے اپنی ہمشیرگان کے پاس راولپنڈی پہنچی ہوئی تھیں۔ ساتھ ہی مجھے عاصی کرنالی مرحوم یاد آ گئے۔ میں ملتان جاتا تو ان سے ملاقات ضرور رہتی۔ اسی زمانے کا ایک شرارتی سا شعر تھا ؎
پہلے عاصیؔ تھا ظفرؔ پھر کرنالی ہو گیا
ابھی عاصی صاحب کی یادوں سے لطف اٹھا ہی رہا تھا کہ لودھراں سے ہمارے شاعر دوست ڈاکٹر رامش کا بھیجا ہوا سوہن حلوے کا ڈبہ موصول ہو گیا۔ اسے ڈوڈا کہتے ہیں جو خانقاہ ڈوگراں اور خوشاب کی خاص سوغات ہے۔ وہ ہماری ہر عید اسی طرح میٹھی کر دیتے ہیں۔ آپ وہاں ہومیو پیتھک ڈاکٹر ہیں۔ شاعری کا پہلا مجموعہ کچھ عرصہ پہلے شائع ہوا ہے جو انہوں نے مجھے بھی بھیجا لیکن اس پر تبصرہ اس لیے نہ کر سکا کہ اس سے پہلے محبی اختر شمار اس پر تبصرہ کر چکے تھے۔ بہت عمدہ شاعر ہیں حالانکہ ہومیو پیتھک ڈاکٹر ہیں۔ اس سے ہمیں ایک نہایت عزیز اور صاحبِ طرز شاعر صلاح الدین محمود مرحوم یاد آئے جن کے پاس منڈلی باقاعدہ لگا کرتی تھی۔ ایک دفعہ ان کی اہلیہ نے ایک شاعر کے بارے میں ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور یہ بھی کہا کہ ظفر اقبال صاحب کو دیکھیں‘ کتنے عمدہ آدمی ہیں‘ حالانکہ شاعر ہیں! یہ شعر انہی کی یادگار ہے ؎
کھلائیں ان کو اوکاڑے کے امرود
اگر آئیں صلاح الدین محمود
اتنے میں ہمارے ایک اور محبوب سرائیکی دوست سید انیس شاہ جیلانی کا حسبِ معمول دو سطری محبت نامہ آ گیا۔ لکھتے ہیں:
''محترم‘ اخبار ''دنیا‘‘ میں آپ نے ''چھپنا دیوانِ غالب‘‘ کا ذکر خاصی تفصیل سے کردیا اور ہمارا بھی۔ آپ کا لطف آپ کا کرم‘‘
لیکن سرائیکیوں کا سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ چند سال پہلے مجھے ایک فون آیا کہ میں ملتان سے فاطمہ بول رہی ہوں‘ کیا میں کبھی کبھار آپ کو فون کر سکتی ہوں؟ آپ جیسی شاعری تو اور کوئی بھی نہیں کرتا۔ میں نے پوچھا‘ مثلاً تو اس نے میرا یہ شعر سنایا ؎
یہ کیا کہ صبح کو رہ جائے پھر بھی تو باقی
میں اپنے آپ سے شب بھر تجھے نکالتا ہوں
میں نے پوچھا‘ آپ نے میرا نمبر کہاں سے لیا تو بتایا کہ آپ کے کلیات ''اب تک‘‘ کی پہلی جلد میری سالگرہ پر میری بڑی بہن نے خرید کر تحفے کے طور پر دی تھی۔ اس پر آپ کے پبلشر کا فون نمبر درج تھا۔ میں نے انہی سے آپ کا نمبر حاصل کیا ہے۔ یہ واقعہ شاید پہلے بھی لکھ چکا ہوں‘ اور یہ بھی کہ جو آدمی میری شاعری کو پسند کرتا ہے‘ اس کے دماغ کا کوئی نہ کوئی پرزہ ضرور ڈھیلا ہوتا ہے کیونکہ میرے تو سبھی پُرزے ڈھیلے ہیں! موصوفہ سے فون پر رابطہ رہتا۔ ان کے آبائو اجداد ایران سے آئے ہوئے تھے‘ اس لیے بعض فارسی الفاظ کا صحیح تلفظ مجھے انہی کی زبانی پتہ چلا۔ پھر ان سے ایک بار دس پندرہ منٹ کی ملاقات بھی ہوئی جب ڈاکٹر سید عامر سہیل نے بہائوالدین ذکریا یونیورسٹی میں میرے اعزاز میں وہاں ایک تقریب کا اہتمام کیا تھا جس میں ڈاکٹر انوار احمد نے بھی میری شاعری پر ایک زوردار مضمون پڑھا۔ وہ اپنی خادمہ کے ہمراہ مجھ سے ملنے کے لیے چلی آئی تھیں۔ اب وہ شادی کروا کر ملتان سے جھنگ سدھار چکی ہیں۔
میری اہلیہ مرحومہ سرائیکی تو نہیں تھیں لیکن وہ کسی سرائیکی سے کم بھی نہیں تھیں کہ انہوں نے ہائی سکول تک کی ساری تعلیم بہاولپور میں حاصل کی تھی۔ اس اضافی ذائقے کی وجہ سے میرے ذخیرۂ الفاظ میں خاصا اضافہ ہوا۔ انہی دنوں میرے بچوں میں سے ایک نے پوچھا:
''امی نے میٹرک کر رکھی ہے؟‘‘
میں نے کہا‘ کہتی تو ہے! اس پر ایک زبردست قہقہہ پڑا۔
وہ محمد خالد اختر کی دور کی رشتہ دار بھی تھیں جو ایک دو بار ہمیں ملنے کے لیے اوکاڑہ بھی آئے۔ وہ بنیادی طور پر فکشن لکھتے تھے لیکن ان کے قلم سے کئی ایسے مزاح پارے بھی نکلے کہ سبحان اللہ۔ اشفاق احمد نے ان کے بارے میں ایک بار کہا تھا کہ ہم سب ایک دن منظر سے غائب ہو جائیں گے‘ صرف محمد خالد اختر کا نام زندہ رہے گا۔
پچھلے دنوں ایک سرائیکی آواز افضل خاں کی بھی سنائی دی جو ایک نہایت عمدہ شاعر ہیں اور بہاولپور سے کبھی کبھار فون پر میری خیریت دریافت کر لیا کرتے ہیں۔ پریکٹس کے دنوں میں ملتان جانا ہوتا تو وہاں کچہری میں خوبصورت شاعر منیر فاطمی سے ملاقات ضرور ہوتی جو بعد میں نوجوانی کے عالم میں ہی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ ان کی بیٹی کے افسانوں کا ایک مجموعہ شائع ہو چکا ہے۔
ملتان سے ایک تو ہمارا یہ شعر یادگار ہے ؎
فاصلوں ہی فاصلوں میں جان سے ہارا ظفرؔ
عشق تھا لاہوریے کو ایک ملتانی کے ساتھ
اور‘ دوسرے پروفیسر جابر علی سید جو بہت سے دوسروں سے مختلف اور ایک زیرک نقاد بھی تھے۔ جناب احمد ندیم کے رسالے ''فنون‘‘ میں ایک بار ان کا ایک خط چھپا تھا جس میں میری شاعری کے بارے میں انہوں نے کھل کر اظہارِ رائے کرتے ہوئے اس کے ایک غیر سنجیدہ پہلو کے بارے میں اسے ''کامک ریلیف‘‘ کا نام دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ میر تقی میرؔ کے ہاں بھی موجود ہے۔
اور‘ اب ختمِ کلام بھی سید انیس شاہ جیلانی پر ہی ہوگا کہ جنہیں میں نے آج فون کر کے ان کے رسالہ ''لالۂ صحرا‘‘ کا وہ شمارہ بھجوانے کی فرمائش کی تھی جس میں ساقیؔ فاروقی کے بارے میں بعض چشم کشا حقائق بیان کیے گئے تھے۔ یاد رہے کہ میں ان کی زلفِ گرہ گیر کا اسیر اس وقت ہوا تھا جب ان کی کتاب ''سفرنامہ مقبوضہ ہندوستان‘‘ میری نظر سے گزری۔ آپ بجا طور پر ایک صاحبِ اسلوب ادیب ہیں۔ چند سال پیشتر مجھے رحیم یار خان کے ایک مشاعرے میں مدعو کیا گیا تو میں وہاں سے بطور خاص ان سے ملنے کے لیے محمد آباد (صادق آباد) جا پہنچا تھا جہاں ان کی لائبریری کی زیارت بھی ہوئی جو مبارک لائبریری کے نام سے انہوں نے اپنے والد گرامی کی یاد میں قائم کر رکھی ہے ع
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں
آج کا مطلع
صبر کر رہا ہوں، انتظار کر رہا ہوں میں
عشق اور وہ بھی یادگار کر رہا ہوں میں