کراچی سٹیل ملز کے ملازمین کی کئی کئی ماہ کی تنخواہیں رکی ہوئی ہیں۔ شائد ہمارے حکمران اندازہ نہیں کر سکتے کہ جنہیں ہر ماہ تنخواہ ملتی ہے وہ چند دن کے بعد ہی تنگی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
بات سمجھنے کیلئے ذرا ماضی میں جھانکتے ہیں۔سٹیل ملز کراچی کی نجکاری کے خلاف لئے جانے والے از خود نوٹس کا فیصلہ سنانے سے ایک دن قبل اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے صدر جنرل پرویز مشرف کے ملٹری سیکرٹری کو فون کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کل سٹیل ملز کراچی کا فیصلہ سنانے جا رہی ہے اس سلسلے میں صدر صاحب سے باہمی مشاورت بہت ضروری ہے۔ صدر مشرف نے اپنے ملٹری سیکرٹری کو کہا کہ آج شام کا وقت طے کر لیں اور ساتھ ہی اٹارنی جنرل پاکستان کو بھی اطلاع کر دیں کہ وہ بھی چیف جسٹس سے کراچی سٹیل ملز کی نجکاری کے فیصلے کیلئے کی جانے والی اس باہمی مشاورت کیلئے آرمی ہائوس پہنچ جائیں۔ جس پرسابق چیف جسٹس نے اس بارہ رکنی بنچ کے دوسرے ارکان کو آرمی ہائوس جانے کی باقاعدہ اطلاع کر دی اور جب جنرل مشرف، افتخار محمد چوہدری اور اٹارنی جنرل تینوں آرمی ہائوس میں اس موضوع پر گفتگو کرنے کیلئے اکٹھے ہوئے تو جنرل مشرف نے گفتگو میں پہل کرتے ہوئے چیف جسٹس کو کہا‘ افتخارــ! میں نہیں جانتا کہ آپ نے سٹیل ملز کا سو موٹو کیوں لیا۔ لیکن میری خواہش ہے کہ آپ جو بھی فیصلہ کریں اس میں آپ اور ادارے کی ساکھ پر حرف نہیں آنا چاہئے ۔ جنرل مشرف اور اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری ابتدائی گفتگو کی روشنی میں اٹارنی جنرل سے اس کیس کے قانونی پہلوئوں پر تفصیل سے گفتگو کرنے کے بعد ایک درمیانی فیصلے پر پہنچ گئے۔ حتمی فیصلہ کرنے کے بعد افتخار چوہدری نے خود جنرل مشرف کو اس سوموٹو کے قانونی اندراجات کے ایک ایک پہلو سے آگاہ کر تے ہوئے بتایا کہ ہم نے اس مقدمہ کا '' یہ فیصلہ‘‘ کیا ہے۔ جنرل مشرف نے ڈرافٹ کئے گئے اس فیصلے کو پڑھنے اور اٹارنی جنرل سے ان کی رائے لینے کے بعد کہا کہ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ ملکی مفاد کے عین مطا بق بھی ہے۔
اگلی صبح جب سپریم کورٹ کا بارہ رکنی بینچ کورٹ روم میں آنے سے پہلے اکٹھا ہوا تو افتخار چوہدری نے بنچ کے دوسرے اراکین کو بتایا کہ آرمی ہائوس جانے سے پہلے آپ سب کو اس بارے آگاہ کیا تھا اس معاملے پر تفصیلی بات کرتے ہوئے میں نے اپنے تحفظات سے صدر کو آ گاہ کیا توانہوں نے کہا کہ مجھے سٹیل ملز کی پرائیویٹائزیشن منسوخ کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا‘ جس پر بنچ کے کچھ اراکین حیران ہو کر ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے ، چیف جسٹس کی نیت بارے وہ سوچ ہی نہیں سکتے تھے لیکن لمحے بھر کیلئے وہ کچھ پریشان سے ضرور ہوئے کہ یہ کیسے ممکن ہے اس وقت کے ایک جج کے‘ جو ایکسٹینشن کے بعد اب ریٹائر ہو چکے ہیں‘ لکھے گئے فیصلے پر بارہ رکنی بنچ کے اراکین کے دستخط لینے کے بعد کورٹ روم میں سٹیل ملز کی نج کاری منسوخ کرنے کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ جیسے ہی یہ فیصلہ سامنے آیا‘ کہرام مچ گیا کہ یہ کیسے ہوا؟۔
اس فیصلہ نے جنرل مشرف کو بھی ہلا کر رکھ دیا لیکن وہ بھول گئے یا کسی نے انہیں بتانا ضروری نہیں تھا کہ وہ فخرالدین جی ابراہیم کے مقدمے کی 15فروری 2007ء کو سماعت کرنے کے بعد‘ چوہدری صاحب نے بھری عدالت میں ان کی اپیل منظور کرنے کا حکم جاری کر
دیا لیکن جب اس اپیل کا تحریری فیصلہ سامنے آیا تو وہ یہ جان کر حیران رہ گئے کہ یہ عدالت میں دیئے جانے والے اس زبانی حکم کے بالکل ہی الٹ تھا ۔ پھر یہ بھی سب کے سامنے ہے کہ ڈاکٹر شیر افگن نیازی مرحوم کی ایک اپیل جس میں خالد انور اور قادر سعید ان کے وکیل تھے ان کے ساتھ بھی آپ نے اسی طرح کی حرکت کی۔ جب بھری عدالت میں سماعت مکمل ہونے کے بعد ان کی اپیل کو مسترد کر دیا لیکن جب تحریری فیصلہ سامنے آیا تو اس فیصلے میں آپ نے ان کی اپیل منظور کرنے کا حکم تحریر کیا ہوا تھا۔ آج شیر افگن نیازی اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن اندر کی بات سب پر عیاں ہے۔ اندازہ کیجئے کہ خالد انور جو اس ملک کے وزیر قانون رہ چکے ہیں اور فخر الدین جی ابراہیم جو اس ملک کی اعلیٰ عدلیہ میں جج کے با وقار عہدے پر فائز رہے ہیں اگر ان کے ساتھ کورٹ روم میں اس طرح کا انصاف ہو سکتا ہے تو دوسرے لوگوں کے ساتھ ان کا رویہ کیسا رہا ہو گا؟۔ جس بات کو سب سے زیا دہ ایک میڈیا گروپ نے اچھالا تھا وہ یہ تھی کہ جس قیمت میں یہ سٹیل ملز بیچی جا رہی ہے اس سے کئی گنا زیادہ تو اس کی پوری زمین کی قیمت ہے عوام کا اس پر غصے میں آ کر بپھرنا لازمی تھا اور
دوسری طرف گوئبلزکا دودھ پینے والے اپنے استاد کی جانب سے تھمایا جانے والا جھوٹ بڑھا چڑھا کر پیش کر نا شروع ہو گئے۔۔۔لیکن سچ یہ ہے کہ۔۔۔مئی2006ء کو ایک عرب ملک کے ایک گروپ کے سٹیل ملز کے75 فیصد حصص میں، جس پر اس وقت میڈیا گروپ نے شورمچا یا تھا‘ سٹیل ملز کی زمین اس میں شامل ہی نہیں تھی۔ 36کروڑ 20لاکھ ڈالر کی سب سے زیا دہ بولی دیتے ہوئے 2کروڑ 16لاکھ ڈالر حکومت پاکستان کو ادا بھی کر دیئے۔ اس طرح کراچی سٹیل ملز کی زمین فروخت کئے بغیر‘ اس بولی سے سٹیل ملز کو 13 ملین ڈالر زیا دہ منافع پر بیچا گیا۔ افتخار چوہدری کی جانب سے یہ فیصلہ دینے کے بعد ایک بڑے عرب ملک کے گروپ نے کراچی سٹیل ملز اور پاکستان میں روس کی ''MAGNI TAGERSAK" کی فنی مدد سے ایک اور نئی سٹیل ملز لگانے کیلئے پاکستان کے بینکوں میں جمع کرائے جانے والے اپنے کروڑوں ڈالر فوری طور پریہ کہتے ہوئے واپس منگوا لیئے کہ یہ ملک سرمایہ کاری کیلئے منا سب نہیں ہے ۔۔۔کبھی اس ملک کا کوئی فنانشل ایڈوائزر اٹھے گا اور بتائے گا کہ اس فیصلے کے بعد سے اب تک پاکستان اور سٹیل ملز کراچی کو کتنے کھربوں کا نقصان پہنچ چکا ہے اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ گزشتہ روز اس سٹیل ملز کی پیداواری استعداد صرف4 سے 5 فیصد تک رہ گئی ...!