ڈاکٹر طاہرالقادری اپنی طرز کے پہلے نہیں‘ شاید آخری بھی نہ ہوں‘ جلد باز انقلابیوں کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا۔ پاکستان کے جلد باز انقلابیوں میں ڈاکٹر طاہرالقادری اب اکیلے رہ گئے ہیں۔ ہمسری کرنے والا تو پہلے بھی کوئی نہ تھا۔ مثال دینے کے لئے بہرحال ایک شخصیت موجود تھی۔ ان کے ہوتے ہوئے میں‘ حضرت علامہ صاحب کوملک کا واحد جلدباز انقلابی قرار دے بیٹھتا‘ تو کچھ بعید نہ تھا کہ برطانیہ میں جلاوطنی کی زندگی گزارتے ہوئے مختاررانا‘ وہیں سے چیلنج کر دیتے کہ علامہ صاحب اس سلسلے کے‘ اکیلے حقدار نہیں۔ میں بھی تو ہوں۔ رانا صاحب اسی طرح کے تھے۔ اب شاید وہ ایسا نہ کرتے۔ بہت مضمحل‘ مایوس اور قریب قریب تارک الدنیا ہو چکے تھے۔ ان کی جوانی اور بڑھاپے میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ جوانی ‘ تیزرفتار اور سرکش پانیوں کی یلغار تھی۔ بڑھاپا جھیل کے ساکت پانی کی مثال۔ میری ان سے ملاقات60ء کے عشرے کے تقریباً وسط میں ہوئی تھی۔ وہ لائل پور میں اپنا ایک ٹیوشن سینٹر چلایا کرتے تھے۔ پورا دن مزدوریونینوں کے معاملات کی دیکھ بھال میں گزرتا۔ ملک کے سب سے بڑے صنعتی شہر میں‘ اس وقت بھی مزدوروں کی تعداد لاکھوں میں تھی اور سرمایہ داری کا جبر بھی عروج پر۔ یوں بھی ہوا کہ مزدور سرکشی میں بے قابو ہو گیا‘ تو اسے رات کے اندھیرے میں اٹھا کر‘ مل کی چمنی میں پھینک دیا گیا۔حقیقت تو خدا جانتا ہے۔ ایک صحافی کا انجام بھی یہی ہو چکا تھا۔شہر کے سب سے بڑے صنعتی گروپ کی دھاندلیوں اور مزدور دشمنی کی کہانیاں ایک مقامی صحافی اپنے اخبار میں بے خوفی سے شائع کیا کرتے۔ مالکان نے ہر طریقے سے قابو میں لانے کی کوشش کی۔ وہ بھی اپنی طرز کے مختاررانا ہی تھے۔ اچانک وہ غائب ہو گئے۔ صحافیوں اور مزدورلیڈروں نے سرتوڑ کوشش کی مگر شمس کا پتہ نہ چل سکا۔ ان کے بارے میں آخری خبر یہ اڑی کہ چمنی میں پھینک دیا گیا تھا۔ بعد میں اسی کو حقیقت تصور کر لیا گیا۔
یہ تھا اس زمانے میں سرمایہ دار اور مزدور کی طاقت کا ''توازن‘‘۔ یہ تھا وہ ماحول جس میں مختاررانا نے‘ مزدوروں کے حقوق کے لئے‘ دیوانہ وار جدوجہد شروع کی۔ روٹی وہ ٹیوشن سینٹر سے کماتے۔ کام مزدوروں کے لئے کرتے۔ نومبر 1967ء میں پیپلزپارٹی قائم ہوئی۔ رانا صاحب پارٹی کے قیام سے پہلے ہی‘ بھٹو صاحب کے سرگرم کارکن بن چکے تھے۔ پارٹی معرض وجود میں آئی‘ تو رانا صاحب لائل پور میں پارٹی کے بانی صدر بنے۔ اس صنعتی شہر پر سرمایہ داروں کا غلبہ تھا۔ پولیس اور شہری انتظامیہ‘ ان کی تابع فرمان تھی۔ پیپلزپارٹی کو مزدوروں اور ترقی پسندوں کی پارٹی سمجھا جاتا تھا۔ سرمایہ دار اسے کیسے برداشت کرتے؟ پیپلزپارٹی کی طرف سے جس شخص یعنی مختار رانا کو لائل پور میں پارٹی منظم کرنے کی ذمے داری ملی‘ وہ اپنی نوعیت کا واحد سرپھرا تھا۔ نہ وہ پولیس کے دبائو میں آیا۔ نہ غنڈوں کے رعب میں اور نہ سرمایہ داروں کی ترغیبات سے متاثر ہوا۔ اس نے شہر کے ایک ایک محلے میں ‘پارٹی کی وارڈ کمیٹیاں بنانا شروع کر دیں۔ لائل پور میں اس وقت پارٹی کا نام لینا بھی جرم تھا۔ شہر میں مسلم لیگ اور ری پبلکن پارٹی کا زور تھا۔ میرعبدالقیوم ری پبلکن پارٹی کے لیڈر تھے۔ وزیربھی رہ چکے تھے۔ مہرمحمد صادق مسلم لیگ کے لیڈر تھے۔ دونوں ہی منجھے ہوئے سیاسی کارکن تھے۔ شہری آبادی کا بڑا حصہ انہی کو مانتا تھا۔ مختار رانا ہر محلے میں نچلے متوسط طبقے کے مزدوروں اور محنت کشوں سے تعلق رکھنے والے پرجوش اور رکنیت حاصل کرنے کے خواہش مند نوجوانوں کو پارٹی ممبر بنا کر وارڈز کے عہدے دیتے چلے گئے۔ کسی سیاستدان یا صحافی کو محسوس بھی نہ ہوا کہ شہر کی سماجی یا سیاسی زندگی کی نچلی تہہ میں‘ کوئی سیاسی پارٹی بنتی جا رہی ہے۔ یہاں تک کہ 1970ء کا الیکشن آ گیا۔ جو طبقے پارٹی تنظیم کا حصہ بنے تھے‘ ان میں کوئی کبھی‘ کمیٹی کا الیکشن بھی نہیں لڑا تھا۔ مزدوروں اور متوسط طبقے کے لوگوں میںٹکٹ بانٹنا پڑے۔ روایتی اراکین اسمبلی بھٹوصاحب کی مقبولیت دیکھ کر پارٹی کی طرف متوجہ ضرور ہوئے۔ مگر شمولیت اختیار کرنے سے ڈرتے رہے۔ میری تو کوئی سیاسی حیثیت ہی نہیں تھی۔ بھٹو صاحب نے سیالکوٹ اور لائل پور کی انتخابی مہم میںحصہ لینے کی ذمہ داری میرے سپرد کی۔ سیالکوٹ اس بنا پر کہ پسرور سے مولانا کوثر نیازی پارٹی کے امیدوار تھے۔ان کے جلسوں میں جاتا تو ساتھ سیالکوٹ شہر اور نارووال کے جلسوں میں بھی تقریریں کرنا پڑتیں۔ پارٹی کی انتخابی مہم‘ اتنی تیزی کے ساتھ اٹھی اور چھا گئی کہ بڑے بڑے سیاسی اور سماجی ماہرین‘ بھونچکے رہ گئے۔ ان دو شہروںکی سیاست کا پانسہ نہیں پلٹا‘ تختہ الٹ گیا تھا۔ پارٹی میں جتنے بڑے لیڈر تھے‘ سب اپنے اپنے حلقوں میں پھنسے تھے۔ کیونکہ 90 فیصد پہلی بار‘ الیکشن میں حصہ لے رہے تھے اور ان کی ساری توجہ اپنی کامیابی پر مرکوز تھی۔ مجھے یاد ہے‘ لائل پور والوں کو بڑی مشکل سے‘ صرف ایک جلسے کے لئے میاں محمودعلی قصوری دستیاب ہوئے۔ یہ جلسہ کوہ نور مل کے سامنے سڑک پر رکھا گیا تھا۔ شہر کے ہر حلقے میں پیپلزپارٹی کا جو جلسہ بھی ہوتا‘ اس میں حاضرین کی تعداد توقع سے زیادہ رہتی۔ مقرروں کے قحط کا یہ عالم تھا کہ لائل پور کے مہمان مقررین میں مجھی کو بڑا سمجھ لیا گیا۔ لاہور میں اس زمانے کے طالب علم لیڈروں میں افتخار احمد ‘ کبھی کبھی میرے ساتھ آ جاتے اور حاضرین کو اپنی شعلہ بیانی سے متاثر کرتے۔ کیا یہ سب کچھ اچانک ہو گیا تھا؟
ایسا نہیں ہوا کرتا۔ یہ مختار رانا کی انتھک محنت‘ لگن اور خلوص کا نتیجہ تھا کہ ہرمحلے میں پارٹی کی باقاعدہ تنظیم قائم کر دی گئی تھی۔ گلی گلی سٹڈی سرکل کام کر رہے تھے۔ مختار رانا کے طالب علم اور تربیت یافتہ کارکن‘ ایک ایک دن میںچارپانچ سٹڈی سرکلز میں جا کر مکالمہ شروع کرنے لگے۔تقریرصرف مختار رانا کیا کرتے۔پارٹی کے ممبر‘ سینئرکارکنوں سے بحث کرتے۔ روزانہ تمام سرکلز میں ایک ہی موضوع پر مکالمہ ہوا کرتا اور سینئر اراکین‘ عام ممبروں کے سوالوں کے جواب دیتے۔ جب انتخابات کا وقت آیا تو یہ پریکٹس قریباً اڑھائی سال سے جاری تھی۔ جبکہ روایتی سیاسی پارٹیاں‘ الیکشن سے ایک مہینہ پہلے فٹافٹ بندے بھرتی کر کے‘ اپنے انتخابی دفتر قائم کیا کرتیں۔ ان دفاتر میں چائے نوشی اور جوڑتوڑ کے سوا کوئی دوسرا کام نہ ہوتا اور نہ ہی ایسی سیاست کا‘ان پارٹیوں میں کوئی رواج تھا۔ ان سٹڈی سرکلز کا نہ کبھی میڈیا نے نوٹس لیا اور نہ سیاستدانوں نے۔ ان کی آنکھیں اس وقت کھلیں‘ جب پیپلزپارٹی کے جلسوں کی بھرمار شروع ہو گئی۔ روایتی امیدوار تو پورے محلے یا پورے حلقے کاجلسہ کیا کرتے۔ پیپلزپارٹی کے جلسے گلی گلی منعقد ہوتے۔ اس کے بعد پورے محلے کا جلسہ ہوتا اور ہفتے کی شام‘ ہر امیدوار پورے حلقے کا جلسہ کیا کرتا۔ روایتی سیاسی پارٹیوں میں اتنا متحرک تنظیمی ڈھانچہ‘ کسی کے پاس بھی نہیں ہوا کرتا تھا۔وہ پوری شہری آبادی کو سرگرم اور منظم اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے۔ جو سمجھ دار تھے‘ انہیں اندازہ ہو چکا تھا کہ بازی ان کے ہاتھ سے نکل رہی ہے۔ لیکن سرمایہ دار اور ان کے حلیف روایتی سیاستدان ‘جو ہمیشہ جیتنے کے عادی تھے‘ وہ اپنی جگہ پراعتماد تھے کہ وہ نہ پہلے کبھی ہارے ہیں اور نہ اب ہاریں گے۔ پیپلزپارٹی کے کارکن رات کو دوتین بجے جلسوں سے فارغ ہو کر گھروں کو جاتے اور صبح آٹھ بجے ڈور ٹو ڈور مہم چلانے نکل پڑتے۔ دوسری پارٹیوں کے اجرتی کارکن اتنا جوکھم کہاں اٹھاتے ہیں؟ انتخابی نتائج آئے‘ توپورا ضلع پیپلزپارٹی کے پاس چلا گیا۔ یہی سیالکوٹ کا حال ہوا۔ سیالکوٹ کی کامیابی کا سہرا میاں مسعود کے سر بندھا اور لائل پور کا مختار رانا کے سر۔ ایسی مثالی کامیابی کے بعد‘
مختار رانا کا خیال تھا کہ وہ پارٹی کے صف اول کے لیڈروں میں آ چکے ہیں۔ لیکن بھٹو صاحب دوسری صف کی قیادت میں صرف نمونے کے کامریڈوں کو جگہ دینے کے عادی تھے۔ اس سے زیادہ نہیں۔ معراج محمد خان‘ شیخ رشید‘ طاہراحمدخان اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے‘ ایک دو اور لیڈروں کو پارٹی میں نمایاں پوزیشن ملی۔ باقی سارے کامریڈ سڑکوں پر رہ گئے۔ مختار رانا ایم این اے ہونے کے باوجود‘ سڑکوں پر ہی رہے۔ انہوں نے اپنی طاقت کا آخری مظاہرہ اس وقت کیا‘ جب مشرقی پاکستان کے شہروں پر عوامی لیگ نے قبضہ کر لیا۔ مختار رانا نے آئو دیکھا نہ تائو‘ لائل پور پر قبضہ کر کے‘ پارٹی کی انتظامیہ قائم کر لی اور باقاعدہ احکامات جاری کرنے لگے۔ بھٹو صاحب انقلابی ضرور تھے مگر اتنے بھی نہیں۔ قبضہ کرنے کی وبا‘ دوسرے شہروں میں بھی پھیلنے لگی۔ بھٹو صاحب عوامی لیگ سے جاری مذاکرات کو بھول کے اپنے کامریڈوں کو قابو کرنے میں لگ گئے۔ مختار رانا بمشکل شہر کے ''اقتدار‘‘ سے دستبردار ہوئے۔ (جاری)