تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     25-07-2014

کشمیرپر میرے کہے کو پہلے سمجھیں تو سہی

پہلے حافظ سعید سے میری ملاقات پر ایوان(بھارت) میں ہنگامہ ہوا اور پھر کشمیر پر میرے خیالات کو لے کر ۔
مجھے افسوس ہے کہ ہمارے لیڈروں نے ان دو معاملات پر ٹھنڈے دماغ سے کیوں نہیں سوچا؟وہ کچھ خلاف قاعدہ ٹی وی چینلوں کے غلط پروپیگنڈے کے شکار کیوں بن گئے؟ آج تک دنیا کے کسی بھی ملک کا ایوان کسی صحافی یامحقق کی ملاقات پر کبھی اس طرح ٹھپ نہیں ہوا۔بھارت کے کئی نامی گرامی‘ تجربہ کار اور عاقل صحافیوں نے (زیادہ تر انگریزی اور اردووالوںنے)' سعید-ویدک ‘ ملاقات کی اتنی زبردست حمایت کر دی ہے کہ اب مجھے اس موضوع پر مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے لیکھوں (تحریروں) کے لئے آپ میری ویب سائٹ www.vpvaidik.com ملاحظہ فرمائیں۔ملک کے کونے کونے سے آئے ہزاروں ای میل‘وہاٹس اپ‘ایس ایم ایس اور فون کالز کیلئے سبھی دانشوروں کا دل کی گہرائیوں سے احسان مند ہوں۔
اس لیکھ میں میں آپ سے کشمیر کے بارے میںبات کروں گا۔27 جون کو اسلام آباد میں 'ڈان‘ٹی وی کے ایک صحافی افتخارشیرازی نے میرا انٹرویو کیا۔یہ انٹرویو نہ بھارتی قیادت نے طے کروایا اور نہ ہی پاکستان کے کسی لیڈر یا اعلی عہدیدار نے‘بالکل ویسے ہی جیسے 2 جولائی کو حافظ سعید کے ساتھ میری ملاقات کسی نے طے نہیں کرائی تھی۔ پچھلے سال مئی میں لگ بھگ15پاکستانی چینلوں نے میرا انٹرویو کیا تھا۔اس بار داخلی اتھل پتھل کی وجہ سے میڈیا کی ساری توجہ لاہور کے ماڈل ٹائون سانحہ اور دہشتگردوں کے خلاف فوجی آپریشن پر لگی رہی۔ پھر بھی میرے نصف درجن سے زیادہ انٹرویوز کیے گئے۔ پڑوسی ملکوں کے صحافی اور لیڈر مجھے اتنے عرصہ سے جانتے ہیں کہ ان سے ملنے جلنے کیلئے مجھے کسی مددکی ضرورت نہیں ہوتی۔
'ڈان ‘کا مذکورہ انٹرویو لگ بھگ آدھا گھنٹہ چلا۔ اس میں پاک بھارت تعلقات‘جنوبی ایشیا کی ریاستوں کے اتحاد‘ کشمیر ‘نریندر مودی‘آر ایس ایس اور موہن بھاگوت جی کے بارے میں بات ہوئی ۔یہ خصوصی انٹرویو انٹرنیٹ اور یو ٹیوب پر موجود ہے۔میری ویب سائٹ پر بھی آپ یہ انٹرویو دیکھ سکتے ہیں۔اب ناظرین خود طے کریں کہ میں محب وطن ہوں یا ملک سے بغاوت کرنے والا یا میں ایک ایسا انسان ہوں جو جنوبی ایشیا کو ایک کرنے میں لگا ہوا ہے۔ جو بات میں کہتا ہوں‘ براہ مہربانی کوئی مجھے بتائے کہ اس میں پاکستان یا بھارت کو کیا نقصان ہو سکتاہے۔اگر میں نے یہ کہا ہو کہ کشمیر کو بھارت اور پاکستان سے علیحدہ کر کے ایک آزاد ریاست بنانا چاہیے تو میں سولی پر چڑھنے کو تیا ر ہوں۔ 
میں نے کشمیر کو علیحدہ ملک بنانے کی جتنی سخت مخالفت کی ہے اور اپنے خیال کی حمایت میں جیسے ناقابل تردید اور مضبوط دلائل میں نے دیے ہیں‘کیا آج تک بھارت کاکوئی وزیر اعظم‘ کوئی وزیر خارجہ‘کوئی سفیر پاکستان میں بیٹھ کر سر عام دے سکا ہے ؟ایسی دلیلیں بھارت میں بیٹھ کر تو آپ دے سکتے ہیں لیکن پاکستانی ٹی وی پرکیا آج تک کسی بھارتی نے ویسی جرأت یا ہمت کی‘ جیسی اس معمولی بڈھے کھوسٹ ہندی صحافی نے کی ہے؟یہ ہمت اس نے اِس لیے کی کہ اس کے بارے میں سبھی پڑوسی ملکوں کے لوگ جانتے ہیں کہ وہ کسی ملک کا برا نہیں چاہتا۔وہ جنوبی ایشیا کے سبھی ممالک کو جوڑ کرایک عظیم جماعت کھڑی کرنا چاہتا ہے ‘جو یورپی جماعت سے بھی بہتر ہو۔میں نے اپنا وہ انٹر ویو آج پھر سنا۔مجھے فخر ہوا۔ اتنے اچھے اورسیدھے سوال شیرازی نے پوچھے اور ا ن سوالات کے ایسے جواب میرے منہ سے نکلے‘ جو نہ صرف کشمیر مسئلہ حل کر سکتے ہیں بلکہ اس قدیم آریہ ورت(جنوبی ایشیا) کو دنیا کا سب سے امن والااور خوشحال علاقہ بنا سکتے ہیں۔وہ انٹر ویو سن کر ایک 92 سالہ بزرگ اور مشہور سیاستدان‘جو ذوالفقار علی بھٹو 
کے ساتھی رہے ہیں‘نے مجھے لاہور میں کہا کہ 'وزیر اعظم ‘تو ہر ملک میں ہیں لیکن پورے جنوبی ایشیا میںڈاکٹر ویدک کتنے ہیں ؟
ان کے اس تعریف بھرے اظہار خیال کو شاید میں بھول ہی جاتالیکن ملک کا دشمن کہنے والے دوستوں نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں اسے عیاں کروں۔ لا علمی کی وجہ سے اٹھائے گئے سوال پر مجھے غصہ نہیں بلکہ افسوس ہے۔اس انٹرویو کے دوتین جملوں کو کاٹ چھانٹ کر انگریزی کے ایک مشہور چینل نے میرے خلاف خبر نشر کرنا شروع کردی۔ کیوں کر دی؟کیونکہ اس کے ایک مغرور اورجاہل اینکر کو مجھے بری طرح ڈانٹنا پڑا تھا۔اس اینکر کی نادانی کی وجہ سے کئی لیڈر اور کئی دانا پہلے سے پریشان رہتے تھے لیکن ان کی مجبوری تھی کہ وہ کچھ بول نہیں پاتے تھے۔مجھے بھی کسی کو ڈانٹنا اچھا نہیں لگتا لیکن اس اینکر نے پھوہڑپن کی حد کر دی تھی۔میرے پاس اس کی مذمت پر مبنی سیکڑوں ای میل‘وہاٹس اپ‘ فون وغیرہ آئے۔ شاید اس اینکر کا کوئی جرم نہ ہو۔ہو سکتا ہے کہ وہ نیم حکیم ہو ۔ وہ صرف انگریزی بولنا جانتا ہو۔اسے ہندی یا اردو ٹھیک سے سمجھ میں نہ آتی ہو۔اس نے میرے ہندی اردو کے انٹرویو کو غلط غلط سمجھا اور ویسا ہی دنیا کے سامنے پیش کر دیا ہو۔ یا ہو سکتا ہے کہ اس کی اس کمزوری نے اسے اور اس کے چینل کو بے بنیاد اوردستور کے خلاف باتیں کہنے پر مجبور کر دیا ہو۔اس کی دیکھا دیکھی کچھ دوسرے چینلوں نے اپنی ٹی آر پی بڑھانے کے چکر میں اس کی نقل کرنا شروع کر دی‘ انہوں نے بھارتی صحافت کی عزت کو دھول میں ملا دیاہے ۔
اس انگریزی چینل نے یہ نشر کرنا شروع کر دیا کہ میں نے کشمیر کو آزاد کر دینے یا آزاد ملک بنانے کی بات کہی ہے‘ جبکہ میں نے اس کا بالکل الٹا کہا تھا۔ میں نے کہا تھا کہ آپ کا (پاکستان) کشمیر بھی اسی طرح آزاد ہونا چاہیے‘جیسے کہ ہمارا کشمیر ہے ۔ ہر کشمیری کو ویسی ہی آزادی ملنی چاہیے‘جیسی مجھے دلی میں ہے اور آپ کو لاہور میں۔ کشمیر کو الگ ملک بنانا بھارت‘پاکستان اور خود کشمیر کے لئے نہایت ہی نقصان دہ ہوگا۔علیحدہ ریاست بن کر کشمیر زندہ نہیں رہ سکتا۔وہ بین الاقوامی کانسپریسی کا اڈہ بن جائے گا۔اگر دونوں کشمیر ایک ہو جائیں اور انہیں حقیقی خود مختاری دی جائے‘جیسے کہ بھارت میں ہر صوبے کو ہے‘تو یہی کشمیر امن اور دوستی کی جنت بن جائے گا۔وہ بھارت اور پاکستان کے بیچ ایک شگاف نہیں‘پل کا کام کرے گا۔یہ وہی بات ہے‘جو 1964ء میں اپنے انتقال سے پہلے بھارت کے وزیر اعظم جواہرلعل نہرو نے کہی تھی اور جسے لے کر شیخ عبداللہ پاکستان گئے تھے۔یہ وہی عظیم حل ہے‘جس پر وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی اور من موہن سنگھ جی کام کر رہے تھے اور جنرل پرویز مشرف بھی تیا رہو گئے تھے۔ اس بارے میں‘ میں نے لاہور سے 30 جون کو ایک لیکھ 'نیا انڈیا‘کو بھیجا تھا جو یکم جولائی کو اس کے خاص صفحہ پر شائع ہوا۔اس کا عنوان تھا'کشمیر :آزادی ہاں ‘ علیحدہ نہ‘ اس لیکھ کو پاکستان کے مشہور اخبار ''دنیا‘‘ نے بھی شائع کیا تھا۔ براہ مہربانی وہ لیکھ بھی پڑھیے۔میں نے اس معاملے کو آگے بڑھایا۔ ڈان کو دیے گئے انٹرویو میں میں نے یہ بھی کہا کہ میں صرف کشمیر کے بارے میں ہی نہیں سوچ رہا بلکہ پختونستان‘ ایران کے سیستان‘چین کے تبت اور سنکیانگ‘ناگا لینڈ‘میزورم‘برما کے کچین کرین‘سری لنکا کی تامل ریاست وغیرہ کی علیحدگی پسند تحریکوں کے بارے میں بھی سوچتا رہا ہوں۔پچھلے پچاس سال کی اپنی سیاسی سوچ بچار اور صحافت کے دوران مذکورہ سب علیحدگی پسند لیڈروں سے میرا گہرا رابطہ رہا۔ (میرے ساتھ ان کی تصویریں آپ میری ویب سائٹ پر دیکھ سکتے ہیں) ان سب کا ایک ہی حل ہے۔اپنے جنوبی ایشیائی املاک کے اب مزید ٹکڑے کرنے کے بجائے انہیں ہمیں جوڑنے کا کام کرنا چاہیے اور وہ ہوگا جنوبی ایشیا کی بڑی جماعت کھڑا کرنے سے ۔
یہ بات میں نے تال کٹورہ سٹیڈیم کی اس تقریر میں بھی کہی تھی‘ جس میں خود نریندر بھائی مودی(امیدوار برائے وزیر اعظم)موجود تھے۔وہ بھی یُو ٹیوب پر موجود ہے۔نریندر مودی ایسے پہلے بھارتی وزیر اعظم ہیں‘جنہوں نے اپنی حلف برداری تقریب میںپڑوسی ملکوں‘ خاص طور پر پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو مدعو کیا۔میرے لیے اس سے زیادہ خوشی کی بات اور کیا ہو سکتی تھی؟
جو آدمی ایشیا کی سبھی علیحدگی پسند تحریکوں کا مخالف رہاہے ‘ وہ بھلا کشمیر کے علیحدہ ہونے کی حمایت کیسے کر سکتا ہے؟ سبھی علیحدگی پسند تحریکوں کے بارے میں میرا رویہ پریکٹیکل ہے اور جنوبی ایشیا کی سبھی ریاستوں کے بارے میںمتحدجماعت کا زبردست حامی ہوں۔
نوٹ:- ڈاکٹر ویدک نے اپنے ملک کے اندر ہونے والی تنقید کا جواب دیا ہے۔ اس کے مخاطب ہم پاکستانی نہیں۔ لیکن ان کی باتیں غور طلب ضرور ہیں۔ کشمیر برصغیر کا واحد تنازع ہے‘ جسے حل کرنے میں 67 برسوں کے دوران ذرا بھی پیشرفت نہیں کی جا سکی۔ گلیشیئر کی طرح منجمد مسائل کو حل کرنے کے لئے‘ شدید زلزلوں جیسے جھٹکے دے کر نئے خیالات نکالنا پڑتے ہیں۔ ابتدائی مرحلے میں انہیں پسند اور ناپسند کے معیاروں سے بالاتر ہو کر دیکھنا چاہیے۔ چھان پھٹک کا مرحلہ بعد میں آتا ہے۔ ردوقبول اس کے بعد۔ فریقین کے اتفاق رائے پر مبنی‘ فارمولے کی تیاری آخری مرحلہ ہوتا ہے۔ میں ڈاکٹر صاحب کی کوششوں کو ‘گلیشیئر میں دراڑ لانے کی ایک کوشش سمجھتا ہوں۔ (نذیرناجی) 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved