ہفتے کے سات دنوں میں '' جمعۃ المبارک ‘‘وہ مقدس دن ہے، جس کے نام سے قرآن مجید کی ایک پوری سورت نازل ہوئی ۔ا س سورۂ مبارکہ کے دوسرے رکوع میں ارشادباری تعالیٰ ہے :'' اے مومنو!جب جمعہ کے دن نمازِ (جمعہ) کی اذان دی جائے ،توتم اللہ کے ذکر (نماز) کی طرف دوڑپڑو اورخریدوفروخت چھوڑ دو ،یہ (روش) تمہارے لئے بہترہے ،اگرتم جانتے ہو۔پھرجب نماز اداکردی جائے،توتم زمین میں پھیل جاؤاوراللہ کا فضل تلاش کرواورکثرت سے اللہ کاذکر کروتاکہ فلاح پاؤ،(جمعہ:9-10)‘‘۔ ابتدائِ اسلام میں جمعہ کے لئے ایک ہی اذان دی جاتی ہے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے عہدخلافت میں شہر کے پھیلاؤ کی وجہ سے دوسری اذان شروع کی ۔پہلی اذان وقت شروع ہونے پر مقام''زوراء ‘‘پر دی جانے لگی اوردوسری اُس وقت،جب امام خطبے کے لئے منبر پر بیٹھ جاتا،تواس کے سامنے دی جاتی ۔یہ امر تو سب پر واضح ہوگاکہ خطبۂ جمعہ خلیفہ وقت دیتاتھا ۔
اس پر بھی فقہائے کرام نے کلام کیا ہے کہ کاروبار پہلی اذان پر ترک کرنا ہوگا یا دوسری اذان پر ،اس بارے میں دونوںطرح کی آراء موجود ہیں۔لیکن حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ پہلی اذان پر کاروباری معمولات چھوڑ کر جمعہ کی تیاری کی جائے تاکہ خطبہ سننے کے لئے بروقت پہنچ سکے،کیونکہ خطبۂ جمعہ کا سننا واجب ہے ۔جمعہ کی اہمیت بیان کرنے کے لئے چند احادیث درج ہیں:
(1)رسول اللہ ﷺ نے منبر پر بیٹھ کر ارشاد فرمایا :'' لوگ جمعہ ترک کرنے سے باز آجائیں ،ورنہ اللہ ان کے دلوں پر مہر لگادے گا،پھر وہ غافلوں میں سے ہوجائیں گے‘‘۔(2)آپ ﷺ نے فرمایا:امام کے خطبے کے دوران اگر تم نے اپنے ساتھی سے کہا کہ چپ ہوجا(اگرچہ بظاہر یہ اچھا کام ہے) ، تو تو نے لغو کام کیا،(بخاری:934)۔(3)آپ ﷺ نے فرمایا:جس نے سستی کی بناپر (کسی عذر شرعی کے بغیر) تین جمعے چھوڑ دیئے ،اللہ اس کے دل پر مہر لگادے گا ‘‘۔جمعۃ المبارک کی نماز کی اہمیت کو جاننے کے لئے یہ وعید کافی ہے ۔(4)آپ ﷺ نے فرمایا:ہم (بحیثیتِ امت) دنیا میں آمد کے اعتبار سے سب سے آخر ی امت ہیں اور (محشر میں حاضری یا جنت میں داخلے کے اعتبار سے) سب سے اول ہوں گے، سوائے اس کے انہیں کتاب الٰہی پہلے عطا کی گئی اور ہمیں بعد میں عطا کی گئی، پھر یہ جمعہ ان پر فرض کیا گیا، توانہوں نے اس میں اختلاف کیا، تواللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کو پانے کی ہدایت فرمائی اور آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ہم پیدائش کے اعتبار سے امتوں سے آخر میں ہیں اور قیامت کے دن سب سے پہلے ہمارا حساب کتاب ہوگا۔(5)آپ ﷺ نے جمعے سے (کسی عذر شرعی کے بغیر) پیچھے رہ جانے والوں کے لئے فرمایا:''میں ارادہ کرتاہوں کہ ایک شخص کو لوگوں کی امامت کے لئے کھڑا کروں اور پھر جمعے سے پیچھے رہ جانے والوں کے گھروں کو آگ لگا دوں۔(6)آپ ﷺ نے فرمایا: جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اس پر نمازِ جمعہ کی ادائیگی لازم ہے، چند قسم کے لوگوں کے لئے جمعے کی رخصت ہے، یعنی مریض، مسافر، عورتیں اور بچے۔(7)آپ ﷺ نے فرمایا: بہترین دن جس میں سورج طلوع ہوا، جمعے کادن ہے۔
علامہ علاؤالدین حصکفی لکھتے ہیں:''جب امام خطبے کے لئے نکل جائے، تو نہ کوئی نماز پڑھی جائے اور نہ کلام کیا جائے‘‘۔
احادیث مبارکہ میں جمعۃ المبارک کے دن بعض اہم واقعات کے ظہور پذیر ہونے کا بیان ہے ،جن میں سے چند یہ ہیں:''آدم علیہ السلام کی پیدائش ،اُن کا جنت سے نکلنا ،اُن کی توبہ کا قبو ل ہونا ، اُن کی وفات ،قیامت کا قائم ہونا اور اس کے مختلف مراحل کا ظہور ‘‘۔ اسی طرح احادیث مبارکہ میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ جمعۃ المبارک کے دن ایک ''ساعتِ قبولیت‘‘ ہے کہ اگر اس وقت کوئی دعاکرے ،تواللہ تعالیٰ اُسے شرفِ قبولیت عطافرماتاہے۔لیلۃ القدر کی طرح اسے بھی مستور رکھاگیاہے تاکہ بندوں کے ذوق وشوق کا پتاچلے۔تاہم بعض روایات کی روسے یہ امام کے خطبے کے لئے قیام سے لے کر اختتام نماز تک ہے اوربعض کی روسے یہ نمازِ عصرسے غروبِ آفتاب کے درمیان کی کوئی ساعت ہے ۔ایک روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جمعہ افضل الایام ہے ،قیامت کا سور پھونکنے کا عمل اورخوفناک کڑک جس سے تمام جاندار وفات
پاجائیں گے ،جمعہ ہی کے دن ظہور میں آئے گی،سوتم مجھ پر کثرت سے درود بھیجو ،کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیاجاتا ہے ، صحابۂ کرام ؓنے عرض کی :''ہمارا درود آپ پر کس طرح پیش کیاجائے گا ، جب کہ آپ کا جسمِ مبارک بوسیدہ ہوچکاہوگا ، آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ نے زمین پر حرام کردیاہے کہ وہ انبیاء کرام کے اجسام مبارکہ پر اثر انداز ہو‘‘۔
رسول اللہ ﷺ زوال کے بعد چار رکعات پڑھتے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا : یہ (ایک مبارک) گھڑی ہے، اس میں آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، تو میں چاہتاہوں کہ اس میں میرا نیک عمل عالَمِ بالا میں جائے ، (سنن ترمذی :478)‘‘۔
ہمارے خطے میں رمضانِ مبارک کے آخری جمعے کو ''جمعۃ الوَداع‘‘ کے طور پر منایا جاتاہے اور اس کے لئے جمعے کے خطبے میں ''اَلوداعُ الوداعُ یا شھرَ رمضانَ‘‘ کے کلمات بھی پڑھے جاتے ہیں ، اس کی شریعت مبارکہ اور سنت نبویہ میں کوئی اصل نہیں ہے۔ اسی طرح لوگوں کا جمع ہوکر'' آج رمضان کی الوداع ہے‘‘جیسے اشعار نعت خوانی کے انداز میں پڑھنے کی بھی کوئی اصل نہیں ہے۔البتہ حدیثِ مبارَک کی رو سے رمضان المبارک میں ایک فرض کا اجر ستر فرائض کے برابر ہے لہٰذا رمضان مبارک کے ہر جمعۃ المبارک کا اجر ستر جمعوں کے برابر ہے۔ اس لئے پورے رمضان کی ساری عبادات کو یکساں اہتمام کے ساتھ ادا کرنا چاہئے ۔ فطری طور پر سوال پیدا ہوتاہے کہ جولوگ جمعۃ الوداع یا عیدالفطر کے دن کثیر تعداد میں حاضر ہوتے ہیں ، وہ باقی جمعوں میں کہاں ہوتے ہیں ۔ شریعت کی رُو سے تو رمضان مبارک کے تمام جمعوں کا اجر برابر ہے۔ مزیدیہ کہ رمضان مبارک کی تربیت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے ذوق وشوق عبادت کو زندگی کا لازمی حصہ بنایا جائے، اسلام کو بالکلّیہ قبول کیا جائے، Pick & Chooseکا شِعار ترک کیاجائے۔
ہاں! اگر کوئی یہ دعا کرناچاہے کہ یا ربّ العٰلمین یہ سعادت زندگی میں بار بار نصیب فرما، تو درازی عمر بالخیر کی دعا ہے اور ایسی دعائیں اور تمام مسنون دعائیں کثرت سے کرنی چاہئیں۔
جب رسول اللہ ﷺ نمازِ جمعہ کا خطبہ ارشاد فرماتے، تو وہ اس دوران قرآن مجید کی نازل شدہ آیات کے ابلاغ اور احکام شرعیہ کی تبلیغ کا مؤثر ذریعہ تھا۔ خلفائے راشدین بھی اپنے خطبات میں امت کے اجتماعی معاملات اور ریاستی امور کے بارے میں ہدایات جاری فرماتے، یہ موجودہ دور میں امریکہ کے ''اسٹیٹ آف دی یونین ایڈریس‘‘ سے ملتی جلتی صورت تھی۔ فرق یہ ہے کہ اسلام میں حکومت اور نظم اجتماعی اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق کی بجاآوری کا ذریعہ ہونے کی وجہ سے عبادت کادرجہ رکھتا ہے۔ آج کل جمعۃ المبارک کے خطبات احکام شریعت کی تبلیغ کا ذریعہ ہے۔
اصل مسنون تو عربی خطبہ ہے، جوعہدِ نبوت سے توارث اور تسلسل کے ساتھ چلا آرہا ہے، لیکن چونکہ سب لوگ عربی نہیں جانتے، اس لئے ''خطبہ مسنونہ‘‘کا وقت ہوتاہے۔ اس سلسلے میں خطبائے کرام کو بھی اپنی اداؤں پر غور کرناچاہئے۔ اگر وہ روایتی انداز کی مسلکی امتیازات وتخصُّصات پر مشتمل رٹی رٹائی تقاریر کا سلسلہ جاری رکھیں گے، تو لوگ انہیں بارہا سن چکے ہوتے ہیں ۔ ایسے ماحول میں صرف چند بزرگ یا روایتی سامعین ہی دستیاب ہوں گے۔
لیکن اگر ہمارے خطبائے کرام لوگوں کو روز مرہ اور عملی زندگی میں پیش آنے والے مسائل پر بات کریں گے اور لوگوں کی دینی رہنمائی کے ساتھ ساتھ ان کے دینی علم میں اضافہ کریں گے، لوگوں کے سامنے حالاتِ حاضرہ کے تقاضوں سے ہم آہنگ دین کی تطبیق کریں گے اور اخلاقی واصلاحی امور پر جامع ، مفصل اور مدلّل انداز میں گفتگو کریں گے، توہمارا تجربہ ہے کہ لوگ سننے کے لئے بھی آتے ہیں ، بالخصوص نوجوان زیر بحث موضوع پر غور بھی کرتے ہیں، ان کے ذہنوں میں جو اشکالات اور سوالات ابھرتے ہیں ، ان کا بھی اظہار کرتے ہیں اور اس طرح مثبت اور تعمیری ربط باہمی کی صورت پیدا ہوتی ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ لوگوں پر کوئی بات مسلط نہ کی جائے بلکہ دلیل اور استدلال سے انہیں قائل کیاجائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''(لوگوں کو) اپنے رب کے راستے(یعنی دین) کی طرف حکمت اور پرتاثیر نصیحت کے ذریعے بلاؤ اور جہاں بحث یا مکالمہ کرنا پڑے تواحسن طریقے سے کرو،(نحل:125)‘‘۔