وزیراعظم میاں نواز شریف کا نجی دورۂ سعودی عرب اور سابق صدر آصف علی زرداری اور نواز شریف کے خارجہ امور کے مشیر طارق فاطمی کا ایک ساتھ طویل دورۂ امریکہ کا مقصد چودہ اگست کے مارچ کے خلاف امریکی آشیرباد حاصل کرنے کے سوا اور کچھ نہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو کسی طور بھی غلط نہ ہو گا کہ میاں نواز شریف اور ان کے مخالفین کی سیا ست کا یہ'' آخری معرکہ‘‘ ہے اور اپنے اس آخری معرکہ کی کامیابی کیلئے وہ اپنے سیا سی مخالفین کے خلاف‘ جو چودہ اگست کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور انقلاب مارچ کرتے ہوئے ان کی حکومت کے خاتمے کی کوششوں میں مصروف ہیں‘ ان کا مقابلہ جمہوری انداز میں نہیں بلکہ امریکی امداد سے کرنا چاہتے ہیں۔ یہ تو بہر حال سامنے لکھا ہوا نظر آ رہا ہے کہ ملکی سیا ست کے دونوںفریقین کا بھی اپنی اپنی سیاست کے تنزل یا تسلسل کیلئے یہ آخری معرکہ ہے اور اس میں جس کی بھی تلوار سب سے پہلے ٹو ٹ گئی وہی دیرپا شکست سے ہمکنار ہو گا۔ وزیر اعظم کے اس دورے کی اہمیت اور عجلت کا اس سے بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ میاں نواز شریف نے سعودیہ پہنچنے کے اگلے ہی روز سعودی عرب کی انتہائی طاقتور شخصیات ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبد العزیز السعوداور مقرن بن عبد العزیز السعود سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں اور جب وہ یہ ملاقاتیں کر رہے تھے تو اسی وقت امریکہ پہنچنے والے پاکستان کے سابق صدر‘ جنہیں ان کی سابق حیثیت کے مطا بق امریکیوں نے پروٹوکول دیا نائب صدر جو بائیڈن اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے اہم لوگوں سے پاکستان کی آنے والی سیا سی صورت حال پر بات چیت کررہے ہیں۔ دوسری طرف نواز شریف کے اہم ترین ساتھی طارق فاطمی فیصلہ ساز امریکی حکام سے ملاقاتیں کر رہے ہیں اور اس 8 روزہ قیام امریکہ میں وہ پینٹاگان اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سمیت وائٹ ہائوس کے با اثر لوگوں سے بھی ملیں گے جس کیلئے امریکہ میں جناب وزیراعظم کے بزنس پارٹنر ز پہلے سے ہی رابطوں میںہیں‘ ہو سکتا ہے حکمران خاندان کاکوئی دوسرا فرد چودہ اگست سے بہت پہلے برطانیہ کا دورہ کرتے ہوئے نئے احکامات وصول کرے اور اگر یہ ملاقات ہوتی ہے تو اس کے نتائج بارے سب کچھ اسی وقت سامنے آجائے گا جب برطانیہ شاہی سے ملاقات کے بعد ان کی باڈی لینگوئج دیکھنے کو ملے گی۔ یہ سب اس لیے کہ پاکستان کے2008ء اور2013ء کے عام انتخابات کااصلی'' چیف الیکشن کمشنر‘‘ برطانیہ ہی تھا۔۔۔ اب لاکھ تردید جاری کریں لیکن شہلا رضا نے اس بارے جو سچ کہا ہے وہ اب چُھپ نہیں سکتا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ دوست ملک کس حد تک میاں نواز شریف کی حکومت کی مدد کو آ سکتا ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ وہ کبھی بھی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کو نظر انداز نہیں کرے گا اور وہ یہ بھی دیکھے گا کہ اس وقت پاکستانی عوام کی اکثریت کیا سوچ رہی ہے؟ حکمرانوں سے اس سے قبل بھی بنیادی غلطی وہی ہوئی کہ وہ پاکستان کے حساس اداروں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی بجائے الٹا ان کو غیروں کی شہ پر بدنام کرنے والوں کا ساتھ دیتے ہوئے نظر آنے لگے۔ آپ بے شک کراچی جا کر زخمی اینکر کی عیادت کر آتے لیکن فوج کے ساتھ بھی کھڑے ہوتے جو اپنے افسروں اور جوانوں کی لاشیں اٹھا رہی تھی۔ دوسرا کام یہ کر بیٹھے کہ نیوزی لینڈ کی سٹیل مل بارے طاہر القادری کے لندن میں دیئے جانے والے انٹرویو پر اس قدر مشتعل ہو گئے کہ ماڈل ٹائون میں ادارہ منہاج القران کا سانحہ عظیم ہو گیا اور اس ظلم و بر بریت پر لگتا ہے کہ قدرت بھی بپھر گئی اور اس کی جانب سے'' گلو بٹ‘‘ کی شکل میں انسان نما شیطان سامنے آگیا۔ اس پر بھی لوگوں کی نظریں ہٹائی جا سکتی تھیں لیکن ایس پی ماڈل ٹائون کی تھپکیاں اور پولیس کے جوانوں کی کمان کرنے والی میڈیا کوریج اور پولیس نگرانی میں شہریوں کی وہاں کھڑی درجنوں گاڑیاں توڑنے نے بازی ہی پلٹ دی اور اوپر سے قوم کی بیٹیوں کے پاکباز چہروں پر کلاشنکوفوں کے برسٹ سے لگتا ہے کہ پولیس اور حکومت کے دل سے رحم ہی نکل گیا ہے۔ پھر ارسلان افتخار کی وائس چیئر مین بلوچستان سرمایہ کاری بورڈ کی تقرری، کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کی تقرری کا مسئلہ، بجلی کی ہولناک لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی سے عوامی مزاج کا ذائقہ دن بدن تلخ ہوتا چلا گیا۔
اپنی حکومت کے استحکام کیلئے مدد مانگنے والے حکمرانوں کو آخر میں امریکہ نے ہمیشہ ذلیل و رسوا ہی کیا ہے اس لیے اگر جھکنا ہی ہے تو اپنے عوام کی مرضی کے آگے جھکیں۔ اگر یقین نہیں آرہا تو سنیں:۔ 8نومبر2006ء کو امریکہ کے وزیر دفاع رچرڈ آرمٹیج نے امریکی کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے دھمکی آمیز لہجے میں کہا'' اگر جنرل مشرف نے ہمارے دیئے گئے ایجنڈے پر مکمل عمل نہ کیا تو انہیں'' دبانا‘‘ پڑے گا‘‘ امریکہ جب بھی اپنے کسی اتحادی یا دوست کو بھیڑیوں کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے تو اس وقت اس کے ارادوں میں ذرا سی بھی لغزش نہیں آتی بلکہ یہ کہہ کراسے دھتکار دیتاہے کہ یہ شخص جو ہمارا دوست اور اتحادی بنا ہوا تھا اب کسی بھی طرح سے امریکہ کے مفادات پورے کرنے کے قابل نہیں۔ چیانگ کائی شیک کی مثال سامنے رکھیں جو مسلسل چار سال تک امریکہ کے کہنے پر جاپان سے لڑتا رہا۔ امریکہ نے جب دیکھا کہ اس کی طاقت مائو زے تنگ کے مقابلہ میں کمزور ہو چکی ہے تو امریکیوںنے اس سے یہ کہتے ہوئے کنارہ کشی کرلی کہ یہ بد دیانت اور نا اہل شخص ہے‘ اسے ہم اپنے لیے مزیدبوجھ کیوں بنائے رکھیں۔ جنوبی ویت نام میں جب بدھسٹ راہبوں نے اپنے آپ کو قربان کرنا شروع کردیا تو اس کے صدر ڈیم جسے امریکی ویت نام کا جارج واشنگٹن کہتے ہوئے
خراج تحسین پیش کیا کرتے تھے‘ یک دم اس کے بارے میں کہنا شروع ہوگئے کہ اس کی تو فرد واحد کی حکومت ہے بلکہ اس کے بارے میں یہاں تک پروپیگنڈا شروع کرا دیا گیاکہ یہ تو بدھ ازم میں کیتھولک آمر ہے جسے اس کے عوام بالکل پسند نہیں کرتے اور وائٹ ہائوس سے اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے جنوبی ویت نام کے جرنیلوںکو پیغام بھیجا کہ صدر ڈیم کا تختہ الٹ کر تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لو اور انہیں یہاں تک یقین دہانیاںکرادی گئیں کہ اس سلسلے میں وہ کسی کی پروا نہ کریں کیونکہ ان کو امریکہ کی مکمل سپورٹ حاصل رہے گی اور صدر جان ایف کینیڈی کے اپنے قتل ہونے سے بھی تین ہفتے قبل امریکہ کے جانثار اتحادی اور دوست صدر ڈیم اور ان کے بھائی کو امریکیوں نے وفاداری نبھانے کی سزا دینے کیلئے ان کے انجام تک پہنچا دیااور جب اسی امریکی اسٹیبلشمنٹ نے اس ملک میں مسلط کی جانے والی جنگ سے نکلنے کا ارادہ کیا جس سے یہ ملک تباہ ہو کر رہ گیا تھا تو صدر ڈیم کو اپنے انجام تک پہنچانے والے جنرل تھیو کائی ٹولے کو جنرل مشرف کی طرح کرپٹ اور آمر کہنا شروع کر دیا گیا۔۔۔۔امریکہ نے اپنے جس دوست کو بھی انجام تک پہنچایا وہ تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہونے کے بعد سب کے سامنے ہے۔
ہنری کسنجر نے شائد اسی لیے کہا تھا کہ اس دنیا میں امریکہ کے دشمنوں کا نقصان بہت کم ہوتا ہے لیکن جو اپنے آپ کو امریکہ کا دوست ثابت کرتے رہتے ہیں ان کیلئے امریکہ ہی کی طرف سے بد قسمتی ان کے مقدر میں لکھ دی جا تی ہے۔