تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     25-07-2014

لیلتہ القدر کی تلاش

پچھلے ماہِ رمضان لیلتہ القدر کی تلاش پر ایک مضمون تحریر کیا تھا۔ یہ ہزار ماہ یعنی 83برس سے بہتر ایسی ایک مقدس رات ہے جس میں خدا کا آخری مستند کلام نازل ہوا۔ بجا طور پر اسے رمضان کا حاصل کہا جاسکتاہے ۔ نبی اکرمؐ نے فرمایا تھا کہ آخری عشرے کی طاق راتوں میں اسے تلاش کرو۔تلاش سے مرادعام طور پر یہ لی جاتی ہے کہ پانچوں طاق راتوں میں خوب عبادت کی جائے۔ لیکن ایک حدیث سے گمان یہ ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓشاید واقعتاً اسے تلاش کیا کرتے ۔ ہماری ماں حضرت عائشہ ؓ نے سوال کیا کہ اگر انہیں لیلتہ القدر مل جائے تو وہ کون سی دعا مانگیں ؟ حضور ؐ نے فرمایا: اللھّم انک عفو تحب العفو فاعف عنی۔ اے اللہ تو معاف کرنے والا ہے ، معاف کرنے کو پسند کرتا ہے ؛لہٰذا مجھے بخش دے۔ ام المومنینؓ کے الفاظ پر غور فرمائیے ۔یوں لگتاہے کہ کسی شب کی بابت انہیں لیلتہ القدر ہونے کا زیادہ گمان ہو تا ۔ساری عمر قرآن و حدیث پر غور کرنے والے اور جدید ترین سائنسی تحقیقات سے واقف پروفیسر احمد رفیق اختر اس بارے میں ہمیشہ ایک اندازہ قائم کرتے ہیں ۔ سوال کیا تو انہوںنے بتایا : 
1۔ اس رات بادل ٹکڑیوں کی صورت میں آسمان پر موجود ہوتے ہیں ۔
2۔ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی طاق رات کا امکان زیادہ ہوتاہے ۔ 
3۔ لیلتہ القدر کے اگلے دن دوپہر سے پہلے تک سورج کی روشنی توموجودہوتی ہے لیکن تپش نہ ہونے کے برابر۔ 
4۔ وہ بڑی پرسکون اور خاموش رات ہوتی ہے ۔ ایک خاص سکینت اللہ کے بندوں پہ طاری ہو جاتی ہے ۔اس لیے کہ سورۃ القدر کے مطابق فرشتے اور حضرت جبرائیل ؑ اللہ کا اسمِ سلام لے کر زمین پر اترتے ہیں ''تنزل الملا ئِکۃ والروح فیھا باذن ربھم من کل امر سلام‘‘
سورۃ القدر میں خدا فرماتاہے : اس رات فرشتے اور روح (روح الامین یعنی حضرت جبرائیل ؑ) اپنے رب کے حکم سے (زمین پر )اترتے ہیں ...
میں نے غور کیا تو مجھے یقین ہونے لگا کہ فرشتے کرّہ ارض کا رخ کرتے ہیں تو بادلوں کا ایک خاص کردار ہوتاہے ۔ قرآن میں لکھا ہے : یہ لوگ اس کے سوا کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور فرشتے بادلوں کے سائے میں ان کے پاس اتر آئیں اورمعاملہ نمٹا دیا جائے؟ ...(مفہوم) ۔ ایک واقعہ حضرت اسیدؓ کا ہے ، جن کی آواز کا عرب میں چر چا تھا۔ صحابہ کرامؓ بطورِ خاص ان کی تلاوت سننے کے لیے تشریف لاتے ۔ ایک بار اسیدؓ رحمتہ اللعالمینؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ ایک بہت ہی عجیب واقعہ ان پر بیت گیا تھا۔ کہا: میں ایک میدان میں کسی کام میں 
مصروف تھا ۔اپنا گھوڑا میں نے باندھ رکھا تھا اور اس کے قریب ہی زمین پر میرا بچہ سور ہا تھا۔ اسیدؓ نے بتایا کہ وہ تلاوت کرتے جاتے تھے کہ آسمان پہ موجود بادل نیچے اترنے لگے ؛حتیٰ کہ وہ گھوڑے کے سر کے قریب پہنچ گئے ۔ انہوں نے سوچا کہ گھوڑا بدک گیا تو بچے کو نقصان پہنچ سکتاہے ؛چنانچہ خاموش ہوگئے ۔بادل دوبارہ بلند ہونے لگے اور آسمان کی طرف لوٹ گئے ۔ حضرت محمدؐ نے فرمایاکہ فرشتے تھے ، جو تلاوت سننے کے لیے اتر رہے تھے ۔ اگر تم خاموش نہ ہو جاتے تووہ تمہیں سلام (یا مصافحہ) کر کے ہی لوٹتے ۔ (مفہوم)قارئین یہاں سلام کا لفظ استعمال ہوا ہے یا مصافحے کا، یہ مجھے درست طور پر یاد نہیں ۔ 
پروفیسر صاحب کا خیال یہ ہے کہ نوری مخلوق ہونے کے ناتے فرشتے شاید الٹرا وائلٹ شعاعوں سے بنے ہوتے ہیں ۔ بادلوں کی اوٹ میں وہ روپوش رہتے ہیں ۔معراج کے واقعہ میں نبی کریمؐ ایک تیز ترین سواری ''براق ‘‘پر تشریف فرما ہو کر اللہ سے ملاقات کے لیے روانہ ہوئے تھے ۔ شاید ایسی سواریاں فرشتوں کے تصرف میں ہوتی ہیں ، جو سورج سے توانائی لیتی ہیں اور وقتی طور پر اس کی تپش کم ہو جاتی ہے ۔اس پر میں نے دو اعتراض جڑ دئیے ۔ کائنات تو کھرب ہا کھرب سورجوں سے بھری پڑی ہے اور سورج کی تپش اگلے روز دن چڑھے تک کم کیوں ہوگی ، جب کہ لیلتہ القدر گزر چکی ہوتی ہے ۔ پروفیسر صاحب نے بتایاکہ بے شک کائنات میں ان گنت سورج ہیں لیکن اس رات فرشتے نظامِ شمسی میں موجود ہمارے سورج کے قریب سے گزرتے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ دن اور رات کا تصور تو ہماری زمین اور سورج کے گرد گردش کرنے والے دوسرے سیاروں کا ہے ۔ ان کا جو حصہ سورج کی طرف ہو ، اس پر دن ہوتاہے اور دوسری طرف رات لیکن جہاں تک خود سورج کا معاملہ ہے ،رات کا وہاں کیا تصوّر ؟وہ تو سراپا روشنی ، سراپا دن ہے ۔ 
پروفیسر صاحب کے خیال میں 22اور 23رمضان(جمعرات اور جمعے ) کی درمیانی شب لیلتہ القدر تھی ۔ جمعرات کا دن جبرائیل ؑ کے ساتھ مخصوص ہے ۔ پھر وہ بتانے لگے کہ جو لوگ قرآن اور حدیث کا علم نہیں بھی رکھتے ، ان میں سے بعض اس رات کے بارے میں اپنے مشاہدات بیان کرتے ہیں ۔ مثلاً کچھ کا دعویٰ ہے کہ اس رات کتّے بھونکتے نہیں اور کچھ کہتے ہیں کہ درختوں کو سجدے میں دیکھا گیا ہے ؛حالانکہ درختوں کی عبادت کا طریقہ مختلف ہے ۔ ان کے سائے لمبے ہونے لگتے ہیں ۔ 
ضروری نہیں کہ ہر معاملے میں پروفیسر صاحب کا نقطہ ء نظر سو فیصد درست ہو۔ غلطی کا احتمال بہرحال رہتاہے ۔ خود ان کا طریق یہ ہے کہ دلائل کی بنیاد پر اپنا موقف وہ بیان کر دیتے ہیں ۔لیکن اپنی عقل اور علم کے مطابق غور وفکر کرنے کا مشورہ دیتے ہیں؛لہٰذا قرآن ، حدیث اور فلکیات کا علم رکھنے والوں کی آرا کا انتظار رہے گا۔ 
پسِ تحریر: کپتان کا کہنا یہ ہے کہ شمالی وزیرستان کے مہاجرین کا خیال رکھنا ان کا نہیں بلکہ وفاقی حکومت کا کام ہے ۔ اسی پسِ منظر میں وہ آئی ڈی پیز کے لیے اس طرح متحرک نہیں ، جیسا کہ شوکت خانم پشاور کی تعمیر کے لیے اندرون اور بیرونِ ملک چندہ مہم چلائی جا رہی ہے ۔ دوسری طرف پختون خوا میں چھوٹے دریائوں اور ندی نالوں پر بجلی کے چھوٹے یونٹ لگانے کے مواقع ان گنت ہیں ، جو محض چھ ماہ میں پایہ ء تکمیل تک پہنچ سکتے ہیں ۔ اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنے کی بجائے ، وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک کی قیادت میں صوبائی حکومت بآوازِ بلند احتجاج کر رہی ہے ۔ کیا یہ وہی عمران خان اور وہی پی ٹی آئی ہے ، جس کی انتخابی مہم میں ہم نے بھرپور حصہ لیا تھا؟ ایسا لگتاہے کہ آنے والے برسوں میں نون لیگ کے ساتھ ساتھ تحریکِ انصاف بھی زوال پذیر ہوگی اور کچھ نئی سیاسی قوّتیں پاکستانی سیاست کے عظیم الشان خلا کو پر کریں گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved