تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     26-07-2014

ایک اور سچا مگر ناکام انقلابی

(آخری قسط)
شہر پر قبضہ کرنے کی یہ بھول‘ بھٹو صاحب جیسے سخت گیر منتظم کبھی معاف نہیں کر سکتے تھے۔ انہوں نے نہیں کیا۔ عوامی لیگ سے مذاکرات اور مشرقی پاکستان کا بحران جاری تھا۔ بھٹو صاحب کی تمام توجہ ادھر مرکوز تھی۔ اپریل 1971ء میں اخبارنویسوں کی ہڑتال آ گئی۔ اس وقت مشرقی اور مغربی پاکستان اکٹھے تھے۔ تمام اخباری کارکنوں نے اپنے اپنے دفاتر کے آگے ہڑتالی کیمپ لگا لئے تھے۔ مالکان کو دفتر میں آنے جانے کے لئے‘ کارکنوں سے اجازت لینا پڑتی تھی۔ میرخلیل الرحمن مرحوم نے اس باغیانہ حرکت پر خفا ہونے کی بجائے‘ لطف اندوز ہونا شروع کر دیا۔ دفتر میں داخل ہونے سے پہلے وہ ہڑتالی کیمپ میں بیٹھے لیڈروں کے ساتھ ‘جن میں ان کے اپنے ملازمین شامل تھے‘ خوش اخلاقی سے علیک سلیک کرتے اور پھر پوچھتے کہ ''مجھے اندر جانے کی اجازت ہے؟‘‘ اس کے بعد ہنستے ہوئے دفتر میں چلے جاتے۔ میرخاندان کا دوسرا واقعہ میرے اپنے ساتھ ہوا۔ میں ان دنوں ''شہاب ‘‘کا ایڈیٹر تھا اور ہڑتالیوں سے یکجہتی کے لئے مختلف کیمپوں میں جا کر‘ کچھ دیر ان کے ساتھ بیٹھا کرتا۔ جب میں جنگ راولپنڈی کے کیمپ میں گیا‘ تو ایک گھنٹہ ہڑتالیوں کے ساتھ بیٹھا۔ اس دوران دفتر کے اندر سے‘ ایک پیغام آیا کہ میر جاوید رحمن چاہتے ہیں کہ واپسی پر آپ ان کے ساتھ چائے پی کر جائیں۔ میں نے ہڑتالیوں سے پوچھا کہ ''مجھے اندر جانا چاہیے یا نہیں؟‘‘ سب نے خوش دلی سے کہا کہ ہماری طبقاتی کشمکش ضرور ہے۔ لیکن سماجی میل جول پر کوئی پابندی نہیں۔ میں کیمپ سے فارغ ہو کر ''جنگ‘‘ کے دفتر میں چلا گیا۔ میر جاوید رحمن نے حال چال پوچھا۔ چائے پلائی اور تھوڑی گپ شپ کرنے کے بعد‘ میں نے رخصت مانگ لی۔ 
یہ صحافیوںکی پہلی ملک گیر اور مکمل ہڑتال تھی۔ اس کے بعد ہر حکومت نے خواہ وہ سیاسی ہو یا فوجی‘ یہ ٹھان لیا تھا کہ آئندہ کبھی صحافیوں کو منظم نہیں ہونے دیا جائے گا۔ ہر آنے والی حکومت نے صحافیوں کی تنظیموں پر خصوصی نظر کرم رکھی۔ ہمیشہ گروپ بنائے اور اجتماعی فیصلوں کے راستے روکے۔ ایک دو بار تو ایسا بھی ہوا کہ حکومت کے بنائے ہوئے پٹھو گروپ نے ‘ باقاعدہ انتخابات میں کامیابیاں بھی حاصل کیں۔ اب پی ایف یو جے کا صرف نام رہ گیا ہے۔ عہدیداروں میں ٹریڈیونین ازم کی سیاسی اور پیشہ ورانہ کمٹمنٹ کا وہ درجہ دکھائی نہیں دیتا‘ جو منہاج برنا‘ نثارعثمانی‘ اسرار احمد‘ حمیداختر ‘ آئی اے رحمن‘ اکمل علیمی‘ خالد چوہدری اور ایسے ہی ان گنت صحافیوں کا تھا۔ لیکن اس دور کی قیادت سے میرا عدم اتفاق رہا۔ کیونکہ میں مجموعی سماجی حالات سے علیحدہ‘ آجر اور مزدورکی روایتی کشمکش کو تیز کرنے کا حامی نہیں ہوں۔ مختاررانا پر لکھتے ہوئے ‘مجھے پی ایف یو جے کی پرانی قیادت کیوں یاد آئی؟ مختار رانا اور اس وقت کے بیشتر سینئر لیڈروں نے‘ معاشرے کی مجموعی کیفیت سے کٹ کر تیزرفتار اور شدید جدوجہد کے فیصلے کئے۔ معاشرہ پیچھے رہ گیا۔ وہ آگے نکل کر‘ اکیلے ہو گئے اور معاشرے پر حاوی طاقتوں نے انہیں بے بس کر دیا۔ کتنے ہی اخبار‘ لیڈروں کے غلط فیصلوں کی وجہ سے بند ہوئے۔ ''کوہستان‘‘ کی مثال پنجاب والوں کو اچھی طرح یاد ہو گی۔ یہ ایوب خان کی سرکاری مسلم لیگ کا ترجمان اخبار تھا۔ اس میں تنخواہوں کا جھگڑا اتنا بڑھا کہ ہڑتال کر دی گئی۔ ہڑتال انقلاب برپا کرنے کے لئے نہیں‘ سودے بازی کے لئے ہوتی ہے۔ لیڈروں نے لچک دکھانے سے انکار کر دیا اور صحافی احتجاجاً پکوڑے لگا کر بیٹھ گئے۔ اس کے بعد یہ پکوڑوں پر ہی رہ گئے۔ نہ نوکریاں رہیں ‘ نہ ''کوہستان‘‘ رہا۔ 
کراچی میں ''انجام‘‘ اخبار کا مجھے ذاتی تجربہ ہے۔ اس زمانے کے ایک بہت بڑے سرمایہ دار خاندان نے روزنامہ ''انجام‘‘ خرید لیا۔ انتظام سنبھالتے ہی انہوں نے فوری طور پر تمام عملے کی تنخواہیں ویج بورڈ ایوارڈ کے مطابق کر دیں‘ جو 1964ء میں صرف نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبار دیا کرتے تھے۔ دوسرے بڑے اخبار فیصلے میں تاخیر کرتے جار ہے تھے۔ اس دور کے بیشتر اخبارات میں ویج بورڈ ایوارڈ کے مطابق یا باقاعدہ تنخواہیں نہیں ملا کرتی تھیں۔ صرف پی پی ایل کے اخبارات‘ روزنامہ ''جنگ‘‘ اور روزنامہ ''انجام‘‘ بروقت اور پوری تنخواہیں دیا کرتے تھے۔ باقی سب یکم سے 5 تاریخ تک دیتے۔ بعض اخباروں میں تو 40 یا 50 تاریخ بھی ہو جاتی‘ لیکن روزنامہ ''انجام‘‘ میں ہر مہینے کی آخری تاریخ کو تنخواہ کا چیک مل جاتا۔ وہاں ایک چھوٹی سی بات پر پی ایف یو جے نے ہڑتال کرا دی اور تنازعہ اتنا بڑھا کہ مالکان اخبار‘نیشنل پریس ٹرسٹ کو بیچ گئے۔ سرکاری اخباروں کا جو حشر ہوتا ہے‘ ''انجام‘‘ کا بھی ہو گیا۔ ''کوہستان‘‘ اور ''انجام‘‘ کے بیروزگار صحافیوں کے ساتھ جو گزری‘ وہ اب صرف الم ناک کہانیاں ہیں۔ پاکستان کی بیشتر ٹریڈیونینوں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ میرے خیال میں مزدوروں کی تنظیمی طاقت کو اپنے اور کمپنی کے‘ مفادات میں توازن کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ پہلے یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ ملک کے دیگر شعبوں میں سرمایہ کاروں کے منافعے کی سطح کیا ہے؟ اگر مزدوروں کے مطالبات ‘ سرمایہ کاری اور نفع کے رائج الوقت طورطریقوں کے اندر رہیں گے‘ توکام چلتا رہے گا۔ اگر مزدوروں کے مطالبات سے انتظامیہ کا نفع ‘دوسرے صنعتی اور تجارتی اداروں کے مقابلے میں کم ہو جائے گا‘ تو انتظامیہ اسے قبول نہیں کرے گی۔ سرمایہ دارانہ نظام کی ٹریڈیونین ‘ انقلابات کے لئے نہیں ہوتی۔ انقلابی عمل ہمیشہ سیاسی قیادت شروع کرتی ہے اور ٹریڈ یونین اس کے پیچھے رہ کر کام کرتی ہے۔ دنیا میں کسی انقلاب کی قیادت مزدور نے نہیں کی۔ سٹالن‘ لینن‘ مائوزے تنگ‘ کاسترو‘ چی گویرا‘ ان میں کوئی بھی مزدور نہیں تھا۔ مگر انقلابوں کی قیادت انہی نے کی۔ سرمایہ دارانہ نظام کی مزدور یونین‘ صرف مزدوروں کے حالات کار بہتر بنانے کیلئے ہوتی ہے‘ جو تنخواہوں میں بتدریج اضافے کو‘ مہنگائی کی مناسبت سے برقرار رکھنے پر اصرار کرے۔ بچوں کی تعلیم‘ صحت اور صاف ستھری رہائشی سہولتوں کا تقاضا کرے۔ اقتدار پر قبضے کے لئے‘ ٹریڈ یونین کا راستہ کبھی کامیاب نہیں رہتا۔ بعض مثالیں ایسی ہیں کہ اخباری مالکان نے تنگ آ کر ‘ اخبار ہی کارکنوں کے سپرد کر دیا۔ نہ اخبار رہا‘ نہ نوکریاں رہیں۔ 
مختار رانا بھی مزدور راج لانے کے معاملے میں‘ سیاسی قیادت کے پیچھے چلنے کے قائل نہیں تھے۔ انہوں نے بارہا قیادت سے آگے بڑھ کر فیصلے کرنے کی کوشش کی اور ناکام رہے۔ بطور ایم این اے‘ ان کی آخری مہم جوئی‘ پی پی ایل پر قبضے کی جدوجہد تھی۔ پی پی ایل کے ہڑتالی کارکنوں نے دفتر کے سامنے بھوک ہڑتالی کیمپ لگا رکھا تھا۔ مختار رانا ایک جذباتی تقریر کر کے‘ وہیں پر ہڑتالیوں کے ساتھ بیٹھ گئے۔ ان کی دیکھا دیکھی میاں حامد یٰسین‘ عبدالحفیظ کاردار اور چند دوسرے منتخب لیڈر بھی آ بیٹھے۔ مختاررانا نے اپنی تقریروں سے اتنا جوش و خروش پیدا کر دیا کہ تمام ہڑتالیوں نے اٹھ کر پی پی ایل کے دفاتر پر قبضہ کرنے کے لئے ہلہ بول دیا۔ ان دفاتر کا مرکزی گیٹ لوہے کی مضبوط سلاخوں سے بنا ہوا تھا۔ مختار رانا نے دیگر نہتے کارکنوں کے ساتھ‘ خالی ہاتھوں سے اس جنگلے کو گرانے کی کوشش شروع کر دی۔ ابتداء میں تو جنگلا اپنی جگہ قائم رہا۔ لیکن پھر ہلنے لگا۔ اندیشہ پیدا ہو گیا کہ مشتعل کارکن دفتر کے اندر گھس کے لائل پور کی طرز پر قبضہ کر لیں گے۔ خود مالک بن کر بیٹھ جائیں گے اور نظم و نسق چلانے کی کوشش کریں گے۔ مختاررانا اس کی مثال قائم کر کے دکھا چکے تھے۔ بھٹو صاحب قومی معاملات کو مذاکرات سے حل کرنے کی طرف جا رہے تھے کہ مختارارانا نے قبضہ کرنے کی مہم دوسری مرتبہ شروع کر دی‘ جس پر بھٹوصاحب کا صبر جواب دے گیا۔ انہوں نے مشتعل مظاہرین کو پیغام بھیج کر صبر کے لئے کہا۔ مگر اسی رات پولیس نے آ کر کیمپ اکھاڑ دیا۔ اس کے ساتھ ہی مختاررانا کی سیاسی زندگی عملاً ختم ہو گئی۔ رسمی طور سے‘ وہ چند ماہ قومی اسمبلی کے رکن رہے۔ اس کے بعد انہیں نشست خالی کرنا پڑی۔ ضمنی انتخاب میں ان کی بہن زرینہ رانا نے پیپلزپارٹی کا مقابلہ کیا۔ ظاہر ہے‘ انہیں ناکام ہونا تھا۔ ان دنوں میں روزنامہ ''مساوات‘‘ کا ایڈیٹر تھا۔ حکومت نے فیصلہ کیا کہ ضمنی الیکشن سے پہلے ''مساوات‘‘ کا لائل پور ایڈیشن شروع کر دیا جائے۔ مجھے کہا گیا کہ میں لائل پور جا کراخبار کا اجرا کروں اور انتخابی نتیجے تک وہیں رہوں۔ مقابلے میں پیپلزپارٹی کی طرف سے میرا دوست افضل احسن امیدوار تھا۔ پارٹی کے اخبار کے مقامی ایڈیشن کا میں ایڈیٹر تھا اور اس کے امیدوار سے میری ذاتی دوستی‘ ایک طرف تھی اور مختاررانا کی مظلومی کی حقیقت دوسری طرف ۔ انتخابات میں مختاررانا کی بہن کے خلاف کام کرنا مجھے گوارانہ ہوا۔ میں نے کراچی کا دورہ رکھا اور وہاں بیمار پڑ گیا۔ تب تک لاہور واپس نہیں آیا‘ جب تک ضمنی الیکشن کا فیصلہ نہ ہوا۔ زرینہ رانا ''ہار‘‘ گئی۔ مختاررانا کو جیل بھیج دیا گیا تھا۔ رہائی کے بعد انہوں نے لاہور میں ایک پریس کانفرنس کی تو بقول خاور نعیم ہاشمی ‘ ان کے ذہن پر مذہب کا غلبہ ہو چکا تھا اور وہ جماعت اسلامی کی طرف مائل نظر آئے۔کچھ عرصہ پاکستان میں رہے۔ پھر لندن چلے گئے۔ مانچسٹر میں ریلوے کی ملازمت کر لی اور اہل سیاست کے ساتھ میل جول بھی چھوڑ دیا۔ جہاں تک میرے علم کا تعلق ہے‘ وہ لندن بھی کبھی کبھار ہی آتے اور میل ملاقات سے گریز کرتے تھے۔ روپوشی میں ہی اللہ کو پیارے ہوئے۔ موت کے ساتھ وہ سچے مگر ناکام انقلابیوں کی فہرست میں شامل ہو گئے۔میرا یقین ہے کہ وہ جنت الفردوس میں جائیں گے۔ پھر بھی ان کی بخشش کے لئے دعا گو ہوں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved