ایمسٹرڈیم سے کوالا لمپور جانے والی ملائیشین ایئر لائن کی پرواز ایم ایچ17کو مشرقی یوکرائن کے اوپر مار گرائے جانے اور تین سو جانوں کے المناک نقصان کے بعدیوکرائن میں متحارب قوتوں اور ان کے مغربی سامراجی اور روسی پشت پناہوں کے درمیان ایک دوسرے پر الزامات لگانے کا پرزور سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ اس تباہی سے اس خطے کے مجبور طبقات کو برباد کرنے والے تنازعے کی شدت کھل کر سامنے آگئی ہے۔ابتدا میں سامراجیوں اور ان کے جارح میڈیا نے تحقیقات شروع ہونے سے قبل ہی روس پر اس بہیمانہ کارروائی کا الزام لگا دیا، جس سے یوکرائن میں جاری اس جنگ میں ان کی بوکھلاہٹ کا اظہار ہوتا ہے۔بہت سے تجزیہ کار اس صورتحال کو موازنہ1914ء سے کر رہے ہیں جب بلقان میں اسی طرح کے تنازعات جاری تھے اور آسٹریا کے آرچ ڈیوک فرانز فرڈیننڈ کو قتل کر دیا گیا تھا جو پہلی عالمی جنگ کا نقطہ آغاز بنا۔لیکن ایسی قیاس آرائیاں مبالغہ آمیزی پر مبنی ہیں کیونکہ طاقتوں کا توازن بہت مختلف ہے اور موجودہ دور کی بڑی طاقتو ں میں سے کوئی بھی ایک نئی 'عالمی جنگ‘ کی جرأت نہیں کر سکتی۔
موجودہ صورتحال اور1914ء میں مماثلت بھی پائی جاتی ہے۔ اس وقت کی صورتحال ایک ناگزیر جنگ پر منتج ہوئی۔ یوکرائن کے حالات کی وجہ سے بڑے پیمانے کی جنگ نہیں ہو گی۔ عالمی پیمانے پر طاقتوں کا طبقاتی توازن یکسر مختلف ہے۔ملائیشین طیارے کی تباہی کے با وجود امریکی روس کے خلاف کوئی قدم اٹھانے سے لاچار ہیں ۔ برطانوی وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون نے روسی اشرافیہ کے خلاف ضروری کارروائی نہ کرنے پر فرانس کو تنقید کا نشانہ بنا یا ہے، جس نے روس کے ساتھ اسلحہ کا بہت بڑا سودا کیا ہے اور جس میں ایک طیارہ بردار بحری جہاز بھی شامل ہے۔لیکن فرانسیسیوں نے یہ نکتہ اٹھایا کہ روسی اشرافیہ کی اکثریت لندن میں رہتی ہے‘ انہوں نے کیمرون کو دس لاکھ پائونڈ چندہ دیا اور اس کے ساتھ ٹینس کھیلنے کے لیے160,000پائونڈ ادا کیے۔ اس طرح ان میں سے کوئی بھی سخت اقدامات نہیں کرنا چاہتا جس سے ان کے مفادات کو خطرہ لاحق ہو۔یوکرائن کی صورتحال میں بہت تنائو ہے۔پیوٹن زمینی قبضہ نہیں کرنا چاہتے لیکن حالات قابو سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ اس سب کو غزہ میں جاری قتلِ عام پر پردہ ڈالنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔چند ماہ قبل حماس اورالفتح کے قائدین اسرائیلی مطالبات تسلیم کر چکے تھے لیکن صہیونی اپنے ملک میں موجود عدم اطمینان کو ٹھنڈا کرنے، خطے میں بڑھتے ہوئے ایرانی اثر و رسوخ کے خلاف اپنے غلبے کو مضبوط بنانے اور فلسطینیوں کے اتحاد کی کسی بھی کوشش کو توڑنے کے لیے غزہ پر حملہ کرنا چاہتے تھے۔یہ عالمی سطح پر سرمایہ داری کے بحران کی وجہ سے پیدا ہونے والے عدم استحکا م کی ایک اور مثال ہے۔اس کے اثرات تمام ممالک میں مرتب ہوں گے۔
جرمن چانسلر اینجلا مرکل اور یورپی یونین کی جانب سے یوکرائن کے بحران پر ایک بزدلانہ رد عمل پر امریکی ناخوش اور بے صبر ہو رہے ہیں۔مرکل اور یورپی سامراجیوں کے اپنے مفادات ہیں۔امریکہ کے چوٹی کے نیوکنزرویٹیو پال وولف وٹز نے پچھلے جمعہ کو بی بی سی کے پروگرام نیوز نائٹ میں انٹر ویو دیا۔اس نے قصداً غلطی سے یہ کہہ دیا کہ پیوٹن ''جلتی پر تیل ڈال رہا ہے‘‘، بعد ازاں اس نے تصحیح کی کیونکہ اسے یہ احساس ہو گیا کہ کریملن کا حکمران یورپ اور یوکرائن کے بحران پر تیل ڈالنے کی بجائے سب کا تیل بند بھی کر سکتا ہے۔
پچھلے کچھ عرصہ سے امریکی سامراجی پیچھے ہٹ رہے ہیں اور بالواسطہ طریقے سے روسی مداخلت کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔امریکی انٹیلی جنس اہلکاروں کے مطابق ان کا ماننا ہے کہ روس نواز علیحدگی پسندوں نے ملائیشیا ائیر لائن کی پروازایم ایچ17کو ''غلطی سے‘‘ مار گرایا‘ انہیں معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ ایک سویلین طیارہ ہے۔الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق '' نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے بتایا کہ طیارے کی تباہی کی ''سب سے زیادہ معقول‘‘ وضاحت یہ ہے کہ علیحدگی پسندوں نے اسے کوئی اور جہاز سمجھ کر روسی ساختہ ایس اے 11-میزائل سے نشانہ بنایا ۔ بدھ کو ایک اہلکار نے بتایا کہ(کریش کے) پانچ روز بعد یہ ایک ''غلطی‘‘ دکھائی دیتی ہے۔ اس بات کا کوئی واضح ثبوت نہیں کہ روسیوں نے ان علیحدگی پسندوں کو ایس اے 11-میزائل چلانے کی تربیت دی ہے‘‘۔
لیکن یوکرائن کی رجعتی حکومت اور روس نواز علیحدگی پسند پیچھے نہیں ہٹ رہے۔طیارے کی تباہی پر آنسو بہانے کے بعد یوکرائن کے دارالحکومت کیوو میں موجود حکومت کی جانب سے بمباری میں شدت آ گئی ہے۔ان اشتعال انگیزیوں سے جنگی جنون مزید بھڑک رہا ہے۔یوکرائن کے نام نہاد وزیر ِ اعظم یات سینیک نے ایم ایچ 17کی تباہی کو ایک ''بین الاقوامی جرم‘‘ اور ''دنیا کے خلاف جنگ‘‘ قرار دیا اور کہا ہے کہ ''تمام حدیں پار کی جا چکی ہیں‘‘۔ وہ روس کے خلاف دو طرفہ تجارت پر مکمل پابندی کے لیے لوگوں کو تیار کر رہا ہے۔
سب جانتے ہیں کہ یات سینیک امریکی سامراج کی کٹھ پتلی
ہیں اور ان کی جارحیت واشنگٹن سے ان کی مکمل وفاداری کا اظہار ہے‘لیکن اس سب کے پیچھے حقیقت بہت ہی معدوم ہے۔شیکسپیئر کے کردار میک بیتھ کے الفاظ میں ''ایک احمق کی زبانی اس کہانی میں شور شرابہ تو بہت ہے، لیکن اس کا مطلب کچھ بھی نہیں۔‘‘اس سب کا مقصد روسیوں اور باغیوں سے خوف اور نفرت کی فضا کو ہوا دینا اور یوکرائن حکومت کی جانب سے جنوب مشرقی یوکرائن کے لوگوں کے خلاف خونریزی کی مہم کے لیے بین الاقوامی حمایت جیتنا ہے۔در حقیقت صرف یوکرائن کے دارالحکومت میں بیٹھے افراد کے پاس ہی اس جرم کا مرتکب ہونے کے لیے واضح اور صاف مقصد موجود ہے۔کیا ان کے پاس ایسا کرنے کا موقع تھا؟ جی ہاں، کیونکہ کوئی یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ باغیوں کے پاس بک 'Buk‘ میزائل موجود ہیں جس سے مبینہ طور پر طیارہ گرایا گیا، لیکن یوکرائن کی فوج کے پاس یہ میزائل موجود ہیں۔بی بی سی مانیٹرنگ سروس کے مطابق، روسی فوج کو جمعرات کے روز زمین سے فضا میں مار کرنے والے بک میزائل کی ایک یوکرائنی بیٹری کے ریڈار کے سنگل ملے۔روس کے سرکاری ٹیلی وژن پر اس بارے میں رپورٹ بھی چلی۔اگر یہ درست ہے تو الزام کی انگلیاں باغیوں کی بجائے یوکرائن کی فوج پر اٹھتی ہیں۔
یوکرائن کی حکومت نے روس کی جانب سے متعدد بار اس کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی شکایت کی ہے۔ ممکن ہے کہ انہوں نے اسے روسی طیارہ سمجھ کر مار گرایا ہو؛تاہم اس کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ الیکٹرانک سگنل خود بخود سویلین طیاروں کی نشان دہی کرتے ہیں۔دوسری صورت یہ ہے کہ انہوں نے جان بوجھ کر طیارے کو مار گرایا ۔پہلی نظر میں یہ انتہائی وحشیانہ او ر تقریباً ناقابلِ یقین لگتا ہے۔یہ بلا شبہ وحشیانہ ہے لیکن اتنا بھی ناقابلِ یقین نہیں۔ اس صورتحال میں روس کا رویہ بہت اہم ہو گا۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ پیوٹن نے براہ راست فوجی مداخلت کے خیال کو رد کر دیا ہے، یا کم از کم موجودہ صورتحال میں وہ اس کے حق میں نہیں۔ ان پر روسی رائے عامہ کا دبائو ہے کہ وہ اسلحے اوررضاکاروں کے ذریعے باغیوں کی خاموش مدد جاری رکھیں لیکن کریملن یوکرائن میں اپنے مفادات کو دیدہ دلیری سے آگے بڑھا رہا ہے۔پیوٹن باغیوں کو صرف اتنا اسلحہ بھیجنا چاہتے ہیں‘ جس سے وہ شکست سے بچے رہیں اور یوکرائن کی حکومت کو کمزور کر تے رہیں تا کہ وہ ماسکو کی شرائط پر عمل کرنے پر مجبور ہو جائے۔مغرب پیوٹن پر باغیوں کی حوصلہ افزائی کا الزام لگا رہا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی جانب سے انتہائی محدود مددکی وجہ سے جنگجوئوں میں عدم اطمینان جنم لے رہا ہے ، جو فاشسٹ جارحیت کے خلاف جدوجہد میں حمایت کے لیے روس کی جانب دیکھ رہے تھے۔سادہ لوح عوام یہ سمجھتے ہیں کہ روس مشرقی یوکرائن کے لوگوں کے مفادات کے لیے کام کر رہا ہے۔اس غلط فہمی کی بنیاد پر وہ پیوٹن کے روس کو لینن اور ٹراٹسکی کا روس سمجھ رہے ہیں۔یہ بہت بڑا دھوکہ ہے۔ ایسا سوچتے ہوئے وہ یہ بھلا دیتے ہیں کہ آج روس ایک سرمایہ دارانہ ملک ہے جس پر کرپٹ اورحریص اشرافیہ کی حکومت ہے۔ یوکرائن کا بھی یہی حال ہے۔
قوم پرستانہ شاونزم کے راستے پر چل کر یوکرائن کے لوگوں کے لیے بربادی کے سوا کچھ نہیں۔قوم پرستی کے لبادے میں لپٹے ہوئے جھوٹے سیاست دان حقیقت میں اشرافیہ کے ایجنٹ ہیں۔واشنگٹن، برلن اور ماسکو میں بیٹھے ہوئے شیطانی حکام صرف اپنے مفادات کو آگے بڑھا رہے ہیں۔اس کاواحد حل سرمایہ دار اشرافیہ کا تختہ الٹنے اور ایک متحد، آزاد اور سوشلسٹ یوکرائن کی خاطر محنت کش طبقے کا اتحاد ہے۔ یہی واحد راستہ ہے۔