تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     26-07-2014

مسئلہ فلسطین کی مذہبی تعبیر

مشرقِ وسطیٰ میں آج مذاہب کی جنگ نہیں،ظالم اور مظلوم کی معرکہ آرائی ہے۔وہ لوگ فساد فی الارض پھیلانے کے مرتکب ہوں گے جو اسے مذہبی جنگ بنائیں گے۔مشرق و مغرب میں بیٹھے رائے سازجو اسے مذہبی جنگ ثابت کرنا چاہتے ہیں، کیااس بارے میں متنبہ ہیں؟
انسانی سماج اور اس کے اختتام کے بارے میں ایک مقدمہ مذہبی ہے۔ہم بطور مسلمان مانتے ہیں کہ اس نظمِ حیات کو ایک دن ختم ہو نا اور پھرحشربرپا ہو نا ہے۔رسالت مآبﷺ اللہ کے آ خری رسول ہیں۔اب کسی پیغمبر کو نہیں، قیامت کو آنا ہے۔یہ کب آئے گی، قرآن مجید نے بتا یا ہے کہ اس کی خبر اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔اللہ نے اس کے بارے میں کسی نبی اور کسی فرشتے کو بھی نہیں بتایا۔ اس کی صرف ایک متعین نشانی ہے جو قرآن مجید نے بتائی ہے۔یہ یاجوج ماجوج کا خروج ہے۔(الانبیا:97,96)۔قدیم صحائف میں بھی ان کا ذکر ہے۔یاجوج ماجوج سیدنا نوح کے بیٹے یافث کی اولاد ہے جوایشیا کے شمالی علاقوں میں آ باد ہوئی۔ان کے چند قبائل بعد کے ادوار میں یورپ پہنچے اورامریکہ اور آسٹریلیا کو آباد کیا۔یوحنا عارف کے مکاشفے سے معلوم ہو تا ہے کہ ان کے خروج کی ابتدا رسالت مآب ﷺ کی بعثت سے ایک ہزار سال بعدہوگی۔''ان کا شمار سمندر کی ریت کے برابر ہوگا اور وہ تمام زمین پر پھیل جائیں گے‘‘۔
اس کے علاوہ عمومی نشانیاں ہیں جن کاروایات میں ذکر ہے۔ جیسے ایک روایت میں ہے کہ لونڈی اپنے آقا کو جنم دے گی۔یہ غلامی کے بطور ادارہ ختم ہو نے کا بیان ہے۔اسی روایت میں ہے کہ تم عرب کے ان ننگے پاؤں، ننگے بدن پھرنے والے کنگال چرواہوں 
کو بڑی بڑی عمارتیں بنانے میںایک دوسرے کا مقابلہ کرتے دیکھو گے۔یہ مسلم کی روایت ہے اور ان دونوں نشانیوں کا ظہور ہو چکا۔ایک روایت میں ایک خلیفہء فیاض کی آ مد کا ذکر ہے۔قدیم دور سے اہلِ علم اس کا مصداق متعین کرتے رہے ہیں اور کم و بیش یہ طے ہے کہ اس سے مراد سیدنا عمر بن عبدالعزیزہیں۔گویا یہ نشانی بھی پوری ہو چکی۔رسالت مآب ﷺ نے ایک باراپنی بعثت اور قیامت کے فاصلے کو اپنی دو انگلیوں کے درمیانی فاصلے سے تعبیر فرمایا۔یہ ختم نبوت ہی کا بیان ہے۔ان سب روایات سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ عمومی نشانیوں کا وقتاً فوقتاًظہور ہو تارہے گا اور لوگوں کو یاد دلا تا رہے گاکہ قیامت قریب ہے۔
تمام ابراہیمی مذاہب میں چونکہ ایسی روایات مو جود ہیں،اس لیے ان کوبعض لوگ کسی تحقیق کے بغیرقبول کرتے اور پھر ان سے اپنے عہد کے واقعات کو من پسندمعنی پہنا تے ہیں۔یہ عجیب بات ہے کہ جس قیامت کا برپاہو نا یقینی ہے، اس کی تیاری کوئی نہیں کرتا اور جو نشانیاں کسی مصدقہ ذریعے سے نہیں پہنچیں، سب ان کا مصداق بننے کی تگ و دو میں ہیں۔ ان میں سے اکثریت کی دلچسپی اس سیاسی منظر نامے سے ہے، جس کی پیش گوئی مذہبی روایات میں کی گئی ہے۔یوں وہ ہر واقعے کو اسی تناظر میں دیکھتے اور پھر ان کو مذہبی رنگ دیتے ہیں۔چونکہ یہ محض قیاس اور تخمینہ ہے، اس لیے مصداق کے تعین میں ہونے والی غلطی عالمِ انسانیت کے لیے ایک 
عذاب بن جا تی ہے۔اسی وجہ سے ہماری تاریخ میں بے شمار لوگوں نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا اور لوگوں کو گمراہ کیا۔ یہ غلطی بعض یہودی کر تے ہیں اور بعض مسلما ن بھی۔اسی حوالے سے آج فلسطین میں ہونے والے مظالم کو بھی دیکھا جا رہا ہے۔یہ ہماری نادانی ہو گی کہ ہم چند یہودیوں کی بات کو سچا ثابت کرنے کے لیے اسے ایک مذہبی معرکہ بنا دیں اور یوں ان کا خواب پورا ہو جائے۔ اس لیے ضرورت ہے کہ ان واقعات کوغیر مذہبی انداز میں دیکھا جائے کیونکہ اس کی مذہبی تعبیر کی اساس کوئی یقینی خبر نہیں ہے۔
چند حقائق واضح ہیں۔مثال کے طور پر تمام یہودی اس بات کو نہیں مانتے کہ انہیں یہ مقدمہ مذہبی بنیادوں پر لڑنا ہے۔اسرائیل بھی دنیا کے سامنے خو دکو مظلوم کہتا ہے۔وہ اپنی جنگ مذہبی بنیادوں پر نہیں لڑ رہا۔ امریکہ میں اس وقت یہودیوں کا ایک موثر گروہ وجود میں آ چکا ہے‘ جو اسرائیل کوظالم کہتا ہے۔نوم چومسکی جیسے دانش وریہودی ہونے کے باوجود اسرائیل کو ظلم کی علامت سمجھتے ہیں۔آج دنیا بھر میں اسرائیلی مظالم کے خلاف لوگ احتجاج کر رہے ہیں اور ان میں اکثریت مسیحیوں کی ہے۔ان میں یہودی بھی شامل ہیں۔پھر یہ کہ فلسطینیوں میں سب مسلمان نہیں ہیں۔اس وقت غزہ میں رہنے والوںمیں چھ فی صد مسیحی ہیں۔لیلیٰ خالد بھی مسیحی تھی۔یاسر عرفات کی اہلیہ مسیحی ہیں۔مسلمانوں کو خاص طور پر اس تعبیر سے بچنا ہے کہ اس کا نتیجہ مسلمانوں کے خلاف مسیحیوں اور یہودیوں کو مجتمع کرنا ہوگا۔ دنیا کو ایسے فتنہ پرور یہودیوں سے بچانا چاہیے جو اسلام کے خلاف بنی اسرائیل کو منظم کرنا اور اس حسد کو زندہ کرنا چاہتے ہیں جس کا مظاہرہ ان کے بڑوں نے عہدِ رسالت مآب ﷺ میں کیا تھا۔ 
اس معاملے کو ایک دوسرے زاویے سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ مو جودہ تمدنی اور معاشی ضروریات اور جبر نے دنیا میں ایک غیر مذہبی معاشرت کو جنم دیا ہے جس کے نتیجے میں مذہبی کثرت (pluralism) وجود میں آئی ہے۔اب ساری دنیا میں مختلف مذاہب کے لوگ مل کر رہ رہے ہیں ۔اگر ہم ان سیاسی و علاقائی اختلافات کو مذہبی رنگ دیں گے تو اس کے نتیجے میں ساری دنیا ایک انتشار میں مبتلا ہو جائے گی۔پھر ہر ملک میں لڑا ئی ہو گی۔خلیج کی جنگ کو بھی کچھ لوگوں نے اسی طرح مذہبی بنانے کی کوشش کی تھی۔ یا 9/11 کے بعد پیش آنے والے واقعات کو بھی اس حوالے سے بیان کیا۔یہ ایک غلطی تھی اور میرا خیال ہے کہ اس کا سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو ہوا۔ہم نے ان لوگوں کو بھی اپنا دشمن بنا لیا جو اس معرکے میں غیر جانب دار تھے۔جیسے چین یا روس۔
فلسطینیوں کا مقدمہ غیرمذہبی بنیادوں پرپوری طرح ثابت ہے۔ انہیں اپنی سرزمین سے بے دخل کیا گیا اور پھر دوسرے علاقوں سے لائے گئے لوگوں کو وہاں آ باد کیا گیا۔دنیا کے ہر قانون اور ضابطے کے تحت اس سرزمین پر ان کا حق فائق ہے۔جو لوگ اسرائیل کے وجود کو جائز کہتے ہیں، وہ بھی اس بات کی نفی نہیں کر سکتے۔اگر اس مقدمے کو مذہبی بنیادوں پر کھولا گیا تو پھر مسلمانوں کے لیے جو مسائل پیدا ہوں گے انہیں سمجھا جا سکتا ہے۔میں دانستہ ان کی تفصیل سے گریز کر رہا ہوں کہ عقل مند کے لیے اشارہ کافی ہو تا ہے۔یہ مقدمہ اس وقت ثابت ہوگا جب اسے فلسطینیوں کا مقدمہ بنایا جائے گا۔ اسے اسلام بمقابلہ یہودیت نہیں، اہلِ فلسطین بمقابلہ صہیونیت دیکھا جا نا چاہیے۔اگر ہم نے اسے مذہبی رنگ دیا تو یہ ان یہودیوں کی تائید کے مترادف ہو گا جو اسی بنیاد پراس معرکے کوآگے بڑھا نا چاہتے ہیں اور نتیجتاً پہلے یہودیوں اور دوسرے مرحلے میں یہودیوں اور مسیحیوں کو متحد کر نا چاہتے ہیں۔ظاہر ہے کہ یہ اتحاد مسلمانوں کے خلاف ہوگا۔ 
مسلمانوں کو آج جس بات کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، وہ مسائل کی تفہیمِ نو ہے۔امت کے سیاسی وجود سے لے کر مسائل کی مذہبی تعبیر تک بہت سے معاملات نئی سوچ کے متقاضی ہیں۔ چند مفروضوں کو حقیقت مان کر اس کا تعاقب کیا جارہا ہے۔ یوں ہر دن ترقی معکوس کا آئینہ دار ہے۔قیامت کی نشانیاں اللہ نے ظاہر کرنی ہیں ہم نے نہیں۔ہمیں تو حشر میںحاضری کی تیاری کر نی ہے۔دنیا میں ترقی اور عافیت چند الہی سنن کے تابع ہے۔ان کو سمجھے بغیر دنیا میں کامیابی نہیں مل سکتی۔واقعات کی مذہبی تعبیر کرنے والے جس بات کو سب سے زیادہ نظر انداز کرتے ہیں، وہ یہی ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved