تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     27-07-2014

عمر بھر کی بے قراری کو قرار آہی گیا

ابھی تو حیرت کاایک عالم ہے اورسراج الدولہ کا ہندو وزیر یاد آتاہے ، ان کی شہادت پر جس نے کہاتھا ؎ 
غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی
دوانہ اٹھ گیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزری 
سوچا:بیماری اس آدمی کا کیا بگاڑ ے گی، کتنی ہی بار جس نے موت کو شکست سے دوچار کیا۔ ایک جملے نے مگر تشویش میں مبتلا کر دیا: خاندان کاکہنا ہے کہ اب وہ سنبھل رہے ہیں ۔ غلام اسحٰق خاں مرحوم یاد آئے، انتقال سے چند ماہ قبل ملاقات ہوئی تو عرض کیا: صحت مندی لوٹ آئی ہے ۔ بولے: پتوں کے گرنے کا وقت آتاہے تو وہ سرخ ہو جاتے ہیں ۔ 
شیر شاہ سوری کے عہد کا ایک برگد چاروں شانے چت پڑاتھا۔ آندھی نے اسے اکھاڑ پھینکا تھا۔ دیکھنے والوں نے دیکھا تو ششدر رہ گئے۔ اس افسانوی شجر کی جڑیں گہری نہیں ہوتیں ۔ اپنے توازن پر وہ کھڑا رہتاہے۔ اگر ایک طرف کی شاخیں کٹ جائیں تو ذرا سا طوفان اسے بہا لے جاتاہے ؎ 
زندگی کیا ہے، عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے، انہی اجزا کا پریشاں ہونا
ایک تناور درخت گرتاہے تو دور تک ویرانی پھیل جاتی ہے ۔ ایسے کچھ لوگ ہوتے ہیں ، جن کا کوئی بدل نہیں ہوتا۔ جن کی یاد جگمگاتی رہتی ہے مگر ان کا وارث کوئی نہیں ہوتا۔ عرب شاعر امرائو القیس کو اس کے حکمران باپ کے مرنے اطلاع دی گئی تو اس نے یہ کہا تھا: خبر ایسی آئی ہے کہ یقین ہی نہیں آتا۔ نظامی صاحب کے بغیر ملک کا صحافتی اور سیاسی منظر سونا رہے گا۔ ساٹھ برس سے وہ لاہور کی سیاسی و سماجی بنت کا ایک اٹل حصہ تھے۔ ان کے بغیر پنجاب کی سیاست کا کوئی تجزیہ مکمل نہ ہو سکتا تھا۔ اکثر معرکوں میں ان کا رویّہ فیصلہ کن ہو تا، جیسا کہ 2013ء کے انتخابات ۔ برسوں سے اب وہ ایک ضعیف آدمی تھے مگر اس سے کیا ہوتاہے ۔ طاقت ایک نفسیاتی چیز ہے ۔ نظامی صاحب ایک جنگجو تھے ۔ ایک بہادر آدمی کی زندگی انہوں نے گزاری۔ 
ہر سال اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوتا تو افغان مجاہدین کے کسی ایک رہنما کو نیویارک جانا ہوتا۔ یہ 1983ء کا واقعہ ہے ۔ گلبدین حکمت یار امریکہ روانہ ہوئے۔ روزویلٹ ہوٹل میں ابھی وہ اسباب ہی درست کرپائے تھے کہ انہیں مطلع کیا گیا: امریکی صدر رونالڈ ریگن ملاقات کے منتظر ہیں ۔ 
یک طرفہ بیانیے سے کل کے حریت پسندوں کو مجرم ٹھہرا دیا گیا ہے ؛حالانکہ آج کے افغانستان اور پاکستان میں جو لوگ برسرِ پیکار ہیں ، وہ ان کے وارث نہیں ۔ یہ اقتدار کے تلاش میں وحشت کا شکار ہیں۔ وہ اور طرح کے لوگ تھے۔ اپنے عہد کی سب سے بڑی وحشیانہ سپر پاور کا غرور جنہوں نے خاک میں ملا دیاتھا۔ ان کے نظریات اور طرزِ عمل سے ا ختلاف ہو سکتاہے مگر وہ آزادی کے لیے سربکف اٹھے تھے ۔ بے گناہ شہریوں کو وہ قتل نہ کرتے تھے ۔ ان کا نشانہ اجنبی سپاہ تھی ۔تین صدیوں میں کتنے ہی ملک جس نے ہڑپ کر لیے تھے۔ 
حکمت یار نے انکار کر دیا۔ امریکیوںسے وہ ناراض تھے، جن کی خفیہ ایجنسی ایک بھیانک کھیل میں مصروف تھی ۔ ان کی پارٹی کے خلاف ایک کے بعد دوسری سازش میں ۔ اسلام آباد میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ گلبدین کی حزبِ اسلامی کے ایک ایک رہنما سے درخواست کو کہا گیا۔ پھر تمام افغان لیڈروں سے ۔پھر ایک کے بعد دوسرا عرب سفیر ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ سب کچھ بے نتیجہ ، سب بے ثمر۔ آخر کو امریکی صدر کی ادھیڑ عمر صاحبزادی نمودار ہوئیں۔ ایک مطبوعہ کارڈپیش کیا اور یہ کہا: اخبارات میں خبر چھپ چکی۔ ہر ٹی وی چینل سے بار بار نشر ہوتی ہے ۔ نیویارک کے ہوائی اڈے پر ایک ہیلی کاپٹر آپ کو لے جانے کے لیے تیار کھڑا ہے ۔ اگر آپ امریکی صدر سے ملاقات پر آماد ہ نہیں تو براہِ کرم مسٹر اور مسز ریگن کے ساتھ چائے کا ایک کپ پی لیجیے ۔ چٹان کی طرح ارادے پر قائم رہنے والے آدمی نے ہمیشہ کے مدھم لہجے میں یہ کہا : اگر میری شرائط تسلیم کر لی جائیں تو میں پیدل چل کر جانے کو تیار ہوں وگرنہ قطعی نہیں ۔ 
جنرل محمد ضیاء الحق کو اطلاع دی گئی تو وہ حیران رہ گئے۔ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل اختر عبد الرحمن سے انہوں نے کہا: افغان لیڈر کو بتا دیجیے ، اگر ہم اسے بنا سکتے ہیں تو برباد بھی کر سکتے ہیں ۔ بادلِ نخواستہ انہوں نے اپنے ایک رفیق کو طلب کیا کہ پیغام پہنچا دے ۔ یا للعجب، اس نے انکار کر دیااور یہ کہا : جنابِ صدر سے درخواست کیجیے کہ وہ اپنے اقدام پہ نظرِ ثانی کریں ۔ گلبدین ان لوگوں میں سے ایک ہے کہ جن کے قدموں تلے کبھی گھاس نہیں اگتی۔ امریکہ اورپاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت آج بھی حکمت یار کو سمجھ نہیں پائی ۔ اس کے بغیر سوویت یونین کی شکست ممکن تھی اور نہ مستقبل کا کوئی لائحہ عمل ، جب تک وہ زندہ ہے ۔ 
مجید نظامی مرحوم ایسے ہی تھے ۔ جہاں وہ کھڑے ہو جاتے ، وہیں کھڑے رہتے ۔ سورج، چاند ، بادل اور ہوا کی طرح ان کا رخ اور ان کی سمت ہمیشہ معلوم کی جا سکتی تھی ۔ ہمیشہ ان کے بارے میں پیش گوئی ممکن ہوتی۔ چہار جانب پھیلے بزرجمہروں کے برعکس ، جو کسی بھی سانچے میں ڈھل سکتے ہیں ، بزرگ اخبار نویس کی ترجیحات ہمیشہ واضح رہیں ۔ ہوش سنبھالا تو قائد اعظم اور ان کے پاکستان سے محبت میں مبتلا ہوئے اور عمر بھر مبتلا رہے ۔ زندگی بھر ان کے طرزِ عمل اور اندازِ فکر میں سرمو فرق نہ آیا۔ برّصغیر نے سامراج سے آزادی پائی ۔ نیا وطن تخلیق ہوا۔ کہر اور دھوپ کے کتنے ہی موسم آئے اور چلے گئے ۔ کتنے ہی مقتدر رسوا ہوئے اور کتنے ہی گمنام ایوانِ اقتدار میں متمکن، مجید نظامی وہی کے وہی رہے۔ وہی ساز، وہی نغمہ ، وہی زیرو بم ؎ 
اپنی تو جہاں آنکھ لڑی پھر وہیں دیکھو
آئینے کو لپکا ہے پریشاں نظری کا 
پاکستانی صحافت میں وہ قائداعظم کی آخری یادگار تھے ۔ بدلتی رتوں کے ساتھ اکثر لوگ بدل گئے ۔ اکثر کہاں ، سبھی بدل گئے مگر نظامی نہ بدلے ۔ وہی ایک لگن ، وہی ایک خواب ، وہی ایک منزل اور وہی ایک ہدف۔ وہ ناک کی سیدھ میں چلنے والے آدمی تھے اور زمانہ ایسے لوگوں کے ساتھ آسودہ کبھی نہیں ہوتا۔ زمان و مکاں کے ساتھ وہ نہیں ڈھلتے بلکہ اپنے پیرائے میں اسے ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ عمر بھر یہ کشمکش جاری رہتی ہے ؛حتیٰ کہ فراق کی ساعت آن پہنچتی ہے۔ اپنے سپنوں سمیت اٹھتے ہیں ؎
جان دے ہی دی جگرؔ نے آج پائے یار پر
عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا
ان کے بڑے بھائی حمید نظامی کی وفات پر ، حکمرانوں کی ہیبت کو جنہوں نے حقیر بنایا، مجید نظامی نے منصب سنبھالا تو نواب امیر محمد خان نے تعزیت کے ہنگام ان سے کہا : اب پتہ چلے گا کہ آپ کتنے مرد ہیں ۔ کتنی دیر مرحوم کی راہ پر چل سکتے ہیں۔ سر اٹھائے ،ٹھیک چھ عشرے تک وہ چلتے رہے ۔استوار اور ثابت قدم۔ صحافت کی اس وادی میں جہاں موسم بدل چکااور اب اکثر و بیشتر کاروبارِ زرگری ہے ، مجید نظامی کے جانشین ، کیا اسی عزم و استقلال کے ساتھ آئندہ برسوں کی مسافت طے کر پائیں گے ؟ کوئی دن میں اس سوال کا جواب مل جائے گا۔ ابھی تو حیرت کاایک عالم ہے اورسراج الدولہ کا ہندو وزیر یاد آتاہے ، ان کی شہادت پر جس نے کہاتھا ؎ 
غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی
دوانہ اٹھ گیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزری 
معرکے برپا کرنے والے روز روز پیدا نہیں ہوتے ۔ اللہ کی زمین آئے دن سپاہی نہیں جنتی ۔ جائے استاد خالی است۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved