یواین ڈی پی کی انسانی ترقی کے انڈیکس کی منظر ِ عام پر آنے والی سالانہ رپورٹ میں پاکستانیوںکے لیے کوئی اچھی خبر نہیںہے۔ ویسے بھی اچھی خبریں دنیا کے اس حصے میں عنقا ہیں۔ ہم دنیا کے 187ممالک کی فہرست میں اُسی مقام پر کھڑے ہیں جہاں آج سے کئی سال پہلے تھے۔ ہمارا انسانی ترقی کے حوالے سے دنیا میں 146 نمبر رہا ہے۔ اس افسوس ناک پوزیشن پر پاکستان بھارت سے گیارہ درجے نیچے ہے (بھارت 135 ویں پوزیشن پر موجود ہے)۔ بھارت اور بنگلہ دیش نے اپنی پوزیشنز کو ایک ایک درجے بہتر کیا اور ہو سکتا ہے کہ آنے والے برسوں میں وہ بہتری کا سفر جاری رکھیں، تاہم ہم اپنی جگہ پر ٹس سے مس نہیں ہو پا رہے۔ کیا یہ ہمارے لیے لمحۂ فکریہ نہیں ہونا چاہیے کہ بنگلہ دیش ہماری نسبت قدرے بہتر پوزیشن پر موجود ہے۔ ایچ ڈی آئی (ہیومین ڈویلپمنٹ انڈیکس)انسانی ترقی کے پیمانوں کی جانچ کرتے ہوئے ممالک کی درجہ بندی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ انڈیکس غربت، تعلیم، صحت، بنیادی سہولیات کی فراہمی، بچوں کی شرحِ اموات اور جنسی بنیادوں پر روا رکھے جانے والے امتیاز کی پرکھ کرتا ہے۔ انسانی ترقی یا تنزلی کی شرح کو بیان کرنے والے اس انڈیکس کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جاتا ہے، تاہم ہمارے ملک میں اس پر خاموشی ہی اختیار کی جاتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی مباحثے اور مناظرے ہمہ وقت جاری رہتے ہیں۔
بدقسمتی سے گزشتہ کئی سالوں سے اس انڈیکس کے اعدادو شمارپر ہمارے ہاں کوئی بات نہیں کی جاتی کیونکہ بات کرنے کے لیے ہمارے پاس کچھ ہے ہی نہیں۔ ہمارے سیاسی حلقوں ، میڈیا اور سوچ سمجھ رکھنے والے گروہوں کے سامنے کچھ اور مسائل ہیں، اس لیے ہیومن ڈویلپمنٹ کی ٹیڑی کھیر سے وہ اپنے ہاتھ بچا کر رکھتے ہیں۔ پالیسی ریسرچ کے کسی ادارے کی طر ف سے سامنے آنے والے سرسری تبصرے کے علاوہ اس پر ملک کسی حلقے کی طرف سے بات نہیں کی جاتی۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جو افراد اورا دارے صوبائی اور ضلع کی سطح پر انسانی ترقی کے لیے منصوبہ بندی کرنے کے ذمہ دار ہیں، وہ عوام کو اس سے لاعلم رکھتے ہوئے اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ویسے بھی ہمارے حکمران عوام کو میٹھی گولیاںدے کر بہلانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔
اس صورت ِحال کو بہتر کیسے بنایا جائے؟ اس کی بہتری کا دارومدار اس بات کی تفہیم پر ہے کہ ہم پہلے ہیومن ڈویلپمنٹ کو اتنی لاپرواہی کی نذ ر کیوں کررہے ہیں؟یہ ہماری ترجیحات میں شامل کیوں نہیں؟اس ضمن میں تین معروضات کو مد ِ نظر رکھنا ضروری ہے۔۔۔پہلی یہ کہ عوام اور کمیونٹی کی طرف سے سامنے آنے والا مطالبہ نہ تو منظم ہوتا ہے اور نہ ہی اس میں اتنی جان ہوتی ہے کہ یہ ضلع کی سطح پرکام کرنے والے افسران اور صوبائی اور وفاقی سطح پر سیاسی طبقے کو بنیادی انسانی ضروریات کی عدم فراہمی کا احساس دلا سکے۔ اس سلسلے میں بہتری کے لیے اٹھایاجانے والا پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ عوام اور معاشرتی گروہوں کو ان کے حقوق کا احساس دلایا جائے تاکہ اُن میں اتنی طاقت ہو کہ وہ خود کوسہولیات کی عدم فراہمی کے بارے میں کم از کم مقامی سطح پر تو سوال اٹھا سکیں۔ میرے خیال میں عوام اور سماجی گروہ جتنے زیادہ اپنے حقوق اور ہیومن ڈویلپمنٹ کے لیے ملنے یا نہ ملنے والے مواقع سے باخبر ہوں گے، وہ سرکاری افسران اور عوامی نمائندوں پر اتنا ہی دبائو ڈالنے میں کامیاب رہیںگے تاکہ ان کو ان سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے۔
دوسری اور اہم حقیقت یہ ہے کہ ضلعی یا اعلیٰ سطح پر افسرشاہی سے ہیومن ڈویلپمنٹ، مثلاً تعلیم اور صحت کے حوالے سے احتساب کرنے کی کوئی روایت موجود نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ پنجاب میں ہمیں ضلع کی حد تک ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس مل جائیں۔ مثال کے طور پر اس صوبے میں راجن پور اس انڈیکس پر سب سے نیچے ہے۔ اسی طرح بلوچستان اور سندھ کے بہت سے اضلاع میں بھی کئی سالوں سے ترقی کے کوئی آثار ہویدا نہیں ہیں، لیکن اس پست کارکردگی کی پاداش میں کتنے افسران کو ملازمت سے فارغ کیا گیا یا کتنے افسران کی سزا کے طور پر ترقی روک دی گئی؟ اس کا جواب نفی میںہوگا کیونکہ یہ ہماری ترجیحات میں ہی شامل نہیں۔ چنانچہ سرکاری افسران اپنی تمام تر اہلی، بدعنوانی اور بدانتظامی کے باوجود صرف اس لیے بچ جاتے ہیںکہ یہاں احتساب کی کوئی روایت نہیں۔ یہ افسران اپنے اپنے صوبوں میں حکمران جماعت کے سیاسی مقاصد کی انجام دہی میں مصروف رہتے ہیں، اس لیے انہیں عوام کی بہتری سے کوئی سروکار نہیں۔
تیسری اور اہم بات یہ ہے کہ جو شعبے ہیومن ڈویلپمنٹ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، وہ تعلیم اور صحت ہیں؛ تاہم ان پر سیاسی اور انتظامی طور پر مطلق توجہ نہیں دی جاتی۔ ہمارے عوامی نمائندے بہت بڑے بڑے منصوبوں پر رقم خرچ کرتے ہیں لیکن ہیومن ڈویلپمنٹ ان کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ ایک تو وہ اس مقصد کے لیے بہت کم فنڈز مختص کرتے ہیں ، اور جو تھوڑی بہت رقم مختص کی جاتی ہے ، وہ بدعنوانی، نااہلی اور بدنظمی کی نذ ر ہو جاتی ہے۔ چنانچہ جب ہم سنتے ہیں کہ ہمارے ملک میں گھوسٹ سکول، گھوسٹ ٹیچرز، گھوسٹ ہسپتال اور بھاری تنخواہیں اُڑانے والے ڈاکٹر ''کام‘‘ کر رہے ہیں تو کسی کو حیرت نہیں ہوتی۔ مہذب دنیا میں ان باتوں کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ سیاسی اور انتظامی گرفت نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے ہاں ہیومن ڈویلپمنٹ پر کوئی کام ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ یہ صورتِ حال ہماری سیاسی حکومتوں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان کھڑا کر دیتی ہے کہ اُنہیں عوام نے مینڈیٹ دیا تھا کہ وہ ان کی حالت کو سدھاریں گے لیکن منتخب ہونے کے بعد وہ عوام کی ترقی بھول کر اپنے مقاصد کی تکمیل میں لگ جاتے ہیں۔ قہر یہ ہے کہ سول سوسائٹی کے گروہ بھی ہیومن ڈویلپمنٹ کے تصور سے ناآشنا ہیں۔