امریکہ میں کچھ وقت ملا تو سوچا دیکھا جائے کہ لوگ وطن سے دور کیسے نیا وطن تخلیق کر لیتے ہیں ۔ ان ملاقاتوں کے دوران کچھ کرداروں کی چھوٹی چھوٹی باتوں نے مجھ پر بڑا مثبت اثر ڈالا ہے۔
نیویارک میں میاں مشتاق احمد جاوید سے ملا جو برسوں سے اپنی ٹریولنگ ایجنسی چلاتے رہے ہیں توان کی شخصیت سے لگا شاید وہ بھی اپنے نظریات اور خیالات میں انتہائی کٹر ہوں گے اور ان سے مکالمہ مشکل ہوگا ۔ وہ قابل احترام کالم نگار اور اب دنیا ٹی وی کے مقبول اینکر جناب مجیب الرحمن شامی کے پرانے خاندانی دوستوں میں سے ہیں ۔ پاکستان میں غریبوں کے لیے مختلف پروجیکٹس وہ اپنے دیگر خاندان کے ممبران اور دوستوں کے ساتھ مل کر شروع کر چکے ہیں۔
چلنے لگا تو میں نے میاں مشتاق صاحب سے کہا‘ آپ سے باتیں کر کے لطف آیا ۔ میرا خیال ہے چالیس برس کی عمر کے بعد انسان کا بدلنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس عمر میں جو نظریات اور خیالات بننا ہوتے ہیں‘ وہ بن چکے ہوتے ہیں ۔ تاہم میاں صاحب آپ کو مل کر لگا کہ انسان میں بدلنے کی صلاحیت ہر عمر میںہوتی ہے۔ رشک ہوا۔ کتنے ایسے لوگ ہوں گے جو یہ مان لیں کہ نہیں میں جو سوچ پہلے رکھتا تھا وہ ٹھیک نہیں تھی اور وہ نئے خیالات اور سوچ کو اپنا لیں ۔
ایک اور کردار جس نے متاثر کیا وہ بھی امریکہ کے بہترین نیورو سرجن ڈاکٹر سعید باجوہ ہیں ۔ میاں مشتاق جاوید اور ان کے بیٹے علی کے ساتھ لانگ آئی لینڈ نیویارک سے پانچ گھنٹے کے فاصلے پر جانے کا اتفاق ہوا جن کا تعلق رحیم یار خان سے ہے ۔ ڈاکٹر سعید باجوہ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر جنرل عاصم باجوہ کے کزن نکلے۔ بڑے شہروں کے ہنگاموں سے دور ایک خوبصورت قصبے میں پرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔ پاکستان سے آئے مریضوں کے لیے ان کا دل اور جیب دونوں کھلے ہیں ۔ جس ہسپتال میں کام کرتے ہیں اس کے ساتھ معاہدہ کر رکھا ہے۔ پاکستانی مریضوں سے بل نصف لیں گے۔ جو ٹیسٹ ہوں گے ان کا بل بھی آدھا ۔
ان کے دفتر میں داخل ہوتے ہی جس چیز نے مجھے اپنی جانب متوجہ کیا وہ ان کے ماں باپ کی پرانے انداز میں کھینچی گئی تصاویر تھیں۔ زندگی میں انسان کتنی ہی ترقی کیوں نہ کر لے ہمیشہ اپنے والدین کے سائے میں رہنا چاہتا ہے۔ میں نے تصویروں کی طرف اشارہ کیا تو ایک اداس مسکراہٹ ان کے ہونٹوں پر پھیل گئی۔
میں نے زیادہ کریدنا مناسب نہ سمجھا ۔
2005ء میں زلزلہ آیا تو ڈاکٹر باجوہ سب کچھ چھوڑ کر اپنے ہم وطنوں کی مدد کرنے پہنچ گئے۔ انہیں معلوم تھا کہ زلزلہ متاثرین کو سب سے زیادہ چوٹیں دماغ پر لگی ہوں گی یا پھر ریڑھ کی ہڈی پر۔ امریکہ سے گئی ڈاکٹروں کی ٹیم کے ساتھ کئی دن وہیں گزارے اور پمز اسلام آباد کے آپریشن روم پر ایک طرح سے قبضہ کر لیا اور دن رات کئی آپریشن کر کے انسانی زندگیوں کو بچایا۔ اس کے عوض کسی سے کوئی توقع نہیں رکھی اور نہ ہی اپنی خدمات کے اعتراف میں انعام کا لالچ کیا۔ یہ سب باتیں بھی میاں مشتاق احمد جاوید نے بتائیں ورنہ ڈاکٹر باجوہ نے ذکر تک نہیں کیا۔
دل سے ڈاکٹر سعید باجوہ کے لیے دعا نکلی جن کے نزدیک حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں اہم ہیں۔
ایک اور غیرمعمولی پاکستانی کردار چوہدری اعجاز احمد ہیں جن سے مل کر متاثر ہوا ۔ اٹلانٹا (جارجیا) کے قریب ایک چھوٹے سے شہر کارلٹن میں رہتے ہیں ۔ ملتان میں پیدا ہوئے۔ ڈاکٹر بننا چاہتے تھے۔ میرٹ نہ بنا تو گھر والوںنے منڈی میں اپنے پھلوں کی آڑھت پر بٹھا دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ استعمال شدہ گاڑیوں کا کام بھی شروع کر دیا۔ بات نہ بنی تو امریکہ چل پڑے۔ چار ماہ فلوریڈا میں ڈزنی ورلڈ کے شہر اورلنڈو میں گزارے۔ سیٹ نہ ہو سکے تو پاکستان لوٹ گئے۔ پھر چل پڑے کہ اب کی دفعہ چاول امریکہ ایکسپورٹ کیا جائے۔ پھر بات نہ بنی۔ سال بھر نیویارک اور پھر وہاں سے جارجیا۔ آخر جارجیا راس آگیا ۔ شروع میں روزگار کی تلاش کی لیکن کام نہ بنا۔ آخر اپنا کاروبار ہی شروع کر دیا۔ ملتان کے دنوں میں پرانی کاروں کے کاروبار کا تجربہ کام آیا ۔ اتنی دیر میں ان کا بڑا ہونہار بیٹا چوہدری عمیر اپنی پڑھائی مکمل کر کے ساتھ مل گیا جو اس کاروبار کو مزید بلندیوں پر لے گیا ۔ آج پورا کارلٹن شہر باپ بیٹے کی لوگ عزت اور ان پر بھروسہ کرتا ہے۔ میرا چوہدری اعجاز احمد سے پہلا رابطہ گزشتہ سال ای میل پر ہوا تھا۔ دل ہر وقت پاکستان کے لیے بے چین اور بے قرار۔ میں نے اپنے گائوں کے کینسر کے دو مریضوں کے بارے میں کالم لکھا تو وہ پورے ایک سال تک ان کا علاج کراتے رہے۔ لاکھوں کا خرچہ اپنی جیب سے کیا کہ شاید جمن شاہ کا پانچ چھوٹے بچوں کا باپ الطاف بچ جائے یا پھر ایک بے بس ماں حسینہ بی بی موت کے منہ میں جانے سے بچ جائے۔ دونوں نہ بچ سکے۔ میں امریکہ میں تھا کہ اعجاز بھائی کا فون آیا۔ الطاف مر گیا تھا۔ ان کی آواز میں دکھ تھا ۔ اور ہم دونوں خاصی دیر تک الطاف کے بچوں کے بارے میں سوچتے رہے۔ گائوں کی غریب بچیوں کی شادی تھی تو بھی انہوں نے مدد کی۔ مجھے علم ہے وہ ان باتوں کا ذکر کالم میں پسند نہیں کریں گے لیکن اچھائی کو پھیلانا اور برائی کو چھپانا چاہیے۔
چوہدری اعجاز احمد ایک مذہبی انسان ہیں ۔ خدا نے ان کے کام میں بہت برکت ڈالی ہے۔ میں نے پوچھا اتنی ناکامیوں کے بعد کامیابی کیسے ممکن ہوئی؟ بولے... انہوں نے کارلٹن میں دس بارہ برس قبل گاڑیاں بیچنے کا کام شروع کیا تو اپنے اوپر سود کو حرام کر لیا ۔ بھلا امریکہ جیسے ملک میں یہ کیسے ممکن تھا ۔ گاڑی اگر پانچ ہزار ڈالرز کی آکشن سے خریدی تو اس میں دو تین ہزار ڈالرز کا منافع رکھ کر اس پر جو قسطیں بنیں اس میں کوئی سود نہیں رکھا ۔ کارلٹن میں شور مچ گیا کہ ایک پاکستانی کاروباری ایسا ہے جو سود نہیں لیتا ۔ یوں کاروبار بڑھنے لگا۔ اعجاز بھائی کہنے لگے آپ بتائیں اگر مجھے ایک گاڑی پر دو ہزار ڈالر بچ جاتے ہیں جو میرے خیال میں مناسب ہیں تو پھر میں ان سے قسطوں پر مزید کیوں ہر ماہ سود وصول کروں جیسے دوسرے کار ڈیلرز کرتے ہیں؟ کسی نے بتایا کہ اگر سود نہ لیا تو یہ جرم ہوگا ۔ جارجیا ریاست سے پتہ کرایا تو انہوں نے کہا انہیں اس سے کوئی غرض نہیں تاہم اس وقت مسئلہ ہوگا اگر 29 فیصد سے زیادہ لیا گیا ہو کیونکہ اس سے زیادہ سود لینا قانوناً جرم ہے۔
کہنے لگے یوں انہوں نے جو گاڑیاں بھی بیچیں‘ اُن پر سود نہیں لیا اور خدا نے اس کام میں برکت ڈالی۔ ایک دفعہ ایک عورت قسطوں پر گاڑی لے گئی۔ کئی ماہ قسط نہ آئی تو گاڑی واپس لے آئے۔ اس گاڑی کو بیچنے کا سوچ رہے تھے کہ تین دن بعد وہ عورت آئی اور بولی کہ اس کا بیٹا معذور ہے اور وہ گاڑی اسے ہسپتال آنے جانے کے لیے لی تھی۔ ایک ماں کی مجبوری نہ دیکھی گئی اور گاڑی کی چابی دے دی ۔ وہ آٹھ ہزار ڈالرز دے چکی تھی ۔ چاہتے تو وہ گاڑی پندرہ ہزار ڈالر میں بک سکتی تھی کیونکہ قانون کے تحت اگر قسطیں نہیںملتیں تو وہ گاڑی آپ بیچ سکتے ہیں۔
ایک دن ایک باپ گاڑی کی سب قسطیں دے چکا لیکن آخری قسط بارہ سو ڈالر نہ دے پارہا تھا ۔ چوہدری اعجاز گاڑی واپس لے آئے اور سیل پر لگا دی۔گاڑی کا سودا تقریباً طے تھا کہ وہ شخص اپنے بیٹے کے ساتھ ایک ہزار ڈالر لے آیا۔ دو سو پھر بھی کم۔ اس وقت اس گاڑی کا کسی سے سودا ہورہا تھا ۔ بچہ رونے لگ گیا ۔ بچے کا رونا نہ دیکھا گیا ۔ بیچنے کی بجائے گاڑی کی چابی دے دی کہ لے جائو ۔
اعجاز بھائی کہنے لگے یار ایک کردار نہیںبھولتا ۔ مجھے یاد دلایا کہ مجھے تم نے ملتان کے ایک سپاہی کی ای میل بھیجی تھی جسے اپنے بیٹے کی کالج فیس کے لیے پینتالیس ہزار روپے کا قرضہ چاہیے تھا۔ اعجاز بھائی نے ملتان میں کسی کو کہا کہ اس سپاہی سے رابطہ کرو۔ سپاہی نے بتایا کہ اس نے کسی سے قرضہ مانگ رکھا ہے۔ دو گھنٹے تک نہ ملا تو وہ اعجاز صاحب کے عزیز سے لے لے گا ۔ دو گھنٹے بعد اس کا فون آیا کہ بندوبست ہوگیا تھا ۔ اب ضرورت نہیں رہی۔ اعجاز صاحب کہنے لگے یار میں بہت متاثر ہوا کہ ایک سپاہی اتنا ایماندار اور اتنی عزت نفس۔ چاہتا تو پچاس ہزار روپے لے سکتا تھا اور ہم اسے واپسی کی غرض سے نہیں دے رہے تھے۔
پاکستان سے ہزاروں میل دور، میں اور اعجاز بھائی نے اس گمنام سپاہی کی عزت نفس اور اپنے بیٹے کو اپنی حلال کی کمائی سے پڑھانے کے اس عظیم جذبے کے احترام میں اپنے اپنے سروں کو جھکایا۔ ایک ایسا سپاہی جس نے موقع ملنے کے باوجود پچاس ہزار روپے مفت لینے کی بجائے کسی سے قرض لینے کو ترجیح دی تھی!