تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     27-07-2014

دو عدد آئی ڈی پیز کے ساتھ عید

میں عید پر بنوں جا رہا ہوں۔ میں نے سامنے بیٹھے ہوئے اسد اور انعم کو مخاطب کر کے بتایا۔ اسد نے کنکھیوں سے انعم کو دیکھا اور مسکرا کر انعم کو مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگا۔ لوجی! اب عید بھی گھر سے باہر کریں گے۔ میں نے کہا‘ اس بات سے تمہاری کیا مراد ہے؟ وہ کہنے لگا‘ اس بات سے میری وہی مراد ہے جو آپ کو سمجھ آ گئی ہے۔ آپ نے رمضان سے ایک دن پہلے اعلان کیا کہ یہ رمضان ملتان گزارا جائے گا۔ اس رمضان میں آپ ایک بار کراچی‘ دوبار اسلام آباد اور چار بار لاہور گئے ہیں۔ آج رمضان کی ستائیس ہے۔ ان ستائیس دنوں میں سے آپ نے سترہ دن ملتان سے باہر گزارے ہیں۔ میں نے حساب رکھا ہوا ہے۔ میں نے کہا‘ موٹے بھائی! یہ سارا سفر مجبوری میں کیا ہے۔ رمضان میں سفر کرنا آسان نہیں۔ سحری اور افطاری کا مزہ مجھے گھر کے علاوہ اور کہیں نہیں آتا۔ اب ضروری کاموں کا کیا کیا جائے؟ کام رکتے نہیں ہیں۔ اوپر سے مختلف ٹی وی چینلز کے عید مشاعرے۔ دو دن کا کام ایک دن میں نپٹا کر واپس آتا رہا ہوں۔ اس دوران دو افطاریاں ایئرپورٹ کے لائونج میں‘ ایک جہاز میں‘ دو ڈائیوو میں اور تین دوران سفر سڑکوں پر ہوئی ہیں۔ 
اسد کہنے لگا‘ آپ بنوں عید کس کے ساتھ اور کیوں کرنے جا رہے ہیں؟ میں نے کہا‘ میں چاہتا ہوں کہ میں یہ عید آئی ڈی پیز کے ساتھ منائوں۔ اسد پوچھنے لگا‘ یہ آئی ڈی پیز کیا ہوتے ہیں؟ میں نے کہا‘ یہ آئی ڈی پیز مخفف ہے Internally displaced persons کا۔ یعنی اندرون ملک مہاجر افراد۔ جیسے لوگ سوات آپریشن کے دوران سوات سے دیگر علاقوں میں منتقل کیے گئے تھے تاکہ وہاں فوجی آپریشن کے دوران شدت پسندوں کے خلاف کھل کر کارروائی کی جا سکے۔ اب اسی طرح شمالی وزیرستان ایجنسی سے عام شہریوں کو دوسرے علاقوں میں منتقل کیا گیا ہے تاکہ شمالی وزیرستان میں موجود‘ ملکی اور غیر ملکی جنگجوئوں‘ شدت پسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیا جائے۔ شمالی وزیرستان سے تقریباً دس لاکھ سے زائد افراد نقل مکانی کر چکے ہیں۔ 
اسد کہنے لگا‘ بابا جان! یہ حکومت کیا کر رہی ہے؟ میں نے کہا فی الحال تو کام سے زیادہ دکانداری کر رہی ہے اور اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے بجائے دوسروں پر ملبہ ڈال رہی ہے۔ ابھی تک ان بے گھر لوگوں کو ادائیگی کا کوئی باقاعدہ طریقہ ہی وضع نہیں کر سکی۔ اس کی ترجیحات میں بہرحال آئی ڈی پیز کا معاملہ اس سے کہیں نیچے ہے جہاں اسے ہونا چاہیے تھا۔ اب تک حال یہ ہے کہ حکومتی اقدامات سے کہیں زیادہ بہتر اقدامات اور کارکردگی غیر سرکاری تنظیموں کی ہے۔ مثلاً فلاح انسانیت والوں کی‘ جو جماعت الدعوۃ کا نیا نام ہے۔ اس کے علاوہ الخدمت فائونڈیشن ہے جو ان بے گھر لوگوں کے لیے مصروف عمل ہے۔ اب تفصیلات کیا بتائوں؟ خوراک‘ کپڑے‘ دوائیاں‘ خیمے‘ بستر‘ ہسپتال‘ ایمبولینس‘ پکا پکایا کھانا‘ سحری افطاری‘ ٹرانسپورٹ اور بچوں کے لیے عید کے کپڑے اور کھلونے وغیرہ سب یہ تنظیمیں فراہم کر رہی ہیں۔ 
بلاول بھٹو کا اپنے کارکنوں سے کہنا ہے کہ وہ عید آئی ڈی پیز کے ساتھ منائیں گے اور گھر میں یہ حال ہے کہ ابا جان امریکی نائب صدر کے ساتھ تصویریں کھنچوانے میں مصروف ہیں اور عید امریکہ میں کریں گے۔ دوسری طرف اپنے پرویز رشید ہیں جو عمران خان کے دو دن کے لیے برطانیہ جانے پر طنز کے تیر اور طعنوں کی توپیں چلاتے ہوئے تھکتے نہیں تھے‘ اب ان کا قائد ملک عزیز کا سربراہ اور سارے عوام کا رکھوالا سعودی عرب میں عید منائے گا۔ اس دوران سعودی شاہ کے ساتھ اور شہزادوں کے ساتھ ملاقاتیں ہوں گی‘ بلکہ ہو چکی ہیں۔ اوپر سے عمرے کا ثواب اور افطاریوں کا اجر خالص نفع ہوگا۔ اسد پوچھنے لگا کہ کیا ان حالات میں وزیراعظم نوازشریف کو سعودی عرب جانا چاہیے تھا؟ میں نے کہا‘ یہ میاں صاحب کی پرانی روایت ہے کہ وہ رمضان کا آخری عشرہ مدینہ منورہ میں گزارتے ہیں۔ خیر جب وہ سرور پیلس کے رہائشی تھے تب تو اور بات تھی۔ ان پر کوئی ذمہ داری نہیں تھی بلکہ وہ خود سعودی حکمرانوں کی ذمہ داری بنے ہوئے تھے۔ انہیں اس دوران صرف ایک کام ہوتا تھا کہ وہ صبح صبح لندن سے بھجوائی گئی برطانوی پراپرٹی کی ان تصویروں کا جائزہ لیں جو وہاں سے حسین نوازشریف انہیں بھجواتا تھا اور وہ فیصلہ کرتے تھے کہ کون کونسی بلڈنگ خریدنی ہے اور کونسی نہیں۔ تب تو عمرہ کرنا سمجھ میں آتا ہے مگر ایسی صورتحال میں جب دس لاکھ سے زیادہ لوگ کسمپرسی کے عالم میں ہیں‘ ان کے پاس چھت نہیں‘ گھر نہیں‘ مال و متاع نہیں‘ کھانا نہیں‘ مناسب کپڑے نہیں‘ ضروریات زندگی کا دیگر سامان نہیں‘ پیسے نہیں‘ بھلا ایسے میں عبادت اللہ کے ہاں کیسے قبول ہو سکتی ہے؟ وہ رحیم و کریم ہے‘ گناہوں کو معاف کرنے والا‘ عفو و درگزر کرنے والا ہے۔ وہ غفور الرحیم حقوق اللہ معاف کردیتا ہے لیکن یہ حقوق العباد کا معاملہ ہے۔ عمرے سے کہیں زیادہ اہم اور بلند درجے والا کام۔ دس لاکھ لوگوں کی آسانیاں۔ دس لاکھ لوگوں کی دعائیں۔ اتنے زیادہ لوگوں کی دعائیں اور خدمت کا درجہ! بھلا پچیس تیس سابقہ والے عمروں میں ایک اور عمرے کا اضافہ نہ بھی ہوتا تو کیا فرق پڑ جاتا؟ اگر پہلے والے پچیس تیس عمرے آپ کا دل نرم نہیں کر سکے‘ آپ کو حقوق العباد پر مائل نہیں کر سکے‘ آپ کو عبادت اور خدمت کا فرق نہیں سمجھا سکے تو بھلا اس ایک اور عمرے سے کیا ہوگا؟ اسد کہنے لگا‘ آپ کی بات تو ٹھیک ہے لیکن آپ یہ بتائیں کہ آپ بنوں کیوں جانا چاہتے ہیں؟ 
میں نے کہا‘ تمہیں بتا تو چکا ہوں کہ اندرون ملک ہجرت کرنے والے شمالی وزیرستان کے لوگوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے میں یہ عید ان کے ساتھ منانا چاہتا ہوں۔ اسد نے اپنی اور انعم کی طرف اشارہ کر کے کہا اور ان دو آئی ڈی پیز کا کیا بنے گا؟ یہ دونوں کس کے ساتھ عید منائیں گے؟ وہاں بنوں میں آپ کو کوئی نہیں جانتا۔ کسی کو فرق نہیں پڑے گا کہ آپ آئے ہیں یا نہیں آئے۔ آپ کے دل کی تسلی علیحدہ چیز ہے وگرنہ وہاں آپ کا جانا نہ جانا وہاں کے لوگوں کے لیے برابر ہے۔ لیکن یہاں ملتان میں جو دو آئی ڈی پیز ہیں ان کو بڑا فرق پڑے گا۔ یہ عید کس کے ساتھ منائیں گے۔ عید تو اجتماعی خوشی کا نام ہے۔ میں صبح عید نماز کے لیے عیدگاہ کس کے ساتھ جائوں گا؟ دادا کو عیدگاہ کون لے کر جائے گا؟ پھپھو کے گھر ہم دونوں کس کے ساتھ جائیں گے؟ سارہ باجی کو ملنے کے لیے ہم کیسے جائیں گے؟ ماموں کامران کل خانیوال چلے گئے ہیں۔ ہم دونوں کو گاڑی چلانی نہیں آتی۔ اللہ نواز کل سے عید کی چھٹیوں پر چلا جائے گا۔ آپ ملتان سے باہر جاتے ہیں تو ہم دونوں کبھی اکیلے نوکروں کے ساتھ گھر میں ہوتے ہیں۔ کبھی ماموں کامران کی طرف چلے جاتے ہیں۔ کبھی سارہ باجی ہمارے پاس آ جاتی ہیں اور کبھی ہم ان کی طرف چلے جاتے ہیں۔ جب کومل باجی پاکستان میں تھیں ہم ان کی طرف بھی چلے جاتے تھے۔ ان چھٹیوں میں ہم کچھ دن جھنگ خالہ کے پاس اور ایک آدھ دن خانیوال میں ماموں احسان کے پاس تھے۔ ہم دونوں بھی تو آئی ڈی پیز ہیں۔ اندرون ملک مہاجر۔ جب گھر میں آئی ڈی پیز موجود ہوں تو آپ کو بنوں جانے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ یہ عید ہمارے ساتھ ملتان میں منائیں۔ دادا کو ساتھ لے کر میرے ساتھ عیدگاہ جائیں۔ اکٹھے نماز پڑھیں۔ واپسی پر دادا کے ساتھ سویاں کھائیں۔ پھر سارہ باجی کے گھر جائیں۔ پھپھو سے جا کر ملیں۔ خانیوال اکٹھے چلیں جہاں ماموں احسان‘ ماموں انیس‘ ماموں کامران‘ ماموں طارق‘ خالہ بشریٰ‘ فرحانہ خالہ‘ بڑی خالہ اور سارے بچے ہوں گے۔ لیکن یہ سب کچھ آپ ہوں گے تو ہو سکتا ہے۔ اگر آپ بنوں چلے گئے تو ان دو آئی ڈی پیز کی عید تباہ و برباد ہو جائے گی۔ آپ کو بنوں والے آئی ڈی پیز کی تو فکر ہے۔ یہ فکر اچھی بات ہے۔ ہم بھی آپ کی طرح ان کے لیے فکر مند ہیں۔ انہیں آپ سے زیادہ دیگر چیزوں کی ضرورت ہے جبکہ ہمیں دیگر چیزوں سے زیادہ آپ کی ضرورت ہے۔ آپ میری عیدی بنوں بھجوا دیں اور خود ہمارے ساتھ عید کریں۔ انہیں پیسوں کی‘ ضروریات زندگی کی زیادہ ضرورت ہے۔ سب کو چاہیے کہ وہ عید میں مالی طور پر اپنے شمالی وزیرستان والے آئی ڈی پیز کو نہ بھولیں۔ مگر آپ بھی گھر میں موجود ان دو آئی ڈی پیز کو نہ بھولیں۔ میں نے اسد اور انعم کی عیدی الخدمت والوں کے توسط سے شمالی وزیرستان کے آئی ڈی پیز کو بھجوا دی ہے اور عید اسد اور انعم کے ساتھ منا رہا ہوں۔ میں نے اسد کی بات پر غور کیا ہے۔ مجھے اب پتہ چلا ہے کہ گزشتہ پونے دو سال سے وہ بھی آئی ڈی پیز جیسی مہاجرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ صبر اور حوصلے کے ساتھ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved