آج کے کالم کا آغاز قومی اسمبلی میں قائدحزب ِاختلاف سید خورشید شاہ کے بیان سے کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے خورشید اورنظام شمسی کے خورشید میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ نظام شمسی کے خورشیدکے باعث ہی زمین پر زندگی اور ہمسایہ سیاروں پر نظم وضبط ہے۔ علامہ اقبال ؒ نے اہلِ ایمان اورخورشید میں مماثلت کو بیان کیا تھا:
جہاں میں اہلِ ایماں صُورت خورشید جیتے ہیں
اِدھرِ ڈوبے اُُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھرِ نکلے
پیپلز پارٹی کی سیاست اب '' اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے اوراُدھر ڈوبے اِدھر نکلے‘‘ کا کمرشل ہوچکی ہے۔ شاہ جی نے فرمایا ہے کہ ''جو دس پندرہ ہزار لوگوں کو سنبھال نہیںسکتے وہ حکومت کوکیا سنبھالیں گے، حکومت نے اگر عمران خان کو روکا تو یہ حکومت سمیت جمہوریت کے لئے شدید خطرہ ہوگا، طاہر القادری کا انقلاب فوت ہوچکا ہے اور یہ فوتیدگی اس دن ہوئی تھی جب وہ حکومت کے نمائندہ گورنرکی بلٹ پروف گاڑی میں بیٹھ کر اپنے گھر گئے تھے‘‘۔ شاہ جی کی اطلاع اگر سوفیصد درست ہے تو ہم جاننا چاہیں گے کہ انقلاب کے وفات پانے کے بعد دسواں اور رسم چہلم کب ادا کی گئی۔ سالانہ عرس کب ہواکرے گا؟ ہمارا خیال ہے کہ نون لیگ ہو، پاکستان عوامی تحریک ہو یا پھر تحریک انصاف ، پیپلز پار ٹی کاکام اب امام والا نہیں رہا۔ کبھی وہ نون لیگ اور میاں نواز شریف کے پیچھے نیت باندھتی دکھائی دیتی ہے توکبھی عمران خان کے پیچھے ''سیاسی نوافل‘‘ اد ا کرتی نظر آتی ہے۔ خبر بازوں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم میاں نوازشریف کا سعودی عرب جانا اورسابق صدر آصف زرداری کا امریکہ پہنچنا بے معنی نہیں ہے۔ اگرچہ امریکہ روانگی سے پہلے آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کے ایف ایم ریڈیوکا انٹینا کپتان خان کی طرف گھما دیا تھا مگر شک کرنے والے اسے بھی فرینڈلی میچ قراردے رہے ہیں۔ زرداری صاحب نے کہا تھاکہ '' عوام نے میاں نوازشریف کو وزیر اعظم منتخب کیا ہے ، وہ بادشاہ نہ بنیں‘‘۔
سیاست کے اینگری مین عمران خان نے زرداری صاحب کے اس بیان کو سراہا تھا۔ شہلارضا نے انکشاف کیا کہ زرداری صاحب امریکہ کو یاد کرانے گئے ہیں کہ '' وہ پاکستان میں لگاتار تین الیکشنزکرانے کا وعدہ پورا کریں‘‘۔ شہلارضا کے بیان کی تشریح کرنے والوں کا کہنا ہے کہ این آر او کی ایک خفیہ شق میں یہ شامل تھا کہ امریکہ پاکستان میں لگا تار تین الیکشنز کرانے کی گارنٹی دیتا ہے اوراس عرصے کے دوران مارشل لاء نافذ نہیں کیاجائے گا۔ مراد یہ ہے کہ مسلسل الیکشنز کرانے سے جمہوریت کو استحکام بخشا جائے گا اور اس عرصے کے دوران ''میرے عزیز ہم وطنو ‘‘ والے تجربے سے مکمل پرہیز اختیار کیا جائے گا۔ ممکن ہے کہ قومی مفاد کے وزن پر جمہوریت کے مفاد کے لئے کسی غیراعلانیہ معاہدے کے مطابق ایسا کیا جا رہا ہو۔ یعنی میاں نوازشریف اورآصف زرداری نے جمہوریت کو کسی ممکنہ خطرے سے بچانے کے لئے مخالف سمتوں میں اڑان بھری ہو۔ ہمارے ہاں موجودہ جمہوریت کی عمر چھ سال سے چند ماہ اوپر ہوگئی ہے ، نجانے اس کا جھٹکا ہونے کا اندیشہ کیوں موجود ہے۔ غالب نے کہا تھا:
تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا
اُڑنے سے پیشتر بھی مِرا رنگ زرد تھا
گزشتہ چند برسوں سے شہلارضا سے مختلف ٹیلی وژن پروگراموں کے سلسلے میں ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں۔ چند ماہ قبل وہ ''دنیا نیوز‘‘ کے پروگرام ''مذاق رات‘‘ میں شرکت کرنے لاہور آئیں تو ان سے سیاست سے لے کرظرافت تک باتیں ہوتی رہیں۔ شہلارضا سے بات چیت کرکے میں نے محسوس کیا کہ وہ عورتوںکی مخصوص نشستوں سے منتخب ہونے والی ''پارٹی شو پیس‘‘ نہیں بلکہ وہ عورت یا مرد کے بجائے ایک نظریاتی اورسیاسی ورکر ہیں۔ خبربازوں کا کہنا ہے کہ شہلارضا کی Till further order زبان بندی کردی گئی ہے۔ وہ کسی ٹاک شو میں بولتی دکھائی نہیں دیں گی۔ ٹاک شوز سے یاد آیا کہ اپریل کے وسط سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں رونما ہونے والی تبدیلیاں مزید حیران کررہی ہیں۔ ربع صدی سے زیادہ وقت گزارنے والے کہنہ مشق پرانے دریائوںسے نکل کر نئے متوقع سمندروں میں اتررہے ہیں۔ پاکستان کی صحافتی تاریخ کے اس موڑ پر مجھے بھارتی شاعر گلزار کا لکھا وہ گیت یاد آرہا ہے جسے میرے دوست استاد راحت فتح علی خاں نے گایاہے۔ یہ گیت ان جانے والوں کو اپنے پاس واپس بلانے کی ایک صدا ہے جو اپنوں کو چھوڑکرکہیں اور چلے جاتے ہیں :
نظر میں رہتے ہو، جب تم اِدھر نہیں آتے
یہ سُر بلاتے ہیں، جب تم اِدھر نہیں آتے
صحافت کی طرح پاکستان کی عدالت کو بھی اہم تاریخی موڑ کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے عمران خان کے خلاف ہتک ِعزت کا دعویٰ دائر کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے 20 ارب روپے ہرجانے کا نوٹس بھجوایا ہے۔ عمران خان اگر چیف صاحب کے متعلق لگائے گئے الزامات واپس نہیں لیتے تو پھر انہیں مقدمے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عمران خان کو دیے جانے والے نوٹس میں چودہ دن کی مہلت دی گئی ہے۔ یہ پہلاموقعہ ہوگا کہ کسی سابق چیف جسٹس نے ایک بڑی سیاسی جماعت کے رہنما کے خلاف ہتک ِعزت کا دعوی کیا ہے۔ عمران خان کے خلاف سابق چیف جسٹس سے پہلے ان کے فرزند ارسلان افتخار میدان میں نکلے تھے جنہوں نے عمران خان کے خلاف عدالت کے بعد اسلامی نظریاتی کونسل کا رخ کر لیا ہے۔ ارسلان افتخار نے الزام لگایا ہے کہ عمران خان آئین آرٹیکل 62 اور 63کے مطابق صادق اورامین نہیں ہیں لہٰذا قومی اسمبلی سے ان کی رکنیت ختم کی جائے۔ ارسلان ، اسلامی نظریاتی کونسل جانے سے پہلے سیتا وائٹ سے عمران خان کی مبینہ بیٹی کے معاملے کو ایک بار پھر سامنے لائے ہیں۔ ارسلان افتخار سے پہلے ایم کیو ایم نے بھی یہ معاملہ اٹھایا تھا۔ اب ارسلان نے میڈیا کو یہ دستاویزات فراہم کی ہیںجس میں ایک غیر ملکی عدالت اپنے فیصلے میں عمران خان اورسیتا وائٹ کی بیٹی کو دونوں کی اولاد قراردے چکی ہے۔
جوں جوں قوم 14اگست کی طرف بڑھ رہی ہے، وسوسوں اور افواہوں کی آندھیاں سیاسی منظر نامے کو دھندلارہی ہیں۔ 14اگست سے پہلے لوڈشیڈنگ کے خلاف عوام کے جارحانہ ردعمل کو حکومت کے حق میں بہتر قرار نہیں دیا جا رہا۔ حکومت کے پاس لوڈشیڈنگ کا کوئی حل نہیں ہے، خواجہ آصف نے کہا کہ لوڈشیڈنگ اوربجلی کے شارٹ فال کے لئے حکومت آسمانی مدد پر انحصار کئے ہوئے ہے یعنی بارش ہو اورموسم قدرے ٹھنڈا ہوجائے۔ بجلی کا شارٹ فال ختم یا کم کرنے کا دوسرا منصوبہ غالباً یہ ہے کہ جولائی کے مہینے میں ہی دسمبر آجائے۔ لیکن ہم وہ بدقسمت ہیں جن پر مئی، جون اورجولائی میں ہونے والی بجلی کی لوڈشیڈنگ آگ برساتی ہے۔ دسمبر اورجنوری میں ہمارے چولہے گیس کی لوڈشیڈنگ کے باعث ٹھنڈے پڑے رہتے ہیں۔ اب ایک بار پھر 14اگست کو نئے پاکستان کی تعمیر کا دن قرار دیا جا رہا ہے۔
ان 66 برسوں میں کئی بار ایسا ہوا کہ سیاسی رہنمائوں اورفوجی حکمرانوں نے قوم کی تقدیر بدلنے کے خواب دکھائے لیکن آنکھ کھلی تو وہی''صحرا ہماری آنکھ میں یک مشت ِخاک ہے‘‘ والا منظرنامہ ہی تھا۔ جمہوری حکومتوں کے پاس تو ظاہری مینڈیٹ ہوتا ہے فوجی حکومتیں بھی ہمارے لئے کچھ نہ کرسکیں۔ جنرل ضیاء الحق اورجنرل پرویز مشرف کسی سے بھی ''ڈرتے ورتے ‘‘ نہیں تھے ، انہیں اپنے ادوار میں کالا باغ ڈیم بنا لینا چاہیے تھا مگر افسوس دونوں نے ایسا نہ کیا اور اب ہمارے قائدین نندی پور پاور پراجیکٹ پر قوم کے خون پسینے کی کمائی سے اربوں روپیہ ضائع کررہے ہیں۔ عید کے بعد 14اگست بھی آنے والا ہے جسے نئے پاکستان کی تعمیر کا آغاز قراردیا جا رہا ہے، خدا کرے قوم کی اُمیدیں اورعیدیں، محرم نہ بنیں۔ جالب نے غریب کے دکھ کا نوحہ یوں بیان کیاتھا:
لُٹی ہے ہر گام پر اُمید اپنی
محرم بن گئی ہر عید اپنی
اے پروردگار ! غریب کی عیدیں محرم بننے سے بچا ۔ آمین!