تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     27-07-2014

زوالِ عقل

عمران خان سمیت دیگر سیاستدان 2013 ء کے الیکشن میں مبینہ دھاندلی کو بنیاد بنا کر جس طرح سیاسی نظام کو غیر مستحکم کرنے کی کوششوں میں جت گئے ہیں،اسے نرم سے نر م الفاظ میں بھی زوال عقل کا شاخسانہ کہا جائے گا۔ خود ملامتی پر مبنی یہ طرز عمل دل و دماغ کی تقسیم کا شاہکار دکھائی دیتا ہے جو بالآخر سیاسی کشمکش کا رخ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی طرف موڑکر قیام امن کی کوششوں کا گلا گھونٹ ڈالے گا۔ خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کی طرف سے شمالی وزیرستان آپریشن جلد مکمل کرنے کے زیر لب تقاضوں کے پیچھے یہی پیچیدہ عزائم چھپے ہیں جو حالات کے ساتھ بلند آہنگ ہوتے جائیںگے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ تکمیل کے مراحل سے گزرتے جمہوری عمل کو راہ راست سے بھٹکانے والے، جمہوری حقوق اور سماجی انصاف کے مقبول نعروں کی گونج میں مثالیت ڈھونڈتے ہیں ۔ گزشتہ 66 برسوں کے تجربات گواہ ہیں، یہی مخصوص سوچ جو کامل جمہوریت اور مثالی معاشرے کی تفہیم کا استحقاق لئے بیٹھی ہے، اپنی مخفی تدابیر کے ذریعے آمریت کو تقویت پہنچاتی ہے، ورنہ اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ جمہوریت وہ مسلسل عمل ہے جو تخم سے پھوٹنے والے پودے کی مانند تدریج سے تکمیل پاتا ہے۔ بدقسمتی دیکھیے کہ کوئی فعال دانش ارتقائی عمل سے گزرنے کی فطری الجھنوں پر آمریت کے جمودکو ترجیح دینے پہ اصرار کر رہی ہے ۔ جی ہاں ! یہ وہی ہمہ دان دیوتا ہیں جو ہر عہد میں ہمارے جمہوری نظریات کا تمسخر اڑاتے ہیں اور اکثریت کو قسمت پرستانہ فلسفہ حیات کا غلام بننے پر قانع رکھتے ہیں۔ ان کی ذہنی مساعی کا محور سیاستدانوں کی کمزوریوںکا استحصال کر کے سیاسی نظام کو غیر مستحکم رکھنا ہے۔ انتخابی دھاندلی کی بازگشت اور وزیرستان آپریشن کی جلد تکمیل کے مطالبے کی گونج بھی اسی وسیع سکیم کاحصہ ہے جس میں مخصوص لوگوں کو بہتر مستقبل کے سہانے خواب دکھا کر میسر جمہوری آزادیوں سے دستبردارکرالیا جاتا ہے۔ یہی سوچ پچھلی نصف صدی سے مذہبی و سیاسی لن ترانیوں کے وسیلے کاروبارِ سیاست کو بے اعتبار رکھنے کے اسباب مہیا کرتی رہی ۔ یہ وہ ذہنی بحران ہے جس کی جڑیں مایوسی کی اس لذت خیال میں پیوست ہیں جو نُور آزادی کے متلاشی طبقات کو بھی امید کی مدھم کرنوں کے خلاف مزاحمت پہ اکسا کے انہیں آمریت کی تاریکیوں کا محافظ بنا سکتی ہے۔ ہمارا سادہ لوح سماج انہی دجالی دائروں میں اپنے مفروضوں کی تصدیق اور امیدوں کی تسکین تلاش کرتے ہوئے ان تھوڑی سی آزادیوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے جن پر قناعت کر لینے ہی میں اس کی عافیت تھی۔ انجام کار تقدیر انہیں آمریت کی لمبی راتوں کے اندھیروں میں بیٹھ کے جمہوریت کے لئے گریہ و زاری پر مطمئن کر لیتی ہے۔ یہ سب کچھ اس لئے ممکن ہوتا ہے کہ پیشہ وراصلاح کاروں کی آہ و فغاں اور تجزیہ کاروں کی ملتبس توضیحات لوگوں سے صبح امید کے پھوٹنے کا یقین چھین لیتی ہیں۔ ہر آمریت سے پہلے مایوسی سے مزین جس مصنوعی اضطراب کی ضرورت ہوتی ہے، اس کی تخلیق کے لئے اخبارات و رسائل ، منبر و محراب اور برقیاتی نشریوں میں انہی سُرتُو سیانوں سے جمہوری حکومتوں کی غلط کاریوں اور کو تاہیوں کے مبالغہ آمیز چرچے کرانے کے علاوہ جمہوری سیاست کے چہرے پر بدعنوانی اور غیرحب الوطنی کی کالک مل کے اور رائے عامہ کو فریب دے کر خود عوام کو اپنے سفر نجات کی راہ میں مزاحم بنایا جاتا ہے۔ آج بھی جمہوریت کی کونپلوں کو مسلنے کے لئے انہی فرسودہ دلائل کے ساتھ ہمارا وہ ہوشیار میڈیا آمریت کا ٹول بننے میں سبقت لے جانے میں مشغول ہے جو خود کو آزادی اظہار کا چیمپئن کہلوانے میں فخر محسوس کرتا ہے ؛ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ، مگر افسوس کہ جمہوریت کی بساط لپیٹ دینے کے بعد یہ بلبل خوش الحان اور فعال میڈیا مصلحت کی بکل مار کر بے بسی کی گہرائی میں اتر جائے گا۔ آمریتیں جتنے عرصے تک چاہیں اقتدار کو انجوائے کرتی رہیں، فرض شناس میڈیا، وارثان جبہ و دستار اور حب الوطنی کے لبادوں سے مزین سیاست دانوں کی زبانیں گنگ رہیں گی۔ آج جو تجزیہ کار خورد بینیں لگا کر مضمحل جمہوری حکومتوں کے عیب ڈھونڈ کے ارتقا پاتے سیاسی نظام کو موت کے گھاٹ اتارنے کے حامی بنے بیٹھے ہیں، آمریتوں میں یہی لوگ عدل و انصاف کی پاسداری، آئین و قانون کی بالادستی اور کرپشن کی کھوج لگانے کے قصے بھول جائیں گے ۔ جی ہاں! فوجی آمریتیں تھک ہار کے جب از خود اقتدار کا بوجھ اپنے کندھوں سے اتارنے پر آمادہ ہو جائیں تو وہ خود ہی ایسا ماحول استوار کرنے کی راہیں کشادہ کر دیتی ہیں جس میں جمہوری قوتوں کو فعالیت کے مواقع دستیاب ہو جاتے ہیں اور سرشار میڈیا جمہوری آزادیوں کا وہ نغمہ گنگنانے لگتا ہے جس کی گونج میں انہیں اپنی عظمت دکھائی دیتی ہے ۔ خط امتیاز پہ چلنے والوں کے علاوہ معتوب سیاستدان بھی عقوبت گاہوں سے چن چن کے علم، عشاق کے قافلے تیار کرتے ہیں اور مجبور سیاسی کارکنوں کی نحیف آوازیں توانا ہو نے لگتی ہیں ۔ پھر انتخابات کی بساط بچھا کے کسی سیاسی گروہ کو عنان حکومت حوالے کر کے اصل اختیارات کو محفوظ رکھاجاتا ہے۔ اس کنٹرولڈ ڈیموکریسی کو سیاسی بندوبست کا نام دے کر جمہوریت کے زیرک دشمن منتخب حکومتوں کو دباؤ میں رکھنے کے لئے پھر سے کرپشن و بدعنوانی کے مبالغہ آمیز افسانوں کو میڈیا کے ذریعے ہائی لائٹ کرنے کی مشق ستم کیش کو دہرا کے سیاست دانوں کی ساکھ کو مستحکم ہونے سے روکتے رہتے ہیں اور بالآخر انہیں اقتدار کے ایوانوں سے بے دخل کرکے جمہوریت کو ناکام تجربہ ثابت کر دیتے ہیں۔ طویل مدت تک حکومت کرنے والے مطلق العنان آمروں پر عہد حکومت میں یا مابعد الزامات لگائے گئے نہ وہ تقاضے ہوئے جو سیاستدانوں سے کئے جاتے ہیں۔ جنرل مشرف کے دس سالہ دور حکومت میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے 2002 ء کے الیکشن میں ہونے والی دھاندلی کا کبھی سوال نہیں اٹھایا ؛ حالانکہ ضیاء الحق کے ریفرنڈم سے مماثل 2002 ء کے الیکشن میں بدترین دھاندلی کرائی گئی ۔ عمران نے جنرل مشرف کے اس ریفرنڈم کی حمایت کو قرین مصلحت جانا جس میں سڑکوں پر بیلٹ بکس نصب کر کے زندہ لوگوں کے علاوہ مردوں سے ووٹ کاسٹ کرائے گئے۔ اسی عہد میں سیاسی پارٹیوں سے بے وفائی کرنے والوں کے سینوں پہ حب الوطنی کے تمغے سجا کے انہیں شریک اقتدار بنایا گیا۔ ضرورت پڑنے پر نیب کے عقوبت خانوں میں پڑے بدعنوانوں کو پاکدامنی کے سرٹیفکیٹ دے کر ایوان اقتدار تک پہچانے کو بھی معیوب نہ سمجھا گیا،حتیٰ کہ پارلیمنٹ کی دوسری بڑی جماعت پیپلزپارٹی کو اپوزیشن کے منصب سے محروم کر کے پانچ سال تک ایم ایم اے کی فرینڈلی اپوزیشن کے ذریعے پارلیمنٹ کو بے بس رکھا گیا۔ دہشت گردی کے خلاف بے مقصد جنگ میں جھونکنے والے ڈکٹیٹر سے اقتدار سے الگ ہو جانے کے بعد بھی کیا کوئی پوچھ سکتا ہے کہ طالع آزمائوں نے ملک کو پرائی جنگوں میں جھونک کے قومی سلامتی کو داؤ پر کیوں لگایا ؟ اب عمران اپنی جماعت کو جس کشمکش کا ایندھن بنا رہے ہیں، اس کے تقاضے اس شخص کی بقا کے گرد گھومتے ہیں جس نے دس سال تک من مانے اقدامات کر کے قوم کی قسمت سے کھلواڑ کیا۔ جن لوگوں کے دماغ پر تعصبات کے پردے پڑے ہوں ان کے لئے واقعاتی حقیقتوں کو جھٹلانا مشکل نہیں ہوتا۔ عدل و انصاف کے یہ دوہرے معیارات ملکی سلامتی کو محفوظ بنانے کا وہ آخری موقع گنوا دینا چاہتے ہیں جسے منتخب قیادت ہموار سیاسی عمل کے ذریعے ممکن بنا سکتی ہے۔ ہمارے لئے ان بدقسمت دائروں سے نکلنا اس وقت تک ممکن نہیں ہوگا جب تک ہمارے ہوشیار تجزیہ کار اپنے ذاتی مفادات کو دائرہ مفاد کے اندر سمیٹ نہیں لیتے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved