کچھ عرصہ قبل ایک سینئر صحافی نے یہ لکھا تھا:شاید ہم پاکستانی پیدائشی طور پہ اس جوہر سے محروم ہیں، جو صاف ستھری اہل قیادت کو جنم دے سکے ۔ ایک ممتاز ٹی وی میزبان اور کالم نگار بھی یہ کہتے ہیں کہ ہمارے جینز میں خرابی ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ بیرونِ ملک اپنے تجربات بیان کرنے کا کوئی فائدہ نہیں (کہ قوم سیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہے )۔
کیا واقعی ہم بدترین اور ناقابلِ اصلاح ہیں ؟
برطانوی وزیراعظم قطار میں اپنی باری کا انتظار کرتا اور نشست نہ ملنے پر ٹرین میں کھڑے ہو کر سفر کرتاہے ۔ وہ پروٹوکول سے محروم ، ایک عام شہری کی زندگی جیتاہے ۔ادھر سو ،ڈیڑھ سو گاڑیوں کے جلو میں سفر کرنے والے ہمارے حکمران عرب بادشاہتوں کا نمونہ ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ برطانیہ یا امریکہ سے ہمارا موازنہ انصاف کی بات نہیں ۔پاکستان 67برس قبل وجود میں آیا تھا۔ جدید برطانیہ کی تاریخ چار سو سال پرانی ہے ۔ اس دوران وہ تاریخ کی عظیم ترین عالمی طاقت بنا۔ بے شمار ممالک کو اس نے فتح کیا؛حتیٰ کہ سو برس قبل کرّئہ ارض کا ہر پانچواں آدمی اس کی رعایا میں شمارہوتا تھا۔
شاید یہ اعداد و شمار آپ کو احساسِ کمتری میں مبتلا کردیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ تاریخ عالمی طاقتوں کا قبرستان ہے ۔ آٹھویں صدی میں دنیا کی قریب تیس فیصد آبادی مرکزی مسلم خلافت کے زیرِ نگیں تھی۔
بہرحال دو عالمی جنگوں نے حالات بد ل ڈالے ۔ جاپان اور بالخصوص سپر پاور جرمنی سے ٹکرا کر برطانیہ پاش پاش ہوا۔ سکڑتے سکڑتے وہ دوسری بے شمار ریاستوں جیسا ایک ملک بن گیا۔ آج محض وہ امریکہ کا حاشیہ بردار ہے ۔
اب ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی سنیے ، جس کی شان و شوکت آنکھوں کو چندھیا دیتی ہے ۔ ڈھائی سو سال قبل وہ آزاد ہوا۔ اپنے قیام کے قریب ایک صدی بعد، 1861ء میں غلامی کے مسئلے پر گیارہ ریاستوں نے فیڈریشن سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ شمال اور جنوب کے درمیان بدترین خانہ جنگی ہوئی۔ چا ر برس میں دونوںجانب سے چھ لاکھ ، جی ہاں ، ایک دو نہیں ، چھ لاکھ انسان قتل ہوئے۔یہ امریکی تاریخ کا خوفناک ترین اخلاقی، آئینی ، سیاسی اور عسکری بحران تصور کیا جاتاہے ۔صدر ابراہام لنکن کی قیادت میں آخر وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے ۔ غلامی کا خاتمہ ہوا لیکن ان تکلیف دہ ایّام کے اختتام پراپریل 1865ء میں امریکی صدر کو قتل کر دیا گیا۔
اگر آزادی کے ایک صدی بعد خوفناک ترین خانہ جنگی کا شکار ہونے اوراپنے چھ لاکھ باشندوں کی لاشیں گرا نے والا امریکہ ایک عظیم عالمی طاقت بن سکتاہے تو پاکستان کیوں قائم نہیں رہ سکتا؟ کیوں ہم خوشحال اور باعزت قوموں میں شمار ہونے کی منزل حاصل نہیں کر سکتے ؟کیا 67برس کے پاکستان کا موازنہ ماضی اور حال کی عالمی طاقتوں سے کیا جانا چاہیے ، جو صدیوں سے قائم ہیں ؟
اپنے ہم عمروں میں مجھے ہر قسم کے باصلاحیت ،پرجوش اور ذہین آدمی نظر آتے ہیں اور میں یہ بات کبھی نہیں مان سکتا کہ ہم کسی سے کمتر ہیں ۔
میں بتاتا ہوں کہ ہماری مایوسی کا سبب کیا ہے ۔ہم کسی بھٹو اور کسی عمران خان کو آخری امید قرار دے ڈالتے اور پھر اس کے ناکام ہو نے کی صورت میں مستقل طور پہ امید سے دستبردار ہو جاتے ہیں ۔ اصول یہ ہے کہ افراد نہیں ، ادارے اہم ہوتے ہیں ۔ فوج کا ادارہ ، پولیس، عدلیہ، پر امن انتقالِ اقتدار کا ادارہ ، مسلسل الیکشن ، نئی اور بہتر جماعتوں کی سیاست میں آمد۔ سیاسی پارٹیوں کا ادارہ ان میں سب سے اہم ہے ۔ یہاں یہ یاد رہے کہ انتہائی تربیت یافتہ افواج ، میزائل اور ایٹمی پروگرام کے ساتھ نہ صرف ہمارا دفاعی نظام دنیا کی بہترین اقوام میں شمار ہوتا ہے بلکہ ہم عدلیہ اور میڈیا کے ادارے بھی تعمیر کر چکے ہیں ۔ آج نہ کسی صحافی کو سچ بولنے سے کوئی روک سکتاہے اور نہ عدالت پہ چڑھائی ممکن ہے ۔ ہاں معاشی طور پر ہم کمزور ہیں لیکن طیب ایردوان سے قبل کا ترکی بھی مفلس اور مفلوک الحال تھا۔
میں تحریکِ پاکستان اور قائد اعظم کی مثال نہیں دیتاکہ بات پرانی ہو جائے گی ۔ 2007ء کی وکلا تحریک نے کیا یہ ثابت نہیں کیا کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں ۔ بندوق کے زور پہ کوئی ہم پہ حکومت کر سکتاہے اور نہ قوم کی خواہشات کے برعکس قاضی القضاۃ کو برطرف کرنا ممکن ہے ۔ کیا 2002ء میں مذہبی قیادت کو آزمانے والی قوم مردہ ہے ؟ کیا 2013ء میں تبدیلی کا نعرہ بلند کرنے والے عمران خان کو پختون خوا کا اقتدار سونپنے والی قوم مردہ ہے؟ میرا نہیں خیال ۔عوام تو بے تابی سے اس رہنما کو ڈھونڈ رہے ہیں ، جو ادبار سے انہیں نجات دلا سکے ۔
افراد نہیں ادارے، انقلاب نہیں مسلسل جدوجہد۔ ان لوگوں پہ مجھے ہنسی آتی ہے ، جو یہ سمجھتے ہیں کہ ایک دن اچانک قوم باہر نکلے گی اور ملک بدل جائے گا۔ انسانی تاریخ کے سب سے بڑے سیاستدان کا نام محمد ؐ تھا ،کرّ ئہ ارض کو جنہوں نے بدل ڈالا تھا۔ کیا ایک دن اچانک انہوں نے یہ انقلاب برپا کر دیا تھا یا برسوں تک جاری رہنے والی جدوجہد اور تربیت سے ؟ آج تک کس انقلاب نے معاشرے کو دیر پا خوشحالی اوروقار عطا کیا؟ بہتری بتدریج ہوتی ہے ۔ آہستہ آہستہ ادارے تعمیر ہوتے ہیں ۔ پھر ان پہ نگران رہنا ہوتاہے ۔امریکی جمہوریت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں لیکن 2009ء میں صدر باراک اوباما کی تقریبِ حلف برداری میں 18 لاکھ افراد شریک تھے۔
اگر ہم جدوجہد جاری رکھیں ،عدلیہ اور میڈیا کے بعد اگر پولیس اور احتساب سمیت دوسرے اہم ادارے تعمیر کیے جاسکیں ‘اگر اپنی قیادت پہ ہم نگران رہیں ‘ اگر تعلیم اور تحقیق کے میدان میں ہم آگے بڑھیں تونہ صرف یہ کہ قائم و دائم رہیں گے بلکہ باعزت قوموں میں ہمارا شمار ہو گا۔ انشاء اللہ۔