تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     28-07-2014

خطرناک فیصلہ

کون ان لیڈروں کو سمجھائے کہ جمہوریت کا بنیادی ادارہ سیاسی پارٹی ہوا کرتی ہے ۔ جب تک وہ منظم ، متحرک اور اہل نہ ہو، سلطانیٔ جمہور کا سورج طلوع نہ ہوگا۔ 
اسلام آباد کو فوج کے سپرد کرنے کی کتنی ہی تعبیریں کی جائیں ، واقعہ یہ ہے کہ نون لیگ کی قیادت بہت دن سے ان خطوط پر سوچ رہی تھی ۔ بار بار یہ جملہ سننے میں آتا رہا : جن لوگوں نے یہ مسئلہ پیدا کیا ہے ، وہی اس سے نمٹیں ۔نکتہ چیں بھی تسلیم کرتے ہیں کہ عمران خان اور طاہر القادری کو راولپنڈی کی حمایت حاصل نہیں ۔ یہ الگ بات کہ اس سلسلے میں شکوک و شبہات پھیلانے کا سلسلہ جاری رہتاہے ۔ ایک نہیں ، عسکری قیادت بہت سی قوتوں کا ہدف ہے ۔ امریکہ ، بھارت اور امریکی سائے میں پلنے والی این جی اوز، انکل سام جن پر ایک سو ارب روپے سالانہ خرچ کرتاہے ۔ 
اطلاعات یہ ہیں کہ علّامہ طاہر القادری کا قافلہ انہی ایّام میں دارالحکومت کا رخ کرے گا ، جب تحریکِ انصاف کے جیالے یہاں براجمان ہوں ۔ ایک آد ھ دن پہلے ، ایک آدھ دن بعد اور ممکن ہے کہ ٹھیک اسی روز۔ علّامہ صاحب زخم خوردہ ہیں اور اندیشہ انہیں یہ ہے کہ شریف حکومت مستحکم ہو گئی تو کردار کشی پہ اکتفا نہ کرے گی ،تباہ کرنے کی کوشش کرے گی ۔ اپنے پتے انہوں نے سینے سے لگا رکھے ہیں ۔ تحریکِ انصاف کے لیڈروں کی طرح ، وہ غیر محتاط نہیں ۔ عمران خان کا عالم تو یہ ہے کہ خود اس کے صدر دفتر میں دوسروں کے کارندے موجود ہیں ۔ بہت سے اخبار نویس یہ بات جانتے ہیں ۔ اگر بے خبر ہیں تو پارٹی کے قائدِ انقلاب ہی ؎ 
پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ''تمہارا‘‘ جانے ہے 
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے 
شیخ رشید تو خیر جذبات بھڑکانے اور شور مچانے کے سوا کسی کام کے نہیں ۔ یہ چوہدری برادران ہیں ، جو اس تحریک کو مربوط کرنے میں سرگرم ہیں ۔ پرسوں پرلے روزایک بہت ہی دلچسپ جملہ ان کے بارے میں سرکاری اخبار نویس نے کہا ''چوہدری صاحبان سازشی تو ہیں مگر وہ شریف لوگ ہیں‘‘ سبحان اللہ، سازشی کیا شریف لوگ ہوتے ہیں اور شریف لوگ کیا سازش کیا کرتے ہیں ؟ لسانی افلاس کے جو مظاہرے اب اردو صحافت کاحصہ ہیں ، وہ بجائے خود ایک الگ موضوع ہے ۔ انگریزی میں لوگ سوچتے ہیں اور پھر اردو میں اس کا ترجمہ کرتے ہیں تو مسخرے نظر آتے ہیں۔ ''یہاں سوال یہ کھڑا ہوتاہے‘‘ ارے بھائی، سوال کھڑا نہیں ، پیدا ہوا کرتاہے۔ 
یہ تو آشکار ہے کہ اسلام آباد کو فوج کے حوالے کرنے کا فیصلہ سول حکومت کی ناکامی کا اشتہار ہے اور تباہ کن نتائج اس سے برآمد ہو سکتے ہیں ۔ 
ایک سوال:شیر شاہ سوری کے بعد برّصغیر کی تاریخ کے سب سے بڑے منتظم جناب شہباز شریف کا ارشاد یہ ہے کہ منہاج القرآن یونیورسٹی کے سامنے سے تجاوزات ہٹانے کا فیصلہ رانا ثناء اللہ کی قیادت میں ہوا تھا۔ رانا صاحب کو یہ اختیار کس نے دیا تھا؟پھریہ کہ حفاظتی چوکیوں کو ہٹانا ضروری ہی کیوں تھا؟ طاہرالقادری دہشت گردوں کاہدف ہیں اور ان کے ادارے بھی۔ صوبائی حکومت کو شاد ہونا چاہیے تھا کہ اپنے طور پر انہوں نے حفاظت کاانتظام کر رکھا ہے ۔ علّامہ صاحب کی طرف سے احتجاجی تحریک کے بعد مگر وہ کیونکر یہ گوارا کرتے ۔ تجاوزات ہٹانے کی نہیں ، یہ پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کو ہراساں کرنے کی مہم تھی ۔ صوبائی حکومت کا ہدف یہ تھا کہ عوامی تحریک کے گروپ لیڈروں کی فہرستیں حاصل کی جائیں ۔ اس کام کے لیے غالباً اس سے زیادہ مضحکہ خیز طریق اختیار نہ کیا جا سکتا تھا۔ یہ انٹیلی جنس کا کام تھا لیکن پنجاب کی انٹیلی جنس وہ ہے ، جس نے کہانی یہ گھڑ سنائی تھی کہ بابر اعوان اور سلمان تاثیر نے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس خواجہ محمد شریف کو قتل کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے ۔ 
پولیس والوں نے منہاج القرآن کے چودہ کارکن قتل کیے۔ چند روز بعد راولپنڈی کی سڑکوں پر وہ ان کے ہاتھوں پٹتے رہے ۔ حافظ شیراز نے کہاتھا ع 
بار ہا گفتہ ام و بارِ دگر می گویم
افواج نہیں ،یہ سول ادارے ہیں، جو اجتماعی حیات میں آہنگ پیدا کرتے ہیں ۔ پولیس ، سول انٹیلی جنس، سول سروس اور ٹیکس وصول کرنے والا ایف بی آر‘ ان دنوں آئی ایم ایف کے سامنے جو شرمسار کھڑا ہے کہ نئے ٹیکس دہندگان سے گیارہ ارب کی بجائے وہ صرف 36کروڑ روپے وصول کر سکا۔ وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار رعب بہت جماتے اور شور بہت مچاتے ہیں ۔ نئے ٹیکس دہندگان کو نوٹس جاری کرنے میں مگر ایک سال کی تاخیر کر دی۔ بحران پیدا ہوتاہے تو وہ فوج کے دروازے پر بھیک مانگنے جاتے ہیں ؎
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں 
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن 
حکومت سنبھالتے ہی پولیس ، سپیشل برانچ اور آئی بی کی تنظیمِ نو پر توجہ دی ہوتی ۔ آج بھی افرادی خفیہ کاری (Human Intelligence) میں آئی بی دوسرے اداروں سے بہترہے ۔ یہ الگ بات کہ آج کل اس کی توجہ صحافیوں اور سیاستدانوں کے ٹیلی فون سننے پر مرتکز ہے ۔ تحریکِ انصاف، عوامی تحریک اور چوہدری صاحبان کے رفقائے کار پر۔ دریں اثنا ایک وفاقی وزیر،سرکاری سیاستدانوں کی منّت سماجت کرتے پایا گیا کہ بعض آزاد اخبار نویسوں کے خلاف کچھ مضامین اپنے کارندوں سے اس نے لکھوائے ہیں ،وہ اپنے نام سے شائع کرانے کی اجازت دیں ۔ 
بجا طور پر یہ کہا جا تاہے کہ فوجی مداخلت کے طفیل پُراعتماد سیاسی قیادت جنم نہیں لے سکی۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ درپیش چیلنجوں سے نمٹ کر ہی سول ادارے مضبوط اور مستحکم ہو سکتے ہیں ۔ یہی بلوغت کا عمل ہے ، شریف حکومت کو جس سے انکار ہے ۔ کئی ہفتوں سے پورے پنجاب اور اسلام آباد کی پولیس کی تربیت کاعمل جاری ہے ۔ ریفریشر کورس، ربڑ کی گولیوں اور آنسو گیس کا بندوبست۔ دور دراز تک کے شہروں میں کارکنوں کو روکنے کی منصوبہ بندی ہو چکی۔ ٹرانسپورٹروں کو ہراساں کیا جا سکتاہے ۔ پٹرول پمپ ممکن ہے کہ بند کر دیے جائیں ۔ اس کے باوجود فوج سے مدد مانگنے کی ضرورت کیوں پڑی ؟ خوف آدمی کے اندر ہوتاہے اور اس کے تضادات سے پھوٹتا ہے ۔ جڑواں شہروں کی پولیس پر اکتفا کیا جاتا تو مظاہرین سے نمٹنا مشکل نہیں تھا۔ دونوں جماعتوں میں توڑ پھوڑ کی کوئی روایت نہیں ۔ سابق سیکرٹری داخلہ تسنیم نورانی نے کہا: اگر وہ حوصلہ مندی سے کام لیں تو یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ۔ ان سے میں نے پوچھا: حوصلہ کیا بازار میں بکتا ہے ؟ 
فوج کو شریک کرنے کا فیصلہ خطرناک ہے ۔ مظاہرین کو روکنے میں اگر وہ استعمال کی جائے گی تو عوامی جذبات بھڑک اٹھیں گے، 2007ء کی طرح ! اگر وہ الگ تھلگ رہے تو حکومت اور عسکری قیاد ت میں فاصلہ بڑھے گا۔ اب بھی وقت ہے کہ شریف حکومت اپنا قدم پیچھے ہٹا لے ۔ 
گزشتہ دو ادوار کی طرح شریف حکومت ناکامی کے راستے پر بگٹٹ ہے ۔ امید ہے کہ نوبت مارشل لا تک نہ پہنچے گی مگر عمران خان اپنے پتے ذرا بھی ڈھنگ سے کھیلیں تو مڈ ٹرم الیکشن وہ لے مریں گے ۔ یہ الگ بات کہ پارٹی کی موجودہ حالت کے ساتھ آئندہ الیکشن بھی وہ جیت نہ سکیں گے ۔ جیت گئے تو ہر ایک سے پوچھتے پھریں گے کہ اب وہ کیا کریں ؟ 
ریاضت کے بغیر کوئی کسی امتحان میں سرخرو نہیںہوتا۔ کون ان لیڈروں کو سمجھائے کہ جمہوریت کا بنیادی ادارہ سیاسی پارٹی ہوا کرتی ہے ۔ جب تک وہ منظم ، متحرک اور اہل نہ ہو، سلطانیٔ جمہور کا سورج طلوع نہ ہوگا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved