سابق صدر آصف زرداری امریکہ آتے ہیں اور افطار ڈنر میں شرکت کرتے ہیں۔ نائب امریکی صدر جو بائیڈن بھی یہیں موجود ہیں۔ ان دونوں رہنمائوں نے ہاتھ ملایا اور دوستانہ انداز میں باتیں کیں ۔کچھ کہا اور کچھ کہتے کہتے رہ بھی گئے۔ اس دوران پاکستان میں پریس کسی اُڑتی خبر کی تاک میں گھات لگائے بیٹھا رہا کیونکہ وطن ِعزیز میں اس قسم کی کہانیاں خاصا رش لیتی ہیں، چنانچہ نہ بھی ہوں تو بھی ''قوت ِ بازو ‘‘ سے گھڑ لی جاتی ہیں۔ اب سب کان کھڑے ہیں کہ سابق صدر واشنگٹن کیوں گئے؟ کیا این آر اوکیس پر اوباما انتظامیہ کی مدد درکا ر تھی؟
میڈیا کو اس کہانی کے پیچھے کس نے لگایا؟ یہ پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شہلا رضا تھیں۔ اُنھوں نے ٹی وی پر آ کر کہا کہ زرداری صاحب این آراو کے حوالے سے امریکیوں کو کچھ یاد دلانے گئے ہیں کہ اُن کے اور اُن کی زوجہ مرحومہ کے ساتھ طے یہ پایا تھا کہ کم ازکم تین انتخابات تک ملک میں مارشل لاء نہیں لگایا جائے گا۔ شہلارضا نے دعویٰ کیا کہ این آر او کی ایک شق کے تحت امریکہ، برطانیہ، یواے ای اور سابق آئی ایس آئی چیف اشفاق پرویز کیانی کی طرف سے تین انتخابات تک جمہوریت کے تسلسل کی ضمانت دی گئی تھی۔ چنانچہ سات سال پہلے، 2007ء میں کیے گئے اس وعدے کی یاددہانی کے لیے سابق صدر امریکہ گئے ہیں۔
بیان بازی میں پیچھے نہ رہنے کے عادی اور زرداری حکومت میں وزارت ِ خارجہ کے مزے لوٹنے والے پی پی پی کے سابق اہم رہنما شاہ محمود قریشی، جو آج کل پی ٹی آئی کے اہم رہنما بن کر عمران کے ہم قدم ہیں، بھی میدان میں کود پڑے۔ اس تمام ڈرامے کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ کے ستائے ہوئے لوگوں کی تفریح کا کچھ سامان ہوگیا۔ شاہ محمود قریشی نے عوام کو ''راز‘‘ کی بات بتائی کہ کچھ اور اہم لوگ بھی این آر او سے باخبر تھے۔ اُنھوںنے نام لیے بغیر کہا کہ وہ لوگ آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی کے بہت قریب تھے۔ اس سے معاملہ مزید پیچیدہ ہوجاتا ہے۔ اپنے بارے میں بات کرتے ہوئے قریشی صاحب تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اس ڈیل سے بے خبر تھے۔ کسی بھی بے خبری پر ان کے دعوے کے بابت بدگمانی سے پرہیز کیا جانا چاہیے۔ قریشی صاحب نے ایک انگلی سے اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی نسبت پی پی پی کے سابق اہم رہنما صفدر عباسی اور ناہید خان این آر او کے بارے میں زیادہ جانتے تھے۔ اب یہ کہنا کہ زرداری صاحب امریکہ اس لیے گئے ہیں کہ وہ این آر او کی ڈیل کے تحت ان پر سے بدعنوانی کے الزامات ختم کیے جانے کا سٹیٹس معلوم کرسکیں، ایک چٹ پٹی خبر کے سوا کچھ نہیں ۔ شدید گرمی میں لوڈشیڈنگ کے ستائے ہوئے عوام ایسی خبروں کو تفریح ہی سمجھتے ہیں، ورنہ وہ اپنے نااہل اور بدعنوان سیاست دانوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔ ہمارے وزیر ِ اعظم نے بھی اس خبر کو گرمانے میں اپنا حصہ ڈالنا بہتر سمجھا اور فرمایا کہ سابق صدر جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے واشنگٹن گئے ہیں۔
دراصل سازش کی تھیوریاں پاکستانی زندگی کی روح و رواں ہیں۔ حکمرانوں سے لے میڈیا اور عام آدمی تک، ہر کسی کو ایک ہی موضوع پر گفتگوکرتے ہوئے پائیں گے کہ کچھ ہونے والا ہے اور یہ کہ ہر سفید دکھائی دینے والی چیز کی تہہ میں کچھ نہ کچھ کالا ضرور ہوتا ہے اورہر دو رنگوںکی جگہ بدلی جاسکتی ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مارشل لاء نامی لفظ ہمارے ہونٹوںسے بمشکل ہی جدا ہوپاتا ہے۔چونکہ پاکستان میں کتب بینی کی روایت دم توڑ رہی( چکی) ہے، اس لیے ماہرین ِ علم و ادب سے التماس ہے کہ اس کے موثر احیاء کے لیے سازش کی تھیوری اور اس کے معاشرے پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے تحقیقی کام کی حوصلہ افزائی کریں۔ اس کے نتیجے میں وجود میں آنے والی کتابیں بھی سازش کے تحت ہاتھوں ہاتھ بکیں گی اور اگر ان کے مطالعہ پر پابند ی کاکوئی قانون بھی بنا دیا جائے تو پھر زور و شور سے پڑھی بھی جائیںگی۔ بلکہ موٹر سائیکل چلاتے ہوئے منچلے حسبِ معمول ون ویلنگ کے دوران بھی ان کا مطالعہ کرتے پائے جائیں گے۔ ہر کوئی پڑھے گا ، بس قانونی پابندی لگنے کی دیر ہے۔ کتب بینی کا ذوق پید ا کرنے کے لیے قانون کا اس سے بہتر مصرف محال ہے۔
برطانیہ میں ایسے موضوعات پر تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران وہاں ان موضوعات پر تحقیقی مقالے لکھے گئے۔۔۔جمہوری معاشرے میں سازش کی تھیوریوں کے پھیلائو سے ہمیں کس چیز کا پتہ چلتا ہے؟سازش کی تھیوریوں کے پس منظر میں کلچر اور معاشرے کا کیا تعلق بنتا ہے؟وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سازش کی تھیوریوں میں ہونے والے تغیرو تبدل کی وضاحت کریں؟کیا تاریخ بھی سازش کی تھیوریوں کو یاد رکھتی ہے یا یہ اُسے بھی چکمہ دے کر آگے بڑھ جاتی ہے؟
موضوع بہت اچھا ہے اور کیا ہی بہتر ہو‘ اگر لمز جیسے اعلیٰ تعلیمی ادارے اسے اپنے ہاں ہونے والے علمی اور تحقیقی کام میں نمایاں جگہ دیں ۔ ویسے بھی اب ہمارے ہاں جمہوریت مستحکم ہو چکی (جتنی ہونی چاہیے تھی) اور اسے فی الحال پٹڑی سے اترنے کا کوئی خطرہ لاحق نہیں، اس لیے ایسے موضوعات پر تحقیق کرنے میںکوئی ہرج نہیں۔ اس سے یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ کیاسازش کی تھیوری واقعی جمہوریت کو نقصان پہنچاتی رہی ہے یا اس پراس ناکردہ گناہ کا صرف الزام ہے؟ایک اور بات معلوم کی جانی چاہیے کہ اس ضمن میں سوشل میڈیا کا کیا کردا ر ہے اور کیا سازش کی تھیوریوںکے بغیر سوشل میڈیا اپنا وجود برقراررکھنے میں کامیاب ہوسکتا ہے؟
گزشتہ چھ عشروںسے پاکستان سازش کی تھیوریوں کی افزائش میں شمالی وزیرستان کا حاجی گلزار خان ثابت ہوا ہے۔ ٹریک ریکارڈ بہت اعلیٰ کیونکہ اس کے دو وزرائے اعظم قتل، ایک پھانسی، موجودہ حکمران سابق قیدی اور سابق حکمران موجودہ قیدی ۔۔۔۔ سبحان اﷲ، ایک محقق کو اور کیا چاہیے؟ سازش اور اس کا تدارک کرنے کے لیے ایک اور سازش اور پھر ان سب کو خفیہ رکھنے کے لیے ایک اور سازش، اور ان سب کی منظر کشی دہلی کے عظیم شاعر نے اپنے انداز میں یوں کی ہوتی۔۔۔''ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مرے ہوتے۔۔۔ گھستا ہے جبیں خاک پہ دریا میرے آگے‘‘۔ تہہ در تہہ سازشوں کی چھان بین اور ان کو صحیح اور غلط ثابت کرنے کا عمل ایک پی ایچ ڈی محقق کو رومانوی شاعر بنا دے گا۔۔۔ اور اگر نہ بنا سکا تو ڈگری تو مل ہی جائے گی۔
ہم سازش کی تھیوریوں میں گم ہیں اور ہمیں لہو رنگ دہشت گردی کی اصل وجوہ کا بھی علم نہیں۔ یہ عسکریت پسند کون ہیں، انہیں فنڈز کون فراہم کرتا ہے، ان کے مقاصد کیا ہیں؟ نو گیارہ کے بعد لڑی جانے والی جنگ ہماری ہے، نہیں ہے، مارنے والے یہود وہنود ہیں، ان کے ایجنٹ ہیں، اور یہ کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو مار ہی نہیں سکتا۔۔۔ بہت کچھ گرد میں لپٹا ہوا ہے ، صرف ایک ہی حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ مرنے والے پچاس ہزار پاکستانی اب کبھی اس دنیا میں واپس نہیں آئیں گے اور اُن مرنے والوں کے بچوں، بیوائوں یا ضعیف والدین کا کوئی پرسان ِحال نہیں ہوگا۔