تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     28-07-2014

عمران خان اور طاہر القادری

عمران خان کااصل حریف کون ہے؟ میرا خیال ہے یہ نوازشریف نہیں، طاہرالقادری ہیں۔ پاکستانی سماج دوطرح کے سیاسی طبقات پر مشتمل ہے۔ ایک طبقہ وہ ہے جس کے مفادات اس نظام کے ساتھ وابستہ ہیں۔ یہ پارلیمنٹ کے ارکان اور ان کے حلقہ انتخاب کے وہ افراد ہیں جن کا خیال ہے کہ وہ بھی پارلیمان کے رکن بن سکتے ہیں۔ یہ راستہ انہیں اقتدار کے ایوانوں تک لے جا تا ہے ، یوں سماج میں ان کی حیثیت مستحکم رہتی ہے۔ اس طبقے میں وہ عام آ دمی بھی شامل ہے جو ان سیاست دانوں کے ساتھ وابستہ ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس نظام سے وابستگی اس کے حق میں ہے۔ اس کے بیٹے کو ملازمت مل جا تی ہے۔ پٹواری اور تھانے دار، ایم این اے اور ایم پی اے کی سفارش پر اس کا کام کر دیتا ہے۔ سرکاری دفاتر میں ایم این اے کا فون کام آجا تا ہے۔ یہ طبقہ عام طور پر بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ وابستہ رہتا ہے۔ ایک جماعت سے دوسری جماعت میں اس کی آ مدو رفت جاری رہتی ہے اور اسے کوئی سابقہ وابستگی کا طعنہ بھی نہیں دیتا۔
دوسرا طبقہ وہ ہے جو یہ خیال کرتا ہے کہ اس نظام کے تحت وہ کبھی اقتدار کا حصہ نہیں بن سکتا۔ اس کا دل چاہتا ہے لیکن اس کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ پارلیمان تک پہنچ سکے۔ اس طبقے کا عام آ دمی سماجی کمزوری کے باعث ان ارکانِ پارلیمنٹ تک رسائی نہیں رکھتا ، یوں تھانے میں رسوا ہو تا ہے اور پٹواری بھی اسے زچ کرتا ہے۔ اس کے عام دفتری کام بھی رکے رہتے ہیں کیونکہ وہ رشوت دے سکتاہے نہ فون کروا سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے بسی اس نظام کے خلاف شدید نفرت کوجنم دیتی ہے۔ وہ روایتی سیاست دانوں سے نفرت کر تا ہے۔ وہ اس نظام کے کارپردازں کو ایک آ نکھ دیکھنا نہیں چاہتا۔ یہ طبقہ کسی سیاسی جماعت سے وابستہ نہیں۔ طاہر القادری صاحب جیسے لوگوں کا ہدف یہی طبقہ ہو تا ہے۔ ماضی میں اسے اشتراکی انقلاب کے نعرے نے مجتمع کر نے کی کوشش کی۔ اس طبقے کے دل میں پائی جانے والی شدید نفرت تشدد کو جنم دیتی ہے۔ وہ جب سڑکوں پہ نکلتا ہے تو ہر اس شے کو بر باد کر دینا چاہتا ہے جو مو جود نظام کی علامت ہو تی ہے۔ اشتراکت میں اس کو فطری سمجھا جا تا ہے اور اس بات کو تسلیم کیا جا تا ہے کہ خون بہائے بغیرانقلاب نہیں آ سکتا۔
ن لیگ ، پیپلزپارٹی، جمعیت علمائے اسلام، ایم کیو ایم اور طاہرالقادری صاحب کی جماعت یکسو ہیں کہ انہیں کس طبقے کو مخاطب بنا نا ہے۔ قادری صاحب کے استثنا کے ساتھ، سب کا تعلق پہلے طبقے سے ہے۔ یہ نظام انہیں اقتدارکے ایوانوں تک لے جاتارہا ہے اور انہیں امید ہے کہ مستقبل میں بھی ایسا ہو گا۔ یوں وہ اس نظام کو باقی رکھنا چاہتے ہیں۔ طاہر القادری صاحب کو اندازہ ہے کہ وہ کبھی انتخابی قوت نہیں بن سکتے۔ اگر وہ اس نظام کا حصہ بنیں گے تو وہ لوگ انہیں جگہ نہیں دیں گے جو پہلے سے مو جود ہیں اور با اثر ہیں۔ یوں وہ دوسرے طبقے کو مخاطب بناتے ہیں، وہ طبقہ جو مایوس اور بے بس ہے۔ اس طبقے کو زیادہ دلائل کی ضرورت نہیں ہو تی، اسے وہ شعلہ نوائی راس آتی ہے جو اس کے جذبات کی ترجمان بن جائے، اس کی نفرت کو بلند آہنگ دے دے۔ وہ بے زاری جو اپنے دل میں چھپائے بیٹھا،اس کی صدائے بازگشت شہر کے چوکوں اور چوراہوں میں سنائی دے۔ یہ وہی طبقہ ہے جو سینما کی سکرین پر جب دیکھتا ہے کہ ہیرو ولن کی پٹائی کرتا ہے تویہ جانتے ہوئے کہ سب فرضی ہے، اپنی سیٹوں پہ کھڑا ہو جا تا اور ہیروکو خراجِ تحسین پیش کر تا ہے۔ اگر اس کے ساتھ مذہب کا تڑکا لگ جائے تو یہ سونے پر سہاگہ ہے۔ جذبات کو جس طرح مذہب مہمیز دیتا ہے، کوئی دوسرا محرک یہ قدرت نہیں رکھتا۔ میں اس وقت یہ بحث نہیں کر رہا کہ اس جمہوری عہد میں اس حکمتِ عملی کی کامیابی کا امکان کتنا ہے۔ میں اس وقت صرف سیاسی رویوں کا ذکر کر رہا ہوں۔
عمران خان کا مخاطب کون سے طبقہ ہے؟اس سوال کا جواب تحریکِ انصاف کے پاس نہیں ہے۔ وہ بیک وقت دو کشتیوں کے سوار ہیں۔ ان کا مخاطب دوسرا طبقہ ہے لیکن حکمتِ عملی پہلے طبقے والی ہے۔ اس تضاد نے ان کے سیاسی طرزِ عمل کواپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ وہ اس نظام سے نفرت کرنے والوں کو مجتمع کرکے،اس نظام کے ذریعے اقتدار تک پہنچیں گے۔ 
عملاً یہ ممکن نہیں ؛ چنانچہ جیسے ہی وہ انتخابی اکھاڑے میں اترے ، وہ ان لو گوں کے محتاج بن گئے جن کا تعلق پہلے طبقے سے تھا کیونکہ حلقہ انتخاب تو اسی کے زیراثر ہے اور اس کی تائیدکے بغیر الیکشن نہیں جیتا جا سکتا۔ اس طرح تحریکِ انصاف کی پہلے صفیں اس طبقے سے بھر گئیں۔ اب عمران خان جب اس نظام کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں تو یہ طبقہ مزاحم ہو تا ہے۔ اس نظام میں رہتے ہیں تو وہ بے بس طبقہ انہیں کچوکے لگاتا ہے جسے انہیں نے نظام کی تبدیلی کے سبز باغ دکھا رکھے ہیں۔ عمران خان اسمبلیوں کی قید سے نکل جا نا چاہتے ہیںتو حلقہ انتخاب میں اثر رکھنے والے طبقہ ان کے سامنے آ کھڑا ہو تا ہے۔ اگر اس کی بات مانتے ہیں تو انہیں معلوم ہے کہ اس نظام میں کوئی جوہری تبدیلی دنوں میں نہیں آ سکتی۔ اب دکھائی یہ دیتا ہے کہ تحریکِ انصاف داخلی طور پرجس مخمصے کا شکار ہے، وہ پورے ملک کو اس کی لپیٹ میں لینا چاہتی ہے۔
عمران خان کے مو جودہ طرز عمل سے معلوم ہو تا ہے کہ ان کا مخاطب دوسرا طبقہ ہے۔ نظام سے مایوس اوربے زار لوگ۔ وہ انہیں سڑکوں پہ لا نا چاہتے ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر ان کے حریف طاہر القادری ہیں، وزیراعظم نواز شریف نہیں۔ نوازشریف صاحب کا مخاطب دوسراطبقہ ہے۔ وہ جو سٹیٹس کو (Status quo) پر یقین رکھتا ہے۔ یہ خواص بھی ہیں اور عام بھی۔ دوسرے طبقے کو اپنا مخاطب بنا کر، عمران خان نواز شریف صاحب کے حلقہ انتخاب کو متا ثر نہیں کریں گے۔ یہ طبقہ تو وہ ہے جسے طاہر القادری صاحب بھی مخاطب بنا رہے ہیں۔ یوں عمر ان خان کے اصل حریف طاہر القادری ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس طبقے میں طاہر القادری صاحب عمران خان کے مقابلے میں زیادہ مضبوط جگہ پہ کھڑے ہیں۔ ان کی تنقید زیادہ جان دار، لہجہ دو ٹوک اورہدف واضح ہے۔ اس کے مقابلے میں عمران خان کے ہاں ابہام ہے،ایجنڈا محدود ہے جس میں عوام کے لیے کوئی کشش نہیں۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ چند حلقہ ہائے انتخاب میں دھاندلی ہو ئی ہے توبھی عوام کے لیے یہ ایسا واقعہ نہیں جس کے لیے سڑکوں پر نکلا جائے۔ اگر ان حلقوںمیں دوبارہ انتخابات ہو جا ئیں تو عوام کے لیے کون سی دودھ کی نہریں بہنے لگیں گی؟دوسری طرف طاہرالقادری صاحب کی بات میں عوامی اپیل زیادہ ہے۔ ان کے وسائل زیادہ ہیں اور تنظیمی صلاحیت بھی۔
میری رائے اگرچہ یہی ہے کہ اس نظام سے بغاوت پرمبنی کسی سوچ کا کوئی مستقبل نہیں۔ نظام ختم ہو تا ہے تو پھر معاملات غیر سیاسی ہاتھوں میں جاتے ہیں، سیاسی لوگوں کے ہاتھ میں نہیں۔ اس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے، غلط حکمتِ عملی بہر حال ابہام سے بہتر ہوتی ہے۔ تحریکِ انصاف ابہام کا شکار ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی نہیں جا نتی کہ اس کاا صل حریف کون ہے۔ بہت جلد انہیں اس کا اندازہ ہوگا۔ پھر ٹی وی ٹاک شوز میں ایک اور طرح کا منظر ہوگا۔ آج ن لیگ پر طاہر القادری تنقید کرتے ہیں تو عمران خان کی مسکراہٹ سنبھالے نہیں جاتی۔ عنقریب یہ دونوں ایک دوسرے پر برسیں گے اور پھر ن لیگ کی ہنسی بے قابو ہوگی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved