تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     01-08-2014

وہ وقت قریب آپہنچا ہے

14اگست نواز شریف کی قائدانہ صلاحیت کاامتحان ہے اور کپتان کا بھی ۔جی ہاں ، علّامہ طاہر القادری بھی۔ بحران میں آدمی پہچانے جاتے ہیں اور امتحان ان کی قسمت کافیصلہ کر دیتے ہیں ۔ وہ وقت قریب آپہنچا ہے۔ 
اب آشکار ہے کہ مظاہرین کے خلاف فوج کو استعمال نہ کیا جا سکے گا۔ اوّل اوّل منصوبہ یہ تھا کہ جڑواں شہروں کو وردی والوں کے حوالے کر دیا جائے ۔ اب صرف 350فوجیوں کو طلب کیا گیا ہے۔ اتنے بڑے شہر میں ان کی موجودگی محسوس تک نہ ہوگی ۔ رینجرز پہلے سے موجود ہیں ۔ فوج والے ان سے الگ شاید پہچانے بھی جا نہ سکیں۔ پھر اس اقدام کا مقصد کیاہے ؟ سرکاری موقف یہ ہے کہ انہیں دہشت گردوں سے نمٹنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے ۔ بظاہر ایسا لگتاہے کہ فوجی قیادت نے سیاسی کشمکش کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ہے ۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے دور سے چلی آتی پالیسی برقرار ہے کہ مسلّح افواج سیاسی پارٹیوں کی باہمی پیکار سے گریز کریں ۔ گلے میں پڑا ہوا ڈھول نون لیگ کو خود ہی بجانا پڑے گا۔ 
حکمتِ عملی بدلتی رہی ۔ اوّل یہ کہا گیا کہ حکمران پارٹی 14اگست کو آزادی کا جشن منانے کی آرزومند ہے ۔ اتنا اس موقف کا چرچا ہوا کہ لوگ اس پر یقین کرنے لگے ۔ اخبار نویس ممکنہ تصادم کے اسباب و عوامل کا تجزیہ کرنے لگے۔ اس پہلو پر کسی نے غور نہ کیا کہ نون لیگ جس پارٹی کا نام ہے ، اس میں کارکن نام کی چیز برائے نام ہی پائی جاتی ہے ۔ نظامِ زرو ظلم کے پروردہ لیڈر ہیں یا پھر بیچارے ووٹر۔ زیادہ سے زیادہ ہر کہیں چند عدد گلو بٹ پائے جاتے ہیں اور ایسے میں وہ کسی کام کے نہیں ۔ بیچ میں فوجی پریڈ کا شوشا بھی چھوڑا گیا لیکن اس غبارے کی ہوا تحریکِ انصاف نے نکال دی کہ پریڈ سحر کو ہوگی اور وہ شام کو شہر پہنچیں گے ۔ 
اب روایتی حربوں پر غور کیا جانے لگا ، جو 1990ء کے عشرے میں اختیار کیے جاتے ۔ متحرک لیڈروں اور کارکنوں کی فہرستیں بنائی جانے لگیں ۔ ہر کہیں انتظامیہ سے کہہ دیا گیا ہے کہ اپوزیشن کی سرگرمیوں سے لاہور کو وہ آگاہ رکھیں ۔ پوری تندہی کے ساتھ خفیہ ایجنسیاں تحریکِ انصاف کے دفاتر پہ نگاہ رکھے ہوئے ہیں ۔ سرکاری حکمتِ عملی پوری طرح ابھی مرتّب نہیں ؛اگرچہ اس کے خطوط کسی قدر واضح ہوئے ہیں ۔ بتایا گیا ہے کہ آخری فیصلہ 36گھنٹے قبل صادر کیا جائے گا۔ گھبراہٹ البتہ موجود ہے اور اس لیے ہے کہ الیکشن میں دھاندلی تو بہرحال ہوئی ہے ۔ اس سوال کا کوئی جواب سرکار کے پاس موجود نہیں کہ قومی اسمبلی میں انگوٹھوں کے نشانات کا جائزہ لینے کا جو اعلان وزیرِ داخلہ نے کیاتھا ، انحراف اس سے کیوں ہوا؟ پھرآدھی رات کو نادرا کے چیئرمین طارق ملک کو برطرف کر دیا گیا۔ عدالت نے بحال کیا تو خاندا ن پر اس قدر دبائو ڈالا گیا کہ وہ مستعفی ہونے پر مجبورہوگئے۔ اسی پر بس نہیں ، ان کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ۔ اب ایف آئی اے کے اہلکار جی الیون میں ان کے گھر پر دستک دیتے رہتے ہیں ۔ 
چوہدری نثار علی خان جس قدر اچھے سیاستدان ہیں ، منتظم اتنے ہی ناقص ہیں ۔ بہترین انتظام کار وہ ہوتاہے ،جو اپنے لوگوں کے ساتھ رابطے میں رہے ۔ان کا حوصلہ بندھائے رکھے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف جس طرح عید کی صبح وزیرستان اور بنّوں گئے ۔ جوانوں کے ساتھ نماز ادا کی۔ حسنِ انتظام پسِ پردہ رہ کر قوّت اور شوکت کے اس مظاہرے کا نام نہیں ، جو چوہدری صاحب کا شعار ہے۔ تین ماہ تک ملاقات کی درخواست کرتے رہنے کے بعد زچ ہو کر اسلام آباد کے چیف کمشنر طویل رخصت پر چلے گئے ۔ ڈیڑھ سال ادھر علّامہ طاہر القادری نے اسلام آباد پر یلغار کی تو یہ کمشنر طارق پیرزادہ تھے، جنہوں نے مشکل کو آسان کیا تھا۔ اطلاع یہ ہے کہ آئی جی اسلام آباد نے بھی چھٹی کی درخواست کی تھی ۔
ا سلام آباد ہی نہیں ، پورے پنجاب میں پولیس والوں کے حوصلے پست ہیں۔ سانحۂ ماڈل ٹائون کے بہت برے اثرات ان پہ مرتّب ہوئے ہیں ۔ حماقت کا ارتکاب ڈاکٹر توقیریا راناثناء اللہ نے کیا، سز ا پولیس کو بھگتنا پڑی۔ اسلام آبادکے پولیس افسر یہ کہتے ہیں کہ اگر آمنہ مسعود کا کیمپ اکھاڑنے کے سرکاری حکم کی وہ تعمیل کریں تو تب بھی عتاب کے حق دار۔ اگر سرکاری پالیسی کے مطابق سکھ مظاہرین کے ساتھ نرمی کا برتائو کیا تو بھی نزلہ انہیں پہ گرا۔ چار گھنٹے تک دارالحکومت کو یرغمال بنائے رکھنے والے جنونی سکندر کا معاملہ ابھی تک ذہنوں میں تازہ ہے اور یاد دلاتا ہے کہ بحران میں اعصاب پہ قابو رکھنا وزیرِ داخلہ کے بس کی بات نہیں ۔ ہر آدمی کا ایک کام ہوتاہے اور وہ سیاست کے آدمی ہیں ۔ عمران خان سے رابطے کی ذمہ داری انہیں سونپی گئی ۔ اس حد تک وہ کامیاب رہے کہ کپتان کو اپنے گھر پہ وزیرِ اعظم کی میزبانی پر آمادہ کر لیا۔ دوسری طرف پارٹی اور خود شریف خاندان میں ان کی مخالفت بڑھتی جا رہی ہے ۔ پوٹھوہار کبھی چوہدری صاحب کی جاگیر تھا۔ اب ایک طرف حمزہ شہباز پائوں پھیلا رہے ہیں تو دوسری طرف حنیف عباسی ، جو منشیات کے مقدمے میں ملوّث ہیں اور عدالت کو ان کے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے ۔ بجا طور پر چوہدری نثار علی خان کا اعتراض یہ ہے کہ ایسے آدمی کو ، جو ارب پتیوں کے درباروںمیں پایا جاتا ہے اور اپنی زبان پہ جسے قابو نہیں ، میٹرو بس جیسا اہم منصوبہ کیوں سونپ دیا گیا؟ دوسری طرف خواجہ آصف ہیں کہ ایک اعتبار سے وہ بھی حنیف عباسی ہیں ۔ بولتے پہلے ، سوچتے بعدمیں ہیں ۔ 
تختِ لاہور کو دی جانے والی اطلاعات کے مطابق پختون خوا سے پندرہ بیس ہزار مظاہرین کی آمد متوقع ہے ۔ اتنے ہی لوگ اسلام آباد اور راولپنڈی سے شریک ہو سکتے ہیں ۔ ساہیوال ، اوکاڑہ ، قصور، شیخو پورہ اور گوجرانوالہ ایسے شہروں کے علاوہ ، ایک قابلِ ذکر تعداد فیصل آباداور لاہور سے نمودار ہو سکتی ہے۔ خود عمران خان لاہور سے آنے والے جلوس کی قیادت کا عزم رکھتے ہیں ۔بتایاجاتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور جماعتِ اسلامی کا پسِ منظر رکھنے والے لیڈروں ، جاوید ہاشمی ، شاہ محمود اور اعجاز چودھری کو نظر بند یا گرفتار کرنے پر غور کیا جارہاہے ۔ اس کے برعکس عمر اسد ایسے رہنمائوں پہ ہاتھ نہ ڈالا جائے گا ، جو جلسوں اور جلوسوں کی حرکیات کا ادراک نہیں رکھتے۔ بظاہر ایسا لگتاہے کہ مسلسل کنفیوژن پھیلانے اور حوصلہ شکنی کے بعد آخر کار آزادی مارچ کی اجازت دے دی جائے گی ؛اگرچہ مظاہرین کوان کے شہروں میں روکنے کی کوشش کی جائے گی۔ طاہرالقادری کے ساتھ البتہ سخت سلوک کیا جائے گا، جو ایک اطلاع کے مطابق 27اگست کو اسلام آباد کا عزم رکھتے ہیں ۔ حکمران پارٹی کے ذرائع یہ کہتے ہیں کہ انہیں لاہور سے باہر نکلنے کی اجازت نہ دی جائے گی۔ 
تحریکِ انصاف کے لیے اب یہ اپنی بقا کا سوال ہے ۔ Do or Die۔ اگر وہ یکسر ناکام رہے تو ایسا دھچکا پارٹی کو لگے گا کہ بہت دن وہ سنبھل نہ سکے گی ۔ دوسری طرف یہ بھی ہے کہ اگر کوئی حادثہ ہوگیا تو نون لیگ کے اقتدار کی عمر کم ہو جائے گی ۔ فوری طور پر نہ سہی مگر لوڈ شیڈنگ، گرانی اور بے روزگاری سے تنگ آئے ہوئے عوام بالآخر اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے ۔ 
14اگست نواز شریف کی قائدانہ صلاحیت کاامتحان ہے اور کپتان کا بھی ۔ جی ہاں ، علّامہ طاہر القادری بھی ۔ بحران میں آدمی پہچانے جاتے ہیں اور امتحان ان کی قسمت کافیصلہ کر دیتے ہیں ۔ وہ وقت قریب آپہنچاہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved