ویسے تو روزوں کے لئے رمضان کا مہینہ مخصوص ہے لیکن بھوک نے اس ملک کے غریبوں پر پورے سال کے روزے فرض کردئیے ہیں۔ حکمرانوں نے عید سے کئی ہفتے قبل ہی عوام کو ''عیدی‘‘ دینے کا آغاز کر دیا تھا۔ ''برے طالبان‘‘ کے خلاف آپریشن نے وزیرستان کے دس لاکھ باسیوں کو اپنے ہی وطن میں بے گھر کر کے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر دیا۔بجلی کے نرخوں میں ماہانہ بنیادوں پر اضافے اور نجی پاور کمپنیوں پر سینکڑوں ارب روپے نچھاور کرنے کے باوجود وزیر پانی و بجلی نے دوٹوک الفاظ میں ''معذرت‘‘ کرتے ہوئے فرمایا کہ لوڈشیڈنگ ختم نہیں ہوسکتی‘ عوام خدا سے گرمی کی شدت میں کمی کی دعا کریں۔وزارت خزانہ ''ٹائپنگ مسٹیک‘‘ کے ذریعے گزشتہ پانچ برسوں کی کم ترین معاشی شرح نمو کو ''بلند ترین‘‘ بناتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑی گئی۔''بابرکت‘‘ مہینے میں مہنگائی آسمان سے باتیں کرتی رہی۔ غریب رسوا اور عوام برباد ہوتے رہے۔ جمہوری حکمران جھوٹ، منافقت اور بیہودہ تماشوں کے ذریعے جمہور کی بے بسی کا مذاق اڑاتے رہے۔ چاند رات کو گوجرانوالہ میں ایک گروہ نے اقلیتی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے گھر نذر آتش کر دئیے۔اس آگ نے آٹھ ماہ اور سات سال کی دو بچیوں اور پچپن سالہ خاتون کو زندہ جلا ڈالا۔ پولیس اور ریاستی انتظامیہ کے اہلکار کھڑے تماشا دیکھتے رہے۔صبر، رواداری اور استقامت کا درس دینے والا مہینہ یوں اختتام پذیر ہوا۔
غریبوںپر ترس کھانا، ناداروں کو خیرا ت دینا اور مسکینوں کا غم غلط کرنا اس طبقاتی معاشرے کی اخلاقی اقدار کے بنیادی اجزا ہیں۔ رمضان کے مہینے اور عیدین کے تہواروںپر محروموں کو خیرات دے کر مخیر حضرات اپنی دنیا اور آخرت سنوار لیتے ہیں لیکن بھیک لینے والوں کی دنیا سنورتی ہے نہ آخرت۔ بھوکا رہ کر غریبوں کا درد سمجھنے کے درس دئیے جاتے ہیں۔ فطرانہ دے کر ضمیر کے بوجھ ہلکے کئے جاتے ہیں۔ سارا سال محنت کش عوام کا خون چوسنے والے چند دن کی ''سخاوت‘‘ کے ذریعے اپنی لوٹ مار، استحصال اور کالے دھن کو جائز بنا لیتے ہیں۔سامراج کی امداد پر پلنے والی این جی اوز ہوں یا ''چندہ‘‘ لینے دینے والی مذہبی تنظیمیں، جوں جوں بھیک کا کاروبار بڑھ کر کمرشلائز ہوا ہے، غربت زیادہ بھیانک شکل اختیار کر گئی ہے۔
ایک طرف حکمرانوں کی افطار پارٹیوں اور ڈنرز میں لاکھوں روپوں کے پرتکلف کھانے ضائع ہوتے ہیں تو دوسری طرف غریبوں کو روزہ کھولنے کیلئے کھجوریں بھی میسر نہیں ہوتیں۔مناسب اور صحت بخش غذا تو دور کی بات‘ اس ملک میں آبادی کی اکثریت پینے کے صاف پانی کو ترس رہی ہے۔رمضان میں بھکاریوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ خیرات کا بازار گرم ہوجاتا ہے۔ حکمران اور درمیانے طبقے کے افراد غریبوں کی طرف چند سکے اچھال کر مصنوعی مسرت حاصل کرتے ہیں۔ بھیک دینے والوں کو ایک طرف اپنے برتر سماجی رتبے کا احساس ہوتا ہے تو دوسری جانب وہ خود کو نیک، متقی اور اعلیٰ انسان ہونے کا دلاسہ دیتے ہیں۔
خیرات کی رسم طبقاتی سماج کے آغاز سے ہی چلی آرہی ہے۔ سماج پر مسلط کی جانے والی حکمران طبقے کی ہر اخلاقی قدراستحصالی نظام کو جواز اور تحفظ فراہم کرتی ہے۔خیرات امیر سے لے کر غریب کو دی جاتی ہے‘ یعنی اس ''نیک عمل‘‘ کا آغاز ہی اس بات کو تسلیم کرنے کے بعد ہوتا ہے کہ غربت اور امارت کی تفریق ایک ازلی و ابدی سچائی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بل گیٹس سے لے کر اس ملک کے کسی بھی امیر ترین شخص تک، ''چیریٹی‘‘ دنیا بھر میں سرمایہ دار طبقے کی منافقانہ اخلاقیات کا بنیادی جزو ہے۔طبقاتی تفریق کو اخلاقی تقدس فراہم کرنے والی بھیک‘ بیمار اور غیر منصفانہ معاشرے کی علامت ہوتی ہے۔ اس طرح غربت کے خاتمے کے خواب دیکھنا اصلاح پسندی کی سب سے مکروہ شکل ہے۔غربت کے سمندر میں سے مٹھی بھرناداروں کو خیرات کے ذریعے ایک وقت کی روٹی تو شاید مل جائے لیکن بھیک لینے والے کی روح چھلنی، نفسیات مجروح اور شعور مسخ ہوجاتے ہیں۔
دولت کے انبار لگا کر'' سخی‘‘ بن جانے اور پھر سخاوت سے شہرت حاصل کرنے والے خواتین و حضرات کون ہیں؟ یہ سرمایہ دار اور وڈیرے سب سے بڑے لٹیرے ہیں جن کی عیاشیاںاور مراعات محنت کش طبقات کے خون پسینے اور آنسوئوں کی کمائی پر ڈاکہ ڈالنے سے مشروط ہیں ۔ حکمران طبقہ صرف ریاستی جبر کے ذریعے اپنی طبقاتی بالادستی قائم نہیں رکھ سکتا۔اخلاقی جواز اور تقدس کے ذریعے استحصال کو ''قدرتی‘‘ ثابت کئے بغیر طبقاتی نظام ایک دن بھی قائم نہیں رہ سکتا۔ سرمایہ دار اپنے سرمائے سے سیاست اور ثقافت سمیت ہر سماجی قدر کو خریدلیتے ہیں۔اس نظام کے تمام مفکر، اہل دانش، فنکار، ملاّ اور سیاسی رہنما بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر حکمران طبقے کی اقدار کا پرچار کرتے ہیں۔ کارپوریٹ میڈیا غلامی کی سوچ عوام پر ٹھونستا ہے ۔
اس سماج میں ثقافت اور سیاست مٹھی بھر سیٹھوں کی باندیاں ہیں۔ یہاں فن کی قیمت منڈی میںلگتی ہے۔ہر اچھائی اور برائی کا تعین سرمائے کی اقدار کرتی ہیں۔ عوام کو کبھی دکھی کیا جاتا ہے تو کبھی جعلی خوشیوں کے ناٹک کروائے جاتے ہیں۔ ہر ثقافتی یا مذہبی تہوار کو اس نظام کے تقاضوں کے مطابق ڈھالا جاتا ہے۔ ایسے مواقع پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ پورا معاشرہ خوشحال اور اس کا ہر فرد تفریح میں مشغول ہے۔درحقیقت حکمران طبقے کی یہ ''خوشیاں‘‘ مہنگائی اور بے روزگاری سے بدحال محنت کش عوام کے احساس محرومی میں اضافہ کرتی ہیں۔محرومی کے ان زخموں پر جعلی جشن کا نمک انڈیل کر محنت کشوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔
یہ سرمایہ دارانہ سماج‘ وحشت سے بھرا جنگل ہے جس پر بے بسوں کا گوشت نوچنے والے بھیڑئیے راج کررہے ہیں۔ عوام غربت، بھوک اور افلاس کی گہرائیوں میں غرق ہوتے چلے جارہے ہیں۔یہاں خوشیاں حکمرانوں کی ملکیت ہیں اور غم غریبوں کا مقدر۔ حکمرانوں کے لئے ہر روز عید کا جشن ہوتا ہے اور محنت کش کے گھروندوں میں عید کے دن بھی بھوک اور محرومی ناچتی ہے۔اور پھر ہمیں کہا جاتا ہے کہ عید کی خوشیاں منائو! ع
یا تو دیوانہ ہنسے یا تو جسے توفیق دے
محنت کش بھلا اپنی محرومی کا جشن کب تک منائیں گے؟ وہ اس ذلت میں کیسے خوش رہ سکتے ہیں؟ ان کی زندگی تو صدا خوشیوں سے محروم رہتی ہے۔وہ بچپن سے سیدھے بڑھاپے میں داخل ہوتے ہیں۔ فن لطافت اور راحت تو حکمرانوں کی لونڈیاں ہیں۔ غریب کو تو مسکرانے کا ادھیکار بھی نہیں۔ میڈیا عیدین کے مواقع پر ''جوش و خروش‘‘ کی کتنی ہی رپورٹیں چلالے، یہ تلخ حقیقت ہے کہ مہنگائی، بیروزگاری اور محرومی کے اس معاشرے میں عوام کی وسیع اکثریت کے لئے مذہبی اور ثقافتی تہوار اپنی خوشیاں اور مٹھاس کھو چکے ہیں۔ سرمائے کی حاکمیت نے روحانیت کو بھی کمرشلائز کر دیا ہے۔
لیکن دکھ میں بھی ایک دردپلتا ہے ۔ محکومی کی کوکھ سے بغاوت جنم لیتی ہے۔ برداشت کی بھی حد ہوتی ہے۔جب یہ حد پار ہوجائے تو محنت کشوں کے لہو میں سرایت کر کے انقلاب شریانوں میں دوڑنے لگتاہے۔ تحریکیں ابھرتی ہیں، انقلابات کے طوفان امڈتے ہیں اور ذلت کے سماجوں کو نیست و نابود کر ڈالتے ہیں۔اس نظام زر کو اکھاڑ دینے والے طوفان کے آثار سماجی افق پر واضح ہوتے جارہے ہیں۔ بالادست طبقے اور اس کے مفادات کی نمائندگی کرنے والوں نے معیشت، سیاست اور ثقافت کی طرح مذہب پر بھی اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔ عید کی حقیقی خوشیوں کا پیغام وہی دن لے کر آئے گا جب انسانیت‘ طبقاتی غلامی‘ قلت‘ منافقت اور محرومی کے اس نظام سے آزادی حاصل کرے گی!