تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     01-08-2014

علیحدہ صوبہ‘ میٹرو بس اور مقامی سیاسی قیادت

ایک بار اپنے ایک کالم میں ملتان میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کی تفصیل لکھتے ہوئے اس ترقیاتی پیکج کے انجینئروں کی شان میں تھوڑی گستاخی کردی۔ میں نے لکھ دیا کہ اس ترقیاتی منصوبے کے تحت ہونے والے تمام تر تعمیراتی کاموں کا معیار ناقص ہے‘ مٹیریل گھٹیا ہے‘ نقشے غلط ہیں‘ منصوبہ بندی ساری خراب ہے‘ سیاستدانوں اور عزیزو اقارب کے کہنے پر اور سفارش پر بنیادی منصوبوں میں بے تحاشا فرمائشی تبدیلیوں نے منصوبہ بندی کا بیڑہ غرق کردیا ہے اور ٹریفک انجینئرنگ کا تو پوچھیں ہی نہ۔ پاکستان کے سب سے نالائق اور نااہل انجینئر اس منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ اسی قسم کے منصوبے لاہور میں اپنے پورے تکنیکی لوازمات کے ساتھ بخیرو خوبی سرانجام پاتے ہیں مگر ملتان میں کام کرنے والے انجینئر نہ صرف انجینئرنگ کے بنیادی علم بلکہ صلاحیتوں سے بھی مکمل طور پر فارغ ہیں۔ 
اگلی صبح ایک صاحب کا فون آیا۔ چھوٹتے ہی پوچھنے لگے: آپ انجینئر ہیں؟ میں نے کہا‘ شکر ہے اس ذات باری تعالیٰ کا کہ میں انجینئر نہیں ہوں۔ پھر غصے سے کہنے لگا کہ اگر انجینئر نہیں تو آپ کو کس نے یہ حق دیا ہے کہ انجینئرنگ سے متعلق معاملات پر کالم لکھیں؟ میں نے کہا‘ برخوردار میں نے کالم لکھا ہے‘ ایم فل کا تھیسس یا کوئی ریسرچ پیپر نہیں لکھا کہ آپ اس پر تعلیمی اور علمی بحث کرنے آ گئے ہیں۔ کل کلاں آپ پوچھیں گے کہ کیا آپ سیاستدان ہیں‘ جو سیاست پر لکھتے ہیں؟ کیا آپ ماہر معاشیات ہیں جو آپ حکومتی پالیسیوں پر تنقید کر رہے ہیں؟ کیا آپ ماہر امور خارجہ ہیں جو حکومتی خارجہ پالیسی پر اعتراض کر رہے ہیں اور کیا آپ نے دہشت گردی اور انسداد دہشت گردی پر کوئی کورس کیا ہے جو آپ ملک میں ہونے والی اس دہشت گردی پر خامہ فرسائی کرتے رہتے ہیں؟ یہ وہ سامنے کی چیزیں ہیں جن کے لیے کسی ڈگری کی نہیں کامن سینس کی ضرورت ہوتی ہے۔ شکر ہے اس مالک کائنات کا کہ اس کی رحمت کے صدقے مجھے یہ ''سینس‘‘ عطا ہوئی جو حالانکہ ''کامن سینس‘‘ ہے مگر پھر بھی بہت زیادہ کامن یعنی عام نہیں ہے۔ 
ان صاحب کا غصہ پھر بھی فرو نہ ہوا۔ کہنے لگے‘ اگر انجینئر نہیں تو آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ فلائی اوور غلط بنا ہے‘ یوٹرن ٹھیک نہیں‘ سڑکیں خراب ہیں اور منصوبوں کے ڈیزائن ٹھیک نہیں؟ میں نے کہا کہ فلائی اوور جگہ جگہ سے ٹپک رہا ہے‘ سائیڈ والی دیواریں اتنی ٹیڑھی میڑھی ہیں کہ دور سے نظر آ رہی ہیں۔ سائیڈ والی سڑکیں اتنی تنگ ہیں کہ ہر وقت ٹریفک جام رہتی ہے۔ سڑکوں کی خرابی کے بارے میں‘ میں کیا عرض کروں‘ خود گاڑی زبان حال سے اس کا حال بتا رہی ہے۔ ایک فلائی اوور سو گز کے لیے اتار کر دوبارہ شروع کردیا جاتا ہے کہ اس درمیانی سو گز میں ایک سینیٹر اور ایم پی اے کا پلازہ اور سی این جی سٹیشن ہے۔ یوٹرن اتنا واہیات ہے کہ اس پر ہونے والے چار چھ روزانہ کے ایکسیڈنٹ اس کے غلط ہونے کا بین ثبوت ہیں۔ کام کی کوالٹی کا اس وقت اندازہ ہو جاتا ہے جب ہم ملتان میں ہونے والے اس ترقیاتی اور تعمیراتی کام کا موازنہ لاہور وغیرہ میں ہونے والے کام سے کرتے ہیں۔ ٹیڑھی دیواریں‘ ٹپکتے ہوئے پل‘ بیٹھی ہوئی سڑکیں‘ غلط یوٹرن‘ سیاسی مداخلت کے تحت ہونے والی تبدیلیوں اور بدصورت تعمیر کے بارے میں لکھنے کے لیے انجینئر ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ صرف صاحبِ نظر ہونا ہی کافی ہے۔ ملتان میں ہونے والے اس سارے تعمیراتی کاموں کے نقائص بیان کرنے کے لیے انجینئرنگ کی ڈگری کی نہیں صرف اور صرف آنکھوں کی ضرورت ہے۔ شکر ہے خالق کائنات کا جس نے مجھے دیکھنے کی نعمت عطا کر رکھی ہے۔ اب ان صاحب کی خاصی ہوا نکل چکی تھی۔ کہنے لگے‘ بہرحال آپ نے یہ بات ٹھیک نہیں لکھی کہ ملتان میں اس ترقیاتی پیکج پر کام کرنے والے انجینئر پاکستان کے سب سے نالائق اور فارغ انجینئر ہیں جنہیں انجینئرنگ کی الف ب کا بھی پتہ نہیں۔ میں نے اس کے اس پوائنٹ سے بلاتاخیر اتفاق کر لیا اور اسے کہا کہ میں اس کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ ملتان میں تعینات انجینئر پاکستان کے سب سے نالائق انجینئر نہیں ہیں... بلکہ وہ برصغیر پاک و ہند کے سب سے نالائق انجینئر ہیں۔ یہ سن کر اس کا رہا سہا حوصلہ بھی ڈھے گیا اور اس نے فون بند کردیا؛ تاہم آج میں اپنے اس کالم کے ذریعے اپنے اس سابق قول کی تصحیح کرنا چاہتا ہوں۔ ملتان میں ترقیاتی کاموں پر مامور انجینئر صرف برصغیر کے ہی نہیں شاید دنیا بھر کے سب سے نالائق‘ بے ایمان اور نااہل انجینئر ہیں۔ 
میں نے ملتان کے ایک بڑے انتظامی افسر سے کہا کہ عیدگاہ سے چوک کمہاراں والا تک ڈالے جانے والے سیوریج کے بعد اب جو سڑک بنے گی وہ تھوڑے عرصے بعد ہی بیٹھ جائے گی۔ وہ صاحب پوچھنے لگے‘ وہ کیسے؟ میں نے کہا‘ میں روزانہ اس سڑک سے گزرتا ہوں۔ سیوریج کے پائپ ڈالنے کے بعد کھدائی والی جگہ کی بھرائی کرنے کے لیے اس میں مٹی ڈالی گئی ہے‘ یہ بات طے شدہ ہے کہ مٹی کی بھرائی خواہ وہ کسی بھی طرح سے کی جائے‘ کتنی بھی اچھی طرح کیوں نہ کی جائے‘ بیٹھ جاتی ہے۔ ہمیشہ اس قسم کی کھدائی کو ریت سے بھرا جاتا ہے اور ٹھیکیدار اپنے ٹینڈر میں اس بھرائی کے لیے ریت کا خرچہ لکھتا ہے اور اسی کی رقم لیتا ہے مگر یہاں کھدائی سے نکلنے والی مٹی دوبارہ ڈال کر بھرائی کردی گئی ہے۔ ایک تو مٹی اٹھانے کا خرچہ بچ گیا اور دوسرا ریت ڈالنے کا خرچہ بھی بچا لیا۔ اب چند دن بعد سڑک بیٹھ جائے گی۔ اس پروجیکٹ کے انجینئر آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔ اس طرز عمل کی دو ہی وجوہ ہو سکتی ہیں‘ یا تو ان کی آنکھوں پر رشوت کی پٹی باندھی گئی یا نالائقی نے ان کی دیکھنے کی 
صلاحیت کو ختم کر رکھا ہے یا ممکن ہے یہ دونوں چیزوں کا حسین امتزاج ہو۔ مگر یہ بات طے ہے کہ یہ سڑک بننے کے کچھ عرصہ بعد دوبارہ اور پھر بار بار جگہ جگہ سے بیٹھتی رہے گی۔ 
ملتان میں نو نمبر چونگی سے مچھلی مارکیٹ تک براستہ ہمایوں روڈ اور واٹر ورکس روڈ بننے والی سڑک کا حال بھی ایسا ہی ہے۔ یہ ایک اعشاریہ بتیس کلو میٹر یعنی ڈیڑھ کلو میٹر سے بھی کم لمبائی کی سڑک ہے۔ اس کی تعمیر و توسیع کا ٹھیکہ ایک بڑی نامور سرکاری کمپنی کو دیا گیا۔ شنید ہے اس نے اپنا نفع رکھ کر یہ ٹھیکہ کسی اور کو نسبتاً کم ریٹ پر آگے دے دیا۔ یہ سڑک چورانوے کروڑ تیس لاکھ روپے کی لاگت سے‘ یعنی تقریباً ایک ارب روپے میں بنی۔ اردگرد کی عمارتوں اور دکانوں سے زمین لینے کے عوض چھہتر کروڑ کی ادائیگی کی گئی۔ سیوریج اور دوسری یوٹیلٹی لائنز کی شفٹنگ پر تین کروڑ اسی لاکھ کی لاگت آئی اور سڑک کی تعمیر پر چودہ کروڑ پچاس لاکھ روپے صرف ہوئے۔ دیکھنے میں یہ شاندار اور انتہائی خوبصورت نظر آنے والی سڑک اپنی تعمیر کا حسن ماند پڑنے سے پہلے ہی بیٹھ چکی ہے اور وہاں سے بیٹھی ہے جہاں سے بھرائی کی گئی تھی۔ وہاڑی روڈ میں نیا سیوریج ڈالا گیا ہے اور پرانے سیوریج کو نہ نکالا گیا ہے اور نہ اسے توڑ کر بھرائی کی گئی ہے۔ اب یہ سڑک روزانہ کہیں نہ کہیں سے بیٹھ جاتی ہے۔ ہمایوں روڈ کے بارے لکھا گیا ایک خط لاہور کے دفتروں میں فائلوں تلے دبا پڑا ہے۔ انہی وجوہ کی بنا پر ہم ایک علیحدہ صوبے کی بات کرتے ہیں۔ تخت لاہور ہمیں میٹرو پر ٹرخانے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے اور ہماری مقامی سیاسی قیادت کے مسائل میں بزدلی بنیادی مسئلہ ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved