ہم نے 22جولائی کو ''ہمارے انقلابی شاہکار ‘‘ کے عنوان سے ایک کالم لکھاتھا ۔اُس کی غیرمعمولی پزیرائی ہوئی ۔جناب محمد اظہارالحق جیسے صاحبِ طرز سینئر کالم نگار ،ادیب اور شاعر نے بھی حوصلہ افزائی فرمائی ،میں اُن کا تَہِ دل سے شکر گزار ہوں۔عنقریب ہمارے ملک میں جو ایک انقلاب برپاہونے کی نوید یا وعید سنائی جارہی ہے ،اِس کے بارے میں پیش گوئی یا رائے زنی کرنا میرا موضوعِ سخن نہیں تھا ، کیونکہ اِس کارِ خیر کے لئے ماشاء اللہ بڑی تعداد میں سینئر تجزیہ کار ،کالم نگار اور مُبَصِّرین موجود ہیں اور'' جس کا کام اُسی کو ساجے ‘‘۔
تاہم اس مُجوّزہ یا مَوعُود انقلاب کے خدوخال ہم پر واضح نہیں ہیںکہ آیا یہ ہمارے موجودہ آئینی اور قانونی نظام کے اندر رہتے ہوئے آئے گا؟ اگرجواب اثبات میں ہے ، تو اس کادستوری اور قانونی طریقۂ کار کیا ہوگا ؟،اس سوال کا مفصل جواب دستیاب نہیں ہے ۔ اگر اس پورے نظام کو تہ وبالا کرکے اُسے بیخ وبُن سے اکھاڑ کرپھینک دیا جائے گااورسابق اسٹیبلشمنٹ کے سارے اجزائِ ترکیبی کو تہس نہس کردیا جائے گااور بالکل ایک نئے انقلابی نظام کی بنیاد ڈالی جائے گی ،تو اس کی تفصیلات بھی ابھی منظرِ عام پرنہیں آئیں۔ لہٰذا ہمارے لئے اس کے بارے میں رائے دینا تو دور کی بات ہے، رائے قائم کرنا بھی دشوار ہے؛ البتہ جو ماہرین دوربینی اورژرف نگاہی کے حامل ہیں اور اپنی بصیرت سے معاملات کی تہ میں اتر جانے کا ملکہ رکھتے ہیںیا نادیدہ امور کو بھانپ لیتے ہیں،تو فقط انہی کو رائے زنی کاحق حاصل ہے، ہم تو حالاتِ حاضرہ وماضیہ اور سیاسیات کے سطحی سے طالبِ علم ہیں، ہم اس کا اِدّعا نہیں کرسکتے اور اندھیرے میں تیر چلانا دانش مندی نہیں ہے، لہٰذا ہمارے لئے وقتِ موعود کا انتظار کرنے ہی میں خیر ہے۔ قرآن نے بھی ملکۂ سبا کے حوالے سے انقلاب کی یہی کیفیت بیان کی ہے:''اس (ملکۂ سبا نے ) کہا: بادشاہ جب کسی شہر میں داخل ہوتے ہیں ، تو اسے برباد کردیتے ہیں اور اس کے عزت والوں کو ذلیل ورسوا کردیتے ہیں، (النمل:34)‘‘۔البتہ انقلابِ مصطفوی ﷺ جو اس شعار سے مُستثنیٰ ہے کہ جب فتح مکہ کے موقع پر حضرت سعد نے کہا: ''آج گھمسان کے معرکے کا دن ہے، آج کعبہ کی حُرمت حلال ہوجائے گی، آج اللہ قریش کو ذلیل کردے گا‘‘ تو آپﷺ نے فرمایا: ''سعد نے غلط کہا، آج تو رحمت کا دن ہے، آج اللہ کعبے کی عظمت کو ظاہر فرمائے گا اور آج کعبہ کو غلاف پہنایا جائے گا، آج اللہ قریش کو عزت عطا فرمائے گا‘‘۔
ہماری اب تک کی تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ انقلابی ،معرکۂ کارزار میں اترے ، میدانِ کارزار گرم ہوا ،پھر قافلۂ انقلاب کے ہاتھ کیا آیااس کا منظر محسن بھوپالی نے اس شعر میں نہایت خوبصورت انداز میں سمو دیا ہے ؎
نیرنگیِ سیاستِ دوراں تو دیکھئے!
منزل انہیں ملی، جو شریکِ سفر نہ تھے
یابقولِ شاعر:
قسمت کی خوبی دیکھئے ، ٹوٹی کہاں کمند
دوچار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گیا
یہاں مجھے ماضی میں بلوچستان کے قوم پرست لیڈر جناب عطاء اللہ مینگل کا ایک انٹرویو یاد آرہا ہے۔ وہ اس بات کے مدعی تھے کہ ہمارے قومی امور کے اصل فیصلے اسٹیبلشمنٹ کرتی ہے، سیاست دان تو محض کٹھ پتلی اور آلۂ کار ہوتے ہیں۔ اس زمانے میں جناب محمد خان جونیجو کی حکومت چل رہی تھی اور بظاہر پورا منظر پرسکون دکھائی دے رہا تھا، تو انٹرویو کرنے والے نے جناب عطاء اللہ مینگل سے کہا : بظاہر تو جونیجو صاحب پورے اعتماد اور اختیار کے ساتھ حکومت چلارہے ہیں ، آپ کیسے کہتے ہیں کہ سیاست دان کٹھ پتلی ہوتے ہیں ۔ انہوں نے کہا:ایک کہاوت سن لیجئے! ایک شخص بال کٹوانے حجام کی کرسی پر بیٹھا اور حجام سے کہا کہ میرے سر پر کتنے بال ہیں؟۔ حجام نے کہا: تھوڑی دیر انتظار کرلیجئے، آپ کے سامنے گود میں آجائیں گے، گن لیجئے گا۔ اور پھر اقتدار کے بال کٹ کرگود میں آگئے اور ان کی مدت اقتدار تین سال پر اختتام پذیر ہوگئی۔
ہم نے تو سینئر ، تجربہ کار اور روایتی سیاستدان جناب چودھری شجاعت حسین کے ،کارروانِ انقلاب میں شامل ہونے پر حیرت واستعجاب کا اظہار کیا تھا،کیونکہ چودھری صاحب ایک سنجیدہ سیاست دان ہیں ،اُن کے مزاج میں ٹھہراؤ ہے اور وہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرتے ہیں ۔اب جناب مشاہد حسین سید ہی ہماری رہنمائی کرسکتے ہیں کہ آیا اچانک چوہدری شجاعت حسین صاحب انقلابی ہوگئے ہیں یا لُغت میں انقلاب کے معنی بدل گئے ہیں ۔اگر وہ انقلابی ہوگئے ہیں تو یہ الہام اُن پر عالمِ غیب کے کس گوشے سے نازل ہوا ہے؟ ،کیونکہ سیاسی حرکیات کے حوالے سے اُن کی حِس اور قُوّتِ شامَّہ (Smelling Sense)ماشاء اللہ بہت تیز ہے ۔ ہم نے اپنے شعوری دور میں پاکستان کی سیاسی سرزمین اور اَذہان کاجس قدر مشاہدہ کیاہے ،یہ اتنی زَرخیز کبھی نہیں رہی کہ اِس میں انقلاب کی فصل اُگے ،اِس میں ماضی میں صرف فوجی انقلابات ہی آتے رہے ہیں۔یہاں تک کہ ہماری آزادی بھی کسی انقلاب کا نتیجہ نہیں ہے ۔ بس قائدا عظم نے اپنی فراست ،قُوّتِ ایمانی اور عزیمت سے وقت کی ضرورت کو سمجھا ،تحریکِ آزادی میں مسلمانوں کی قیادت کی اور اﷲتعالیٰ نے اُن کی اعلیٰ قیادت میں برصغیر کے مسلمانوں کو ایک آزاد وطن کی نعمت عطا فرمادی۔ انقلاب میں تو بہت کُشت وخون ، شکست وریخت اور تباہی وبربادی ہوتی ہے اور سابق اجتماعی نظم کے پورے ڈھانچے کو اُکھاڑ کر پھینک دیاجاتاہے اور بنیادوں سے ایک نئی عمارت تعمیر کی جاتی ہے‘ جبکہ پاکستان کے قیام میں سول اور ملٹری بیورو کریسی کا پورا ڈھانچہ اور آئینی وقانونی نظام برطانوی استعمار نے وراثت میں ہمیں منتقل کیا اورسفید فام آقاؤں کے بجائے ہمارے دیسی آقاؤں نے اُسی نہج پر نظام کو آگے بڑھایا۔انہوں نے صرف نااہلی ،بدانتظامی اور کرپشن کا اس میں اضافہ کیا؛ البتہ انقلاب سے ملتی جلتی صورتِ حال بنگلہ دیش کا قیام تھا ۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ ساٹھ اور ستر کے عشروں میں سیاسی انقلاب کی فصل تو نہیں اُگتی تھی ،لیکن انقلابی ضرور موجود رہتے تھے ۔ سرخ ہے ،سرخ ہے ،ایشیا سرخ ہے اور سبز ہے ، سبز ہے ،ایشیا سبز ہے ، کے نعرے اسی دور کی یادگار ہیں‘ مگر 1970ء سے جنم لینے والی ہماری نسل اس سے آگاہ نہیں ہے کیونکہ اوّل تو ہمیں تاریخ پڑھائی ہی نہیں جاتی اور اگر پڑھائی جاتی ہے تو مخصوص نظریات کے کارخانے میں ڈھلی ہوئی (Manufactured) ہوتی ہے ،ہمارے ہاں تاریخ کو معروضی اندازمیں پڑھنے اور سمجھنے کا سیاسی کلچر ہی نہیں ہے ۔ایک ہی شخص کسی کے نزدیک ہیروہوتاہے اور دوسرے کے نزدیک زیرو ، ایک کے نزدیک قاتل ہوتا ہے اور دوسرے کے نزدیک شہید ،ایک کے نزدیک غاصب ہوتا ہے اور دوسر ے کے نزدیک نجات دہندہ ۔
لیکن اب پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تووہ دور بھی بڑا غنیمت تھا کہ نظریاتی اختلافات دلیل واستدلال، نعرہ بازی اور تعلیمی اداروں میں چھوٹے بڑے جلسوں یا جلوسوں تک محدود رہتے تھے، طاقت کے استعمال کا عنصر ناپید تھا۔ اب تو اپنے عقائد اور نظریات کو منانے کے لئے سب سے بڑی دلیل کلاشنکوف اور بندوق کی گولی ہے، جبر ہے،مکالمے ، علمی مباحثے اور پُرامن مناظرے تو سب قصۂ پارینہ بن چکے ہیں ۔ جوکسی گروہ کے عقائد ونظریات کا حامل نہیں ہے یا مخالف ہے وہ واجب القتل ہے اور اس کو جینے کا حق حاصل نہیں ہے۔
مگر سوویت یونین کے زوال اور کمیونزم اور سوشلزم کی بحیثیتِ نظام ناکامی کے بعد امریکی سنڈی ہماری سیاسی سرزمین پر ایسی مسلط ہوئی کہ اب انقلاب تو دور کی بات ہے ، انقلابی پیدا ہونابھی بند ہوگئے ہیں۔ جب تک دو عالمی طاقتوں کا نظام تھا تو کسی حدتک وہ ایک دوسرے کے لئے تحدید وتوازن (Check & Balance)کاکام کرتے تھے اور ظلم ایک حد میں رہتاتھا‘ مگر جب سے دنیا ایک استعماری طاقت کے شکنجے میں آگئی ہے اور اس عہد کے فرعون نے ماضی کے فرعونوں کی طرح ''اَنَا وَلا غَیری‘‘ کا نعرہ لگارکھا ہے، یعنی اب صرف میری خدائی چلے گی، زمین پر میرا حکم چلے گا، کسی اور کا نہیں،اب تمام انقلابی مفاداتی ہوگئے اور سب نے تحویلِ قبلہ کرکے واشنگٹن کو اپنا مرکزِ عقیدت بنا لیا ہے۔