تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     02-08-2014

عمران کے ہاتھوں میں ہیںلمحوں کی لگامیں

ناجائز پیسہ جہاں بھی جاتا ہے‘ وہاں سارے رشتے ختم ہونے لگتے ہیں‘ صرف کرپشن کا رشتہ رہ جاتا ہے۔ سارے رشتے اسی کی ماتحتی میں آ جاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے دور میں ایک ڈاکٹر عاصم کابینہ میں آئے تھے۔ اس سے پہلے پارٹی کے بڑے بڑے سینئر لیڈر کابینہ میں بیٹھے تھے اور انہیں اپنی خدمات پر فخر بھی تھا۔ ڈاکٹر عاصم اچانک صدر سے دوستی کے بل پر کابینہ میں آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے صدر کے ساتھ ان کی قربتوں میں اتنا اضافہ ہو گیا کہ ان کے سامنے کسی دوسرے وزیر کی کوئی حیثیت نہ رہی۔ وہ جو چاہتے کرتے‘ جیسے چاہتے کرتے اور ایسا کچھ کر دکھایا کہ اس وقت کے صدر ان پر یوں مہربان ہوئے کہ کراچی والے ٹپی صاحب بھی رشک کرنے لگے ہوں گے۔ ڈاکٹر عاصم کی خوبیاں میرے ساتھی کالم نویس رئوف کلاسرا بڑی محبت سے بیان کرتے رہتے ہیں۔ 
موجودہ حکمران خاندان میں جناب اسحق ڈار کی وزیر اعظم سے قربت مثالی ہے۔ انہوں نے اسیری کے دوران جو خفیہ تحریری بیان لکھا تھا‘ وہ اپنی طرز کا ایک شاہکار ہے۔ انہوں نے اپنی جو بنیادی خصوصیت تحریر فرمائی‘ اس سے بڑے بڑے مرعوب ہو گئے۔ ان کے ہوتے ہوئے کابینہ میں مزید وفا تلاش کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ ڈیڑھ ارب ڈالر تو وہ صرف ایک پھیرے میں ملک کو لا دیتے ہیں۔ جن کارناموں کا کہیں ذکر نہیں آتا‘ ان کے بارے میں آپ خود تصور کر سکتے ہیں۔ آپ نے غور کیا ہو گا کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں‘ کلیدی وزارتوں پر رہنے والے اپنی قیادت سے کبھی بیوفائی نہیں کرتے۔ ابتداء میں ایسا ہوتا رہا‘ جیسے بی بی کے پہلے دور اقتدار میں مرد اول کے نیازمندوں میں دو کردار بہت مشہور ہوئے تھے۔ ایک کا نام نیازی تھا اور دوسرے کا پاشا۔ یہ پہلا تجربہ اچھا ثابت نہ ہوا۔ ایک صاحب تو ٹی وی پر اپنے باس کے خلاف بیان دے گئے تھے۔ دوسرے صاحب کھا پی کر چپ ہو گئے۔ اب کی بار اس طرح کے دونوں کردار ابھی تک خاموش ہیں۔ پہلے جب اقتدار ہاتھ سے نکلتا تھا تو اقتدار سے مکمل محرومی کی بنا پر پولیس اور ایجنسیوں کا دبائو بڑھ جاتا تھا۔ اسی وجہ سے سابقہ 2 رتن وفا کے تقاضے پورے کرنے میں ناکام رہے۔ اب کی بار سندھ کی حکومت پھر بھی ہاتھ میں ہے۔ وفا کے تقاضے پورے ہو جاتے ہیں۔ اقتدار میں دو دو باریاں لگانے کے بعد‘ ہمارے دونوں لیڈر اسرار و رموز کو خوب سمجھ گئے ہیں‘ مگر امریکہ اور دوسرے ضامنوں نے‘ پندرہ سالہ اقتدار کی جو گارنٹی دی‘ اس میں آصف زرداری ایک باری زیادہ لے اڑے تھے۔ خفیہ سمجھوتے کے مطابق پہلی باری میں وفاقی حکومت زرداری صاحب کو ملنا تھی‘ دوسری نواز شریف کی اور تیسری باری پھر زرداری صاحب کی آنا تھی۔ پہلی باری میں پنجاب کی حکومت ن لیگ کی تھی اور سندھ کی پیپلز پارٹی کے سپرد ہوئی۔ دوسری باری میں سندھ کی حکومت پیپلز پارٹی کو جانا تھی اور پنجاب کی ن لیگ کو۔ مبینہ سمجھوتے کے مطابق باریوں میں الٹ پھیر ہو گئی۔ امیدوار دو تھے۔ باریاں تین رہ گئیں۔ نواز شریف بھی کم نہیں‘ انہوں نے زرداری صاحب کی پہلی باری کو اپنی حکمت عملی سے بے دست و پا کر دیا۔ زرداری صاحب کے پاس صرف سندھ کی حکومت رہی اور وفاقی حکومت میں ڈاکٹر عاصم کے سوا‘ ان کے پلے کچھ نہ رہا۔ پہلی باری میں پلڑا نواز شریف کا بھاری تھا۔ زرداری صاحب پنجاب میں اجنبی بنا دیئے گئے اور وفاق میں مہمان اداکار۔ اس مرتبہ نواز شریف وفاق میں اپنی باری سے ٹھوک بجا کر لطف اندوز ہو رہے ہیں‘ لیکن سندھ میں زرداری صاحب کی باری پر نواز شریف نے آنکھ رکھی ہوئی ہے۔ زرداری صاحب موقعے کے انتظار میں چپ ہو گئے اور جیسے ہی پنجاب میں احتجاجی تحریک کا امکان پیدا ہوا‘ زرداری صاحب نے شرجیل میمن سے ایسا اشارہ دلوا دیا جس سے پتہ چلے کہ اگر سندھ سے بری نظر نہ ہٹائی گئی تو وہ بھی احتجاجی تحریک میں کود سکتے ہیں۔ آپ نے غور کیا کہ یہ امکان پیدا ہوتے ہی نواز شریف نے سندھ سے توجہ ہٹا لی۔ اب کم از کم ایک سال کے لئے سندھ کی طرف بری نظر سے دیکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ احتجاجی تحریک سے بڑی بڑی توقعات وابستہ کرنا مناسب نہیں۔ 
عالمی شطرنج میں نواز شریف کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے۔ اس پلڑے میں امریکہ اور سعودی عرب بیٹھے ہیں۔ عمران خان نے آج لگی لپٹی رکھے بغیر‘ اصل بات کہہ دی ہے۔ ''دنیا‘‘ کے نمائندے سے ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے صاف کہہ دیا ''جدہ اور واشنگٹن پاکستان کی سیاست سے دور رہیں‘‘۔ یہ بے حد معنی خیز جملہ ہے۔ یہ کنجی ہے اس بحران کی‘ جس میں پاکستان ایک سال سے الجھا ہوا ہے۔ نواز شریف کے پتے عمران خان نے کھول دیئے ہیں۔ اپنے پتے وہ سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔ اب انہیں سیاست کرتے کافی عرصہ ہو چکا ہے۔ اب تک انہیں اندازہ ہو جانا چاہیے کہ اتنے بڑے دائو میں بلف نہیں چلتی۔ پاکستانی سیاست کبھی بھی بیرونی اثرات سے آزاد نہیں ہو سکی۔ ہر تبدیلی کے بعد بیرونی شکنجہ مضبوط ہو جاتا رہا۔ آج کی صورتحال میں واشنگٹن اور جدہ کا زور زیادہ دکھائی دے رہا ہے‘ عموماً جیت انہی کی ہوتی رہی ہے۔ ماضی کی روشنی میں دیکھیں تو نواز شریف چت ہوتے نظر نہیں آ رہے‘ لیکن وقت کے ساتھ بہت کچھ بدل جاتا ہے۔ ایک زمانے میں امریکہ پاکستان کو بھارت پر دبائو رکھنے کے لئے ایک کارڈ کے طور پر استعمال کرتا رہا ہے۔ اب یہ کارڈ اس کے لئے ضروری نہیں رہ گیا۔ اس نے سعودی عرب کے لئے ایسے حالات پیدا کئے کہ وہ بھارت کو علاقائی طاقت کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے اقتصادی اور سٹریٹجک تعلقات قائم کرے۔ نریندر مودی کی حکومت انہی کوششوں کا حصہ ہے۔ بھارت کے سیاسی مدوجذر پر نظر رکھنے والے جان چکے ہیں کہ بھارتی میڈیا نے کانگریس اور اس کے ترقی پسند اتحادیوں پر ایسی زبردست یلغار کیونکر کی؟ اور کیسے کی؟ بھارتی عوام یہاں تک جانتے ہیں کہ مودی کو ایک چائے والے کا بیٹا بنا کر پیش کرنے کا آئیڈیا ایک امریکی اشتہاری کمپنی نے تیار کر کے دیا تھا اور اس کے استعمال کا پورا ڈیزائن بھی وہیں سے تیار ہو کر آیا۔ ہزاروں کروڑ کی جو رقوم بھارتی سرمایہ داروں نے بی جے پی کی انتخابی مہم پر خرچ کیں‘ وہ امریکی اور بھارتی سرمایہ داروں کے گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ سال رواں کے اختتام سے پہلے پہلے بھارتی اور امریکی سرمایہ داروں کے مابین تعاون کی کیسی کیسی راہیں کھلتی ہیں؟ پاکستان میں کرپشن کا اسی طرح بول بالا رہا تو بھارتی اور امریکی سرمایہ داروں کی مشترکہ طاقت پاک بھارت تعلقات ''بہتر‘‘ بنانے کے لئے معجزہ ثابت ہو گی۔ کرپشن‘ آزادی و خود مختاری کے جذبات پر غالب آتی جا رہی ہے اور ایک کرپٹ معاشرے کو عزت نفس سے محروم کرنا زیادہ مشکل نہیں ہوتا۔ 
فطری طور پر پاک بھارت تعلقات کے بنیادی تضادات‘ بہت بڑی طاقت ہیں۔ اگر عمران خان کی احتجاجی تحریک زور پکڑتی ہے تو فطری طور پر اس کے اندر سے آزادی و خود مختاری کے نعرے بلند ہوں گے۔ کرپشن کے خلاف عوامی نفرت کو قوم پرستانہ جذبات کی طاقت مہیا کر کے جدہ اور واشنگٹن کی مشترکہ طاقت کا سامنا کیا جا سکے گا اور اگر عوامی طاقت کرپشن کے خاتمے پر تل گئی تو پھر کیا جدہ اور کیا واشنگٹن؟ قومی خودمختاری کا جذبہ نئی طاقت سے ابھرے گا اور اسے نیا ابھرتا ہوا عالمی اور علاقائی تعاون میسر آ جائے گا۔ پاکستان اس راستے سے امن کی طرف چل نکلا تو اپنی آزادی اور خود مختاری کو بچا لے گا کیونکہ چین اور روس ہرگز یہ نہیں چاہیں گے کہ بھارت‘ پاکستان پر غلبہ حاصل کر کے علاقائی طاقت بن جائے اور پاکستان کو تابع مہمل بنانے میں کامیاب رہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان‘ قومی تاریخ کے اس انقلابی موڑ پر آ کر جہاں پر ہم پہنچ چکے ہیں‘ آگے کونسا راستہ اختیار کرتے ہیں؟ اگر وہ آزادی و خود مختاری اور کرپشن کے خاتمے کو مقصد قرار دے کر آگے بڑھے تو انقلاب کے دھارے کا راستہ کھول سکتے ہیں۔ انقلاب کے پانیوں میں‘ طغیانیاں آگے بڑھنے کو بے چین ہیں اور کرپشن سے زنگ آلود سپل وے کے تختے زیادہ دیر تک انقلاب کے دھارے کو نہیں روک پائیں گے۔ عمران کو حکومت سے زیادہ خطرہ اپنے حامیوں کی طرف سے ہو سکتا ہے۔ یہ خطرات پیدا کرنے والے اتحادی بھی ہو سکتے ہیں اور پارٹی میں شامل عناصر بھی۔ جس جس نے کرپشن کی دیگ میں حصہ لیا ہے‘ وہ عمران خان کی تحریک کو کسی بھی موڑ پر حصہ پتی طے کرنے کے لئے استعمال کر سکتا ہے۔ یہ لوگ آج بھی حکومت کے ساتھ خفیہ رابطوں میں ہوں گے اور عمران کے عزم کو متزلزل کرنے کے لئے بار بار آزمائے گئے طریقے استعمال کریں گے۔ تاریخ کا رخ بدلنے والے لمحوں کی لگامیں عمران کے ہاتھ میں ہیں۔ اگر انہوں نے لگاموں پر گرفت مضبوط رکھ کر ہر رکاوٹ اور آزمائش کا مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑھنے کا اٹل فیصلہ کر لیا تو نہ کوئی بیرونی ملک عوامی طاقت کو روک پائے گا اور نہ کرپشن سے زنگ آلود مزاحمتی پھاٹک راستہ روک پائیں گے۔ وہ صرف انتخابات کو اپنی منزل قرار دے کر آگے بڑھتے رہیں اور بیلٹ بکس میں عوامی طاقت کو شکست دینے کی ہر سازش کو ناکام بنائیں اور پہلے سے اعلان کر دیں کہ انتخابی نتائج بدلنے کی کوشش ہوئی تو اس کے بل بوتے پر بننے والی کسی حکومت کو نہیں چلنے دیا جائے گا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved