تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     02-08-2014

ایک سچے فنکار کی رحلت

یہ بات زیادہ حیران کن نہیں کہ تشدد کی آگ میں سوختہ اور لالچ کے سمندر میں سر تاپا 'غرقیدہ‘ اس پاکستانی معاشرے میں ادب جیسی لطیف حلاوتوں کی کوئی جگہ نہیں۔ یہاں فن کار بھی خال خال ہی شہرت پاتے دکھائی دیتے ہیں کہ فن کی قدر دانی زندہ اور مہذب معاشروں میں ہی ممکن ہوتی ہے۔ بہت کم فن کار ایسے ہوتے ہیں جو خود کو پروموٹ کر پاتے ہیں۔ شاہد سجاد ان گنے چنے فن کاروں میں سے ایک تھے‘ جو خود کو آگے بڑھانے کی شعوری کوشش نہیں کیا کرتے بلکہ اپنے منہ میاں مٹھو بننے کی بجائے وہ اپنا اظہار اپنے فن سے کیا کرتے ہیں۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں وہ تنہائی پسند ہو گئے تھے؛ تاہم ان کا فن ان کا نقیب رہے گا۔ 
شاہد سجاد کا فن کیا تھا؟ کئی برس سے وہ بڑے انہماک کے ساتھ کندہ کاری سے تصاویر تراشنے کو اپنی زندگی بنائے ہوئے تھے۔ اُنہوں نے اپنے پیچھے کانسی سے بنائے ہوئے فن کے شاندار نمونے چھوڑے ہیں۔ اُنہیں بلاشبہ پاکستان کا سب سے بڑا مجسمہ ساز قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ان کے فن کی زیادہ پذیرائی نہیں کی گئی۔ ایک تو کانسی سے مجسمہ سازی محنت طلب کام ہے اور دوسرے پاکستان میں اس کی زیادہ نمائش نہیں ہوتی کیونکہ اسے پاکستان میں مقبولیتِ عام حاصل نہیں۔ اگر شاہد صاحب دنیا کے کسی اور ملک میں ہوتے تو ان کے فن کی قدر کی جاتی۔ ان سے میری دوستی پچاس سال پر محیط تھی لیکن میں ان کے بارے میں اب اِس وقت لکھ رہا ہوں‘ جب وہ اس دنیائے فانی سے رحلت کر کے بہت دور جا چکے ہیں۔ 
دل میں یہ احساس جاگزیں ہے کہ میں زندگی کے اس حصے میں ہوں جب زیادہ تر دوستوں کے بارے میں یہی خبر ملتی ہے کہ ان کی طبیعت ناساز ہے؛ چنانچہ جب مجھے زہرہ یوسف کا پیغام ملا کی آج صبح شاہد صاحب اس دنیا کو داغ ِ مفارقت دے گئے ہیں تو مجھے صدمہ تو ہوا‘ لیکن زیادہ تعجب نہیں کیونکہ وہ پچھلے ایک سال سے حلق کے کینسر میں مبتلا تھے۔ اس کے آپریشن کی وجہ سے وہ بولنے کی صلاحیت سے محروم ہو گئے تھے۔ تخلیقی صلاحیتوں سے مالامال فن کار کی یہ محرومی بہت دل گداز تھی۔ جب میں ان سے ملنے جاتا تو یہ دیکھ کر بہت دکھی ہوتا کہ ان کے ذہن میں بہت کچھ ہے لیکن وہ کچھ کہہ نہیں سکتے۔ وہ کا غذ پر کچھ الفاظ لکھ کر اپنی بات کرنے کی کوشش کرتے لیکن میں جانتا تھا کہ یہ لکھے ہوئے الفاظ بولے جانے والے الفاظ کی گرم جوشی سے تہی داماں ہوتے ہیں۔ ایک جذباتی فن کار کے لیے تو یہ صدمہ معمول سے بھی سوا تھا۔ 
جب مجھے شاہد سجاد کی وفات کا علم ہوا تو دکھ کے ساتھ ساتھ یہ طمانیت بھی ہوئی کہ میرے دوست کو کینسر کی اذیت سے نجات مل گئی تھی۔ اس کی خدمت گزار اور صابر بیوی سلمانہ کو شک تھا کہ حلق کا کینسر اس کیمیکل کے بخارات کی وجہ سے ہوا تھا‘ جو وہ کانسی کے مجسموں کو فنشنگ ٹچ دینے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ شاہد کو کانسی کے مجسموں کا شوق بہت پرانا تھا۔ انہوں نے ساٹھ کی دہائی میں طویل عرصے تک چٹاگانگ کے نزدیک چکما قبیلے (Chakma tribe) کے ساتھ زندگی بسر کی تھی۔ جب وہ وہاںسے واپس آئے تو ان کے پاس لکڑی کے بنے ہوئے بہت سے مجسمے تھے۔ خوبصورتی اور فنکارانہ مہارت سے تراشے گئے ان مجسموں سے فن کار کا سوز دل ہویدا تھا۔ جس طرح رگ ساز میں صاحب ساز کا لہو رواں رہتا ہے، اسی طرح مجسموں کی ایک ایک تراش فنکار کے دل کی ضرب سے دھات، پتھر یا لکڑی جیسی بے جان اشیا کو فن کارانہ حیات کے قالب میں ڈھالتی ہے۔ زیادہ تر سچے فن کار زندگی کے دکھ کو فن میں ڈھالنے کا گُر جانتے ہیں‘ ورنہ فن کس چیز کا نام ہے؟ شاہد سجاد بھی ایسے ہی فن کار تھے۔ 
لکڑی کے بعد کسی مرحلے پر شاہد کے ذہن کو کانسی نے اپنے گرفت میں لے لیا‘ لیکن اس کے ساتھ پہلے کچھ تجربے تباہ کن تھے کیونکہ کانسی کو ڈھالنا نا تجربہ کاروں کا کام نہیں۔ اس میں مہارت حاصل کرنے کے لیے وہ پہلے جاپان اور پھر انگلینڈ گئے اور اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ ایک جاپانی گُرو کا اثر ان پر تاحیات رہا۔ شاہد کی سیماب صفت طبیعت مہم جوئی سے گریز نہیں کرتی تھی۔ ایک مرتبہ اُنہوں نے ایک چھوٹی سی موٹر سائیکل پر یورپ بھر کا دورہ کیا‘ بہت سی آرٹ گیلریوں کو دیکھا اور ہر جگہ دوست بنائے۔ یہ درست ہے کہ ان کے پاس زیادہ مالی وسائل نہ تھے لیکن ان کی خواہشات بھی بہت محدود تھیں، اس لیے وہ کم وسائل میں وقت گزارنے کا ہنر جانتے تھے۔ 
مغربی ممالک میں کانسی کے مجسموں کو فائونڈری میں ڈھال لیا جاتا ہے اور پھر فن کار ان کو فنشنگ ٹچ دے لیتے ہیں؛ تاہم شاہد کے پاس کراچی میں ایسی سہولت میسر نہ تھی، اس لیے اُنہوں نے ڈھلائی کا کام خود کرنے کے لیے گھر میں ہی بھٹی بنائی ہوئی تھی۔ سانچوں میں پگھلی ہوئی دھات ڈالنا ایک مشکل اور خطرناک کام ہوتا ہے کیونکہ ایک ہلکی سی غلطی سے وہ سانچہ پھٹ سکتا ہے‘ لیکن ثابت قدمی اور جانفشانی سے شاہد نے اس کام میں مہارت حاصل کر لی۔ اگرچہ کانسی کے مجسمے ہزاروں سال پہلے یونانی دور میں بھی بنائے جاتے تھے لیکن یہ کام آج بھی اتنا ہی خطرناک ہے جتنا ہزاروں سال پہلے تھا۔ ایک مرتبہ میں نے شاہد صاحب سے پوچھا‘ وہ کچھ شاگردوں کو اپنے ساتھ کیوں نہیں رکھتے کہ وہ کچھ فن سیکھ لیں اور ان کا ہاتھ بھی بٹا دیا کریں۔ اُنہوں نے کہا کہ کچھ طلبہ آئے تھے لیکن وہ گرمی اور مشقت برداشت نہ کر سکے اور چلتے بنے۔ 
بعض اوقات وہ لکڑی پر بھی کام شروع کر دیتے۔ چند سال پہلے اُنہوں نے قد آدم مجسمے تیار کیے۔ ان کو ایک دائمی مایوسی رہی کہ ان کی خواہش کے باوجود کراچی مہتہ پیلس (Karachi's Mohatta Palace) کی انتظامیہ نے اُنہیں کبھی اپنے فن پاروں کی نمائش کی اجازت نہ دی۔ لاہور میں پنجاب حکومت نے شاکر علی میوزیم قائم کیا ہے‘ جس میں اس عظیم فن کار کے فن پاروں کی نمائش کی جاتی ہے۔ سندھ حکومت کراچی میں ایسا کیوں نہیں کر سکتی؟ بلاول بھٹو زرداری صاحب ثقافت کے قدردان ہیں، ان کی توجہ ہو تو ایسا ہونا ناممکن بھی نہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved