نیویارک میں ایک دفعہ پھر محفل جم چکی ہے۔
محفل کی جان جناب مجیب الرحمن شامی ہیں ۔ ہم دونوں نیویارک میں ایک شادی میں شرکت کے لیے اکٹھے ہوئے۔ پاکستان سے کچھ دوست یہاں موجود ہیں؛ تاہم سب سے زیادہ کمی کالم نگار دوست ہارون الرشید کی محسوس ہورہی ہے۔ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے کزن میاں مشتاق جاوید کی بیٹی کی یکم اگست کو ہونے والی شادی میں شریک ہوں گے۔ سابق سینیٹر طارق چوہدری حیران ہیں کیونکہ ان کے کزن ہارون الرشید نے تو ایک ماہ پہلے نیویارک پہنچنا تھا ۔ سب کی خواہش تھی ہارون الرشید صاحب نیویارک میں ہوتے تو محفل کو رنگ لگ جاتے۔ میں نے مشتاق صاحب سے کہا‘ حفیظ اللہ نیازی صاحب کو بلا لیتے‘ ہم سب ان سے ہی دل بہلا لیتے ۔ نیازی صاحب کے خیالات ایک طرف لیکن اس میں کوئی شک نہیں جس پائے کی اردو کے چھوٹے لیکن پرتاثیر فقرے وہ لکھتے ہیں انہیں پڑھ کر ''سب رنگ‘‘ کے دنوں کے لیجنڈری شکیل عادل زادہ یاد آتے ہیں جن کے ''بازی گر‘‘ اور ''ذاتی صفحہ‘‘ کاہم سب بے چینی سے انتظار کرتے تھے۔
نیویارک کے ایک اہم بزنس مین عارف سونی نے‘ جن کا تعلق سیالکوٹ سے ہے‘ مجیب الرحمن شامی صاحب کے اعزاز میں کھانے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ تقریب میں شہر کے اہم لوگ بھی شریک تھے۔ ٹھہری، دھیمی اور نفیس شخصیت کے مالک عارف سونی کا گھر لانگ آئی لینڈ میں جھیل کے کنارے واقع ہے اور بلاشبہ ہم سب مہمان سب کچھ بھول کر کافی دیر تک سورج ڈوبنے کے منظر میں کھوئے رہے۔عارف سونی نے جس طرح نیویارک میں اپنی محنت سے ترقی کی وہ طویل داستان ہے۔ سونی صاحب کا عمران خان سے تعلق بہت پرانا ہے اور عمران نیویارک میں انہی کے گھر ٹھہرتے ہیں ۔ عارف سونی میرے واشنگٹن کے دوست اکبر چوہدری کی طرح پاکستان کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے اور عمران کی شکل میں انہیں موقع ملا۔ عارف سونی کو کوئی لالچ نہیں۔ اللہ کا دیا واقعی بہت کچھ ہے۔ ملک اور اس کے لوگوں کی بہتری انہیں عمران کی شکل میں نظر آئی۔ رات گئے انہی کے گھر سب مہمان‘ شامی صاحب اور مجھ سے چودہ اگست کے بارے میں جاننا چاہتے تھے کہ کیا ہوگا ۔ میری کوشش تھی شامی صاحب لب کشائی کریں لیکن انہوں نے مجھے امتحان میں ڈالنے کا فیصلہ کر رکھا تھا ۔ جب اصرار بڑھا تو میں نے سب کو ایک پرانا لطیفہ سنایا ۔ ایک دیہاتی جنگ عظیم دوم لڑنے برما کے محاذ پر گیا تو اس کی ماں ایک دن کہتی پائی گئی ۔ سنا ہے جاپانی بہت غصیلے ہیں اور میرا بیٹا بھی غصے کا قدرے تیز ہے۔ اللہ ہی خیر کرے۔ اس پر قہقہہ بلند ہوا تو میں نے کہا‘ عمران خان اور میاں محمد نواز شریف کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے دونوں اپنی اپنی جگہ پر غصے اور ضد کے لیے مشہور ہیں‘ اللہ ہی خیر کرے؛ تاہم میرا کہنا تھا عمران خان اور نواز شریف کے درمیان یہ اعصابی جنگ ہے۔ عمران خان چونکہ اپوزیشن میں ہیں‘ لہٰذا ان پر وہ دبائو نہیں ہوگا جتنا نواز شریف پر۔ میاں محمد نواز شریف کو زیادہ احتیاط اور سمجھداری کی ضرورت ہوگی۔ اگر کچھ غلط ہوگیا تو اس کا عمران سے زیادہ نقصان نواز شریف صاحب کو ہوگا کیونکہ وزیراعظم ہیں۔ عمران خان کہتے ہیں وہ نتائج حاصل کیے بغیر اسلام آباد سے نہیں لوٹیں گے۔ اب ہم تصور کرتے ہیں عمران خان ایک لاکھ یا دس لاکھ لوگوں کے ساتھ اسلام آباد میں ایک ہفتے سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ حکومت ٹس سے مس نہیں ہوتی تو عمران خان کیا کریں گے ؟ ان کے حامی کیا کریں گے؟ وہ ایوان صدر، وزیراعظم ہائوس، پارلیمنٹ اور دیگر عمارتوں پر قبضہ کر لیں گے؟ عمران خان مڈٹرم الیکشن چاہتے ہیں اور وزیراعظم نوازشریف یہ بات کبھی نہیں مانیں گے۔ عمران خان کے ذہن میں ہوسکتا ہے کوئی آئیڈیا ہو لیکن نواز شریف نے اگر بارہ اکتوبر کو جنرل مشرف کے قریبی جرنیلوں کے تمام تر دبائو کے باوجود استعفیٰ نہیں دیا تھا اور گرفتار ہونے کو ترجیح دی تھی تو میں حیران ہوں اس بار وہ کیسے عمران خان کے دبائو پر مستعفی ہوں گے؟ صورتحال بہت الجھی ہوئی ہے۔ تو کیا پھر فوج کو درمیان میں آنا پڑے گا؟
اس پر شامی صاحب کا کہنا تھا عمران خان کو یہ دھیان کرنا ہوگا ان پر یہ الزام نہ لگ جائے کہ مارشل لاء ان کی وجہ سے لگا تھا ۔ عمران کو بھی سمجھداری سے اپنے پتے کھیلنے پڑیں گے۔ میں نے کہا‘ شامی صاحب آپ کی بات میں اس لیے وزن ہے کہ اصغر خان آج تک اس خط سے جان نہیں چھڑا سکے جو انہوں نے جنرل ضیاء کو بھٹو کے خلاف لکھا تھا۔ آج تک ان پر الزام لگتا ہے کہ انہوں نے فوج کو دعوت دی تھی کہ وہ بھٹو کا تختہ الٹ دے؛ تاہم اس محفل میں موجود سابق سینیٹر طارق چودھری جو جنرل ضیاء اور غلام اسحاق خان کے بہت قریب رہے ہیں‘ کہنے لگے عمران خان‘ وزیراعظم نواز شریف کو مجبور کر سکتے ہیں کہ وہ دس بارہ حلقوں کو دوبارہ گنتی کے لیے کھول دیں اور مڈ ٹرم الیکشن کی کسی تاریخ پر تیار ہوجائیں ۔ یہ تاریخ 2016ء کی بھی ہوسکتی ہے۔ وہ بتانے لگے شہباز شریف اور اسحاق ڈار پہلے ہی رابطے کر چکے ہیں تاکہ اس مسئلے کا کوئی حل نکالا جائے۔ میں نے کہا‘ چودھری صاحب اس طرح کا وعدہ تو آرمی سے بھی کیا گیا تھا کہ اگر جنرل مشرف عدالت میں پیش ہوجائیں تو انہیں پاکستان سے باہر جانے دیا جائے گا ۔ شہباز شریف اور چودھری نثار کے کہنے پر یہ ڈیل ہوئی۔ فوج نے جنرل مشرف کو پیش کرادیا تو کہا گیا کہ اس طرح کا کوئی وعدہ نہیں کیا گیا تھا ۔ اگر فوج سے کیے گئے وعدے پر عمل نہیں ہوا تو عمران خان سے کیے گئے وعدے کی کیا اہمیت؟ عمران خان مان بھی جاتے ہیں تو پھر ضامن کون ہو گا؟ محفل اب زیادہ گرم ہوگئی تھی‘ سب کو فکر تھی ملک کا کیا ہوگا ؟
بات چلتے چلتے پاکستانی صحافت پر آگئی۔ ایک صاحب کہنے لگے میڈیا کو غیرجانبدار ہونا چاہیے۔ میں نے کہا‘ کہنے میں یہ بات بظاہر رومانٹک اور اچھی ہے؛ تاہم میرے خیال میں صحافی کے facts نیوٹرل ہونے چاہئیں، رائے نیوٹرل نہیں ہو سکتی ۔ نیوٹرل وہ ہوتا ہے جو سب کو خوش کرنے کا فن جانتا ہو۔ جو ہر ایک کو اپنے قلم سے خوش رکھتا ہے‘ وہ منافق ہے۔ میری رائے غلط ہو سکتی ہے یا درست لیکن وہ نیوٹرل کیسے ہوسکتی ہے؟ میرے نزدیک وہ صحافی یا کالم نگار نیوٹرل ہے جس کے ہاتھ کسی سیاسی پارٹی یا سیاستدان کی کوئی کمزوری یا سکینڈل لگتا ہے تو وہ اسے نشر یا شائع کردیتا ہے‘ اگر وہ اس سکینڈل یا کمنٹس کو اس وجہ سے روک لیتا ہے کہ اس سے کسی پارٹی کو فائدہ یا نقصان ہوگا تو پھر وہ نیوٹرل نہیں۔
جب کچھ لوگوں کی تنقید بڑھ گئی تو میں نے کہا‘ پاکستانی میڈیا کیا کرے؟ طالبان نے سیاستدانوں یا حکمرانوں کی کوئی فہرست نہیں بنائی؛ البتہ تیس صحافیوں کی فہرست جاری کی گئی تھی جن پر انہوں نے حملے کرنے تھے۔ ہم صحافی حکمرانوں کی طرح عوام کے پیسوں سے تنخواہ نہیں لیتے ۔ تنخواہ پرائیویٹ سیکٹر سے لیتے ہیں۔ ٹیکس دیتے ہیں۔ مسلسل دہشت کی فضا میں زندہ رہتے ہیں ۔ اگر ہم طاقتور لوگوں کے خلاف سٹینڈ لیتے ہیں تو آپ کہتے ہیں ہم ان اداروں پر بے جا تنقید کرتے ہیں۔ ہم سکینڈل فائل کریں تو سیاستدان کہتے ہیں ہم جمہوریت کو نہیں چلنے دے رہے۔ آپ لوگ کہتے ہیں ہم پاکستان کو مضبوط نہیں ہونے دیتے۔ اگر ہم ان حکمرانوں سے عہدے قبول کریں، وزیر بنیں، سفیر بنیں، مشیر بنیں یا پھر ان کی تعریفیں کریں تو پھر آپ کہتے ہیں ہم بک گئے ہیں۔
آپ لوگ پاکستان کے میڈیا سے کیا چاہتے ہیں؟ میڈیا کے لوگ قتل ہوئے ہیں۔ انہیں اغوا کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ انہیں گولیاں ماری گئی ہیں، وہ پھر بھی ڈٹے ہوئے ہیں اور عوام کے لیے کھڑے ہوتے ہیں جب کہ آپ اس بات پر ناراض ہوتے ہیں ہم آپ کے پسندیدہ سیاستدان کے خلاف بات کیوں کرتے ہیں لہذا ہم سب بکے ہوتے ہیں ۔ میڈیا سیاستدانوں پر تنقید کرے تو برا ، قومی اداروں اور ایجنسیوں کی پالیسیوں پر تنقید کرے تو ملک دشمن اور اگر حکومتوں کی تعریفیں کرے اور عہدے قبول کرے تو بکائو... میں نے کہا مجھے اس صورت حال پر اپنے پسندیدہ اداکار سخاوت ناز کا دنیا ٹی وی کے مزاحیہ شو ''مذاق رات‘‘ میں ادا کیا گیا مشہور جملہ یاد آتا ہے:
چڑی بے چاری کی کرے، ٹھنڈا پانی پی مرے!