مارچ اور دھرنے عوامی مینڈیٹ
نہیں چُرا سکتے... نوازشریف
وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے کہا ہے کہ ''مارچ اور دھرنے عوامی مینڈیٹ نہیں چُرا سکتے‘‘ کیونکہ اگر کوئی مینڈیٹ پہلے ہی چوری شدہ ہو تو اسے مزید چُرانے کی کوشش کرنا کوئی مناسب بات نہیں ہے بلکہ اسے تو سینہ زوری ہی کہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''مارچ اور دھرنوں کی سیاست پاکستان کے مسائل کا حل نہیں‘‘ بلکہ صرف بادشاہت ہے جس کی دنیا میں کئی روشن مثالیں موجود ہیں جس میں نہ اپوزیشن کی بک بک ہوتی ہے ،نہ اس قسم کے فضول احتجاج کی۔ انہوں نے کہا کہ ''قومی مسائل پر بات چیت کرنے کا اصل فورم قومی اسمبلی ہے‘‘ جبکہ اس فورم تک پہنچنا بھی کوئی خالہ جی کا گھر نہیں ہے اور اس کے لیے جو جو کچھ کرنا پڑتا ہے وہ حالیہ انتخابات میں پوری طرح واضح ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''جو لوگ مارچ کرنا چاہتے ہیں ، مارچ کریں لیکن ہم پاکستان میں جمہوریت مارچ جاری رکھیں گے‘‘ جس کے لیے پورا خاندان وقف کر رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''پاکستان اس وقت حالتِ جنگ میں ہے‘‘ اور یہ بات میں ایک سو اکہترویں بار کہہ رہا ہوں لیکن لوگوں کو سمجھ ہی نہیں آتی‘ ہیں جی؟ آپ اگلے روز وزیراعلیٰ پنجاب سے جاتی عمرہ میں ملاقات کر رہے تھے۔
ایک دو روز میں یوم انقلاب کی کال
دینے والا ہوں... طاہرالقادری
پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا ہے کہ ''ایک دو دن میں یوم انقلاب کی کال دینے والا ہوں‘‘ اس لیے لوگ اپنا اپنا بندوبست کر لیں اور جہاں جہاں سینگ سماتے ہیں‘ چلے جائیں ع
پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی
انہوں نے کہا کہ ''جو حکمران عوام کے بنیادی حقوق پورے نہیں کر سکتے‘ انہیں اقتدار سے الگ ہو جانا چاہیے‘‘ پیشتر اس کے کہ انقلاب آ جائے اور خاکسار سمیت سبھی اس کی لپیٹ میں آ جائیں کیونکہ انقلاب کسی کا بھی لحاظ نہیں کرتا‘ حتیٰ کہ اپنے لانے والوں کا بھی۔ انہوں نے کہا کہ ''عیدالفطر کے بعد حکمران اپنے انجام کو پہنچنے والے ہیں‘‘ البتہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ عیدالفطر کون سی ہوگی اور چونکہ یہ ہر سال آتی ہے ،اس لیے یہ کوئی بھی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''یوم انقلاب کو عوام قاتل حکمرانوں کا آئین اور قانون کے مطابق تختہ الٹ دیں گے‘‘ اور میں پوری سنجیدگی سے آئین پاکستان کی وہ شق تلاش کر رہا ہوں جس کے مطابق عوام یہ کام کریں گے۔ آپ اگلے روز لاہور میں اخباری نمائندوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
قومی مسائل مذاکرات کی میز
پر حل کیے جائیں... گیلانی
سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ''قومی مسائل مذاکرات کی میز پر حل کیے جائیں‘‘ اور اگر حکومت کے پاس یہ میز نہ ہو تو میں مہیا کر سکتا ہوں کیونکہ میں اپنے دور میں تعیناتیوں اور لین دین کے سارے معاملات اسی میز پر حل کیا کرتا تھا جو آج کل بالکل فارغ ہے اور اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''میرے دور میں بھی کئی تحریکیں چلیں لیکن کبھی آرٹیکل 245 کا نفاذ نہیں ہوا‘‘ کیونکہ میرے خلاف جو اصل تحریک چلائی جانے والی تھی‘ اس کا کسی کو خیال ہی نہیں آیا۔ انہوں نے کہا کہ ''آرٹیکل 245 کے نفاذ سے واضح ہو گیا کہ مسلم لیگ ن میں حکومت چلانے کی طاقت نہیں ہے‘‘ اس لیے وہ تھوڑی طاقت مجھ سے بھی حاصل کر سکتی ہے، بے شک بعد میں نااہل ہی قرار پا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ''فلسطین میں اسرائیلی درندگی پر عالمی خاموشی پر دکھ ہے‘‘ اور ابھی تو میرا دکھ بھی پرانا نہیں ہوا تھا کہ یہ ایک نیا دکھ برداشت کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ ''ایک عید کا انعقاد کرانا حکومت کے بس میں نہیں ہے‘‘ اگرچہ ہمارے دور میں بھی دو دو ہی عیدیں ہوا کرتی تھیں۔ آپ اگلے روز ایک دربار پر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
فوج ملک میں جمہوریت کا
خاتمہ نہیں چاہتی ...شیخ رشید احمد
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''فوج ملک میں جمہوریت کا خاتمہ نہیں چاہتی‘‘ بلکہ یہ اعزاز صرف ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ فوج اپنے آپ کچھ بھی نہیں کرتی اور اس کے لیے اسے ہمارے جیسوں کا مرہونِ منت ہونا پڑتا ہے جو پورے خشوع و خضوع کے ساتھ اس کارِ خیر میں لگے ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ''14 اگست کو حکومت سے صرف مڈٹرم الیکشن پر ہی بات ہو سکتی ہے‘‘ ورنہ قادری صاحب کا انقلاب تو ہے‘ اسی پر گزارا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''فوج عوام کے ساتھ ہے‘‘ اگرچہ ہم کچھ زیادہ ہی عوام کے ساتھ ہیں لیکن ان کم بختوں کو اس کا احساس ہی نہیں اور جب بھی کوئی وقت آتا ہے ان کا ہاسا نکل جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''14 اگست کو آزادی کے بغیر اگر مارچ ختم کیا گیا تو تحریک انصاف ختم ہو جائے گی‘‘ اگرچہ اس کے علاوہ بھی اس کے زندہ رہنے کے امکانات کچھ اتنے زیادہ نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''تحریک انصاف پہلی بار قومی امتحان میں شریک ہوئی ہے‘‘ اور کوشش کر رہی ہے کہ نقل وغیرہ مار کر پاس ہونے کی کوشش کرے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک انٹرویو دے رہے تھے۔
پولیس اور شاعری
ہمارے دوست غلام عباس گوجرانوالہ میں ڈی ایس پی ہیں اور ہیڈ آفس لائسنسنگ اتھارٹی میں تعینات۔ آپ کالم لکھتے ہیں اور شاعری کرتے ہیں‘ یعنی اپنے فرائض منصبی کے علاوہ۔ ایک پولیس آفیسر کا شاعر ہونا کچھ ایسی اچنبھے کی بات نہیں ہے کیونکہ اس کی مثالیں پہلے بھی موجود ہیں۔ شوکت ہاشمی ایس پی تھے اور غزل کے بہت عمدہ شاعر تھے۔ اسی طرح ہمارے ایک اور دوست علی افتخار جعفری انسپکٹر ہونے کے ساتھ ایک نہایت عمدہ شاعر اور ایک شعری مجموعہ کے خالق بھی تھے۔ افسوس کہ جوانی ہی میں انتقال کر گئے۔ شاعری انقلاب تو نہیں لا سکتی‘ البتہ آدمی کی تہذیب ضرور کرتی ہے یا کر سکتی ہے‘ محبت کی طرح۔ یہ شعر دیکھیے:
محبت اس لیے بیحد ضروری ہے کہ میں اس سے
مدد لیتا ہوں اپنے آپ کو بہتر بنانے میں
نمونۂ کلام حاضر ہے اور صرف یہ دیکھیے کہ یہ ایک پولیس والے کی شاعری ہے:
یہ دولت آنی جانی ہے
یہ دنیا ساری فانی ہے
کل چاندی سر میں چمکے گی
جس حُسن پہ آج جوانی ہے
.........
بولی سحر کو ہچکیاں لیتے ہوئے یہ شمع
دہلیزِ شب پہ ہائے وہ پروانہ مر گیا
ہاتھوں میں اہلِ شہر کے پتھر نہیں جو آج
لگتا ہے جیسے موڑ پہ دیوانہ مر گیا
آج کا مطلع
بہت مصروف ہوں چھوٹا سا کوئی گھر بنانے میں
کہیں وہ بھی کسی دل کے بہت اندر بنانے میں