یکم اکتوبر2010ء کو سوئٹزر لینڈ کی پارلیمنٹ نے مالیاتی نظام سے متعلق اپنی تاریخ کی منفرد قرار داد کی منظوری دیتے ہوئے پوری دنیا کے غریب اور ترقی پذیر ممالک کیلئے یہ آسانی پیدا کر دی کہ وہ اپنے سرکاری افسروں، تاجروں، سیا ستدانوں اور زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والوں کی سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں جمع کرائی گئی ناجائز دولت ضابطے کی کارروائی مکمل کر تے ہوئے اپنے ملک واپس لے جا سکتے ہیں۔ یہ قانون منظور ہونے کے بعد دنیا کے بہت سے ممالک نے سوئس حکومت سے رابطہ کرتے ہوئے اپنے ملک سے ناجائز طریقوں سے لوٹی گئی دولت کی واپسی کیلئے ضابطے کی کارروائیوں کا آغاز کر دیا۔
سوئس حکومت کی جانب سے اس قانون کے منظور کیے جانے کے بعدپاکستان کے بد دیانت سیاستدانوں، تاجروں، صنعت کاروں ،با اثر بیوروکریٹس اور دہشت گرد وں کی نام نہاد جہادی تنظیموں کی سوئس کھاتوں میں جمع کرائی گئی رقوم کی تفصیلات کا قوم کو شدت سے انتظار ہے۔ شنید ہے کہ یہ اربوں ڈالر ہیں۔ اگر ہم سنجیدگی اور قومی جہاد کے طور پر صدق دل سے سوئس حکومت کے وضع کیے گئے قانون سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے شہریوں کی سوئس کھاتوں میں جمع دولت کی تفصیلات مانگیں تو زیا دہ سے زیا دہ ایک ماہ میں ان تمام غیر قانونی کھاتوں کی تفصیلات مل سکتی ہیں کیونکہ اس قانون کے تحت سوئس حکومت اب پابند ہو چکی ہے کہ وہ متعلقہ ملک کو تمام تفصیلات سے آگاہ کرے۔ اب وہ کسی بھی سیا سی دبائو یا سفارتی تعلقات کی آڑ میں انہیں چھپانے کی مجاز نہیںرہی؛ تاہم ایسا تبھی ممکن ہو سکتا ہے جب اس کام کو اخباری اور سیاسی بیان بازیوں کی بجائے عملی طور پر آگے بڑھایا جائے اور اس حوالے سے کسی بھی طرح کا دبائو قبول نہ کیا جائے ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستانی حکومت ،ایک اندازے کے مطا بق ملک کی 200 بلین ڈالر سے زائد،رقوم کی تفصیلات‘ جو ناجائز طریقوں سے پاکستان سے سوئس کھاتوں میں جمع کرائی گئیں‘ ''Avoidance of double taxation treaty" آرٹیکل 25(1) کی روشنی میں سوئٹزرلینڈ سے کب مانگتی ہے؟ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ابتدائی دنوں میں ہی اپنے شہریوں کی سوئٹزر لینڈ میں غیر قانونی طور پر چھپائی گئی دولت کی تفصیلات حاصل کرنے کیلئے سوئس حکام سے اعلیٰ سطح پر رابطہ کر لیا تھا۔ بھارت سے ناجائز طریقوں سے لوٹی جانے والی اس دولت کی واپسی کیلئے تیزی سے کام جاری ہے۔بھارت اور سوئس حکومت کے درمیان '' انسداد ٹیکس فراڈ ‘‘ کے نام سے ایک نئے معاہدے پر بھی دستخط ہوئے ہیں... اور سوئٹزر لینڈ کے وزیر خارجہCalmy-Rey نے اس معاہدے کے بعد یہ انکشاف کرکے سب کو حیران کر دیا کہ بھارت سے ناجائز طریقوں سے لوٹ کر سوئس بینکوں میں جمع کرائے گئے سرمائے کی مالیت1.4 ٹریلین ڈالر کے قریب ہے۔اس حوالے سے بھارتی راجیہ سبھا کے رکن رام جیٹھ ملانی کا سپریم کورٹ میں دیا گیا وہ بیان بھی اہمیت کا حامل ہے جس میں انہوں نے بھارت سے ناجائز ذرائع سے لوٹ کر سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں بھیجے گئے سرمائے کی مالیت 1500 بلین ڈالر بتائی تھی۔ یہ تو ہوا نئی بھارتی حکومت کا اقتدار میں آنے کے چند دن بعد کیا جانے والا اقدام‘ اب اگر ہم اپنے ملک پاکستان کی طرف دیکھیں تو ابھی تک سوائے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی طرف سے کیے گئے ایک رسمی سے اعلان کے کوئی ٹھوس اقدام سامنے نہیں آ سکا۔ اگرپاکستان کو اس بارے کوئی تردد یا ضابطے کی کارروائی کے بارے معلومات درکار ہیں تو اس کے سامنے نائیجیریا کے ثانی ابا چا، فلپائن کے مارکوس اور میکسیکو کے کارلوس کی مثالیںموجو دہیں جن کے سوئس بینکوں اور اداروں میں جمع تمام غیر قانونی اثاثے ان ممالک نے واپس منگوا لیے ہیں۔
غیر قانونی رقوم کی واپسی کے ایکٹ پر عملدر آمد اور قانونی موشگافیوں یاضابطے کی کارروائیوں میں حائل مشکلات دور کرنے کے سلسلے میں سوئس حکومت اس قدر فراخ دلی کا مظاہرہ کر رہی ہے کہ اس نے وہ مالی اثاثے بھی اس فہرست میں شامل کر دیئے ہیں جو کسی بھی وجہ سے سوئس حکومت نے منجمد کر دیئے تھے اور جو سوئٹزرلینڈ کے مجوزہ ضابطوں کے تحت متعلقہ ممالک کو واپس نہیں کیے جا سکتے تھے۔ ان میں وہ مالی اثاثے بھی شامل کر دیئے گئے ہیں جن پر کسی بھی ملک کے سربراہ نے استثنیٰ مانگا ہو۔اس قانون میں یہ شق انتہائی دلچسپی کی حامل ہے کہ ان منجمد شدہ اثاثوں کی واپسی کے لیے سوئس حکومت کو صرف اس حوالے سے مطمئن کرنا ضروری ہے کہ متعلقہ شخص کے منجمد کردہ اثاثے‘ جو اس نے ان کے ملک میں جمع کرائے ہیں‘ اپنے ملک میں کسی بھی حیثیت میں کام کرتے ہوئے اس کے اپنے ذرائع آمدن سے زیا دہ ہیں۔۔۔اور وہ ملک ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جنہیں عالمی اداروں نے ''کرپٹ ممالک‘‘ کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔ اب پاکستان کے لیے اس سے زیا دہ آسانی اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ اپنے ملک میں تحقیقاتی اداروں کی مدد سے اور متعلقہ شخص کے بیانات سے اس کے ذرائع آمدن کی تصدیق کر سکتا ہے۔
1997ء کے بعد سے دنیا بھر کے ممالک سے سوئس بینکوں میں ناجائز ذرائع سے جمع کی گئی دولت ڈیپازٹ کرانے کا سلسلہ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اب اسے اپنے عوام کی جانب سے بھی سخت رد عمل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور یہ ردعمل صرف سوئس عوام تک ہی محدود نہیں بلکہ دنیا بھر میں اس معاملے میں سوئٹزر لینڈ کے مالیاتی اداروں پر انگلیاں اٹھنی شروع ہو گئی ہیں کیونکہ دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیلے ہوئے غریب، پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کے سربراہوں اور مقتدر شخصیات کے کھربوں ڈالر سوئس کھاتوں میں جمع پڑے ہیں‘ جن میں نائیجیریا کے ثانی اباچا،کانگو کے مبوتو، گھانا کے لسانا کونتے،ٹوگو کے آئیدیما،کینیا کے ارپ موئی،گبون کے عمربونگو،برکینا فاسو کے بلیس کمپالو،انگولا کے ایڈراڈو،عراق کے صدام حسین،گھانا کے جیری رالنگ،فلپائن کے مارکوس،ہیٹی کے ڈویلیئر،میکسیکو کے رال سالینوس،مصر کے حسنی مبارک،یوگنڈا کے یوری موسینوی،چلی کے آگسٹو،لیبیا کے قذافی اور نائیجیرین فوجی حکمران ابراہیم شامل ہیں ۔
اب تو نئے قانون کے تحت بہت سی آسانیاں پیدا کر دی گئی ہیں لیکن جب یہ قانون نہیں تھا‘ اس وقت سوئس حکام کی جاری کردہ ایک رپورٹ کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت نائیجیرین حکومت پانچ سال کی مسلسل کوششوں کے بعد اپنے700 ملین ڈالر اور فلپائنی حکومت اٹھارہ ماہ کی قانونی جنگ کے بعد 684 ملین ڈالر اپنے اپنے ملک واپس لے جانے میں کامیاب ہوگئی تھیں۔ 2001-4ء تک پیرو کی حکومت کی کوششوں سے ان کا ملک110 ملین ڈالر لوٹی گئی دولت واپس لانے میں کامیاب ہوا لیکن یہ سب اس وقت ہوا تھا جب یہ نیا قانون نافذ نہیں ہوا تھا۔ اب تو معاملات خاصے سہل ہو چکے ہیں۔
اگر اس سلسلے کو آگے بڑھایا جائے تو2007ء میں سوئٹزر لینڈ، امریکہ اور قازقستان کے درمیان طے پانے والا وہ خاموش معاہدہ بھی سامنے لانا ضروری ہو جائے گا جس کی بدولت 84 ملین ڈالر کی وہ رقم‘ جو کئی سالوں سے واپس نہیں کی جا رہی تھی‘ سوئس حکام کو ان کے حوالے کرنا پڑی۔اب سوئس حکومت سے ملحق یورپی ممالک کو اجازت دی جا رہی ہے کہ وہ اپنے ممالک سے ناجائز طور پر بھیجی گئی رقوم تک رسائی حاصل کر لیں کیونکہ ایک سرکاری رپورٹ کے مطا بق یورپی ممالک کے شہریوں کی 744 ملین ڈالر سے زائد کی رقوم سوئس کھاتوں میں جمع ہیں۔
کس قدر افسوس کی بات ہے کہ حکومت پاکستان نے '' ٹیکس ایڈ منسٹریشن اصلاحات پروگرام‘‘ کے نام پر امریکہ سے 100 ملین ڈالر قرض صرف اس لیے لے رکھا ہے کہ اس رقم کی مدد سے ملک سے ٹیکس چوری کو روکنے کیلئے جدید طریقے اختیار کیے جائیں گے لیکن کارکردگی سب کے سامنے ہے‘ سوائے پاکستانی عوام پر مزید 100 ملین ڈالر کے نئے بوجھ کے...!