تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     03-08-2014

توفیق

آدمی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی افتادِ طبع کا اسیر ہوتا ہے۔ جن رجحانات کے ساتھ وہ زندگی کا آغاز کرتا، انہی کے ساتھ دنیا سے اٹھ جاتا ہے۔ خود سے اوپر اٹھنے کی توفیق کم ہوتی ہے، بہت ہی کم۔
نواز شریف کو مہلت درکار ہے اور عمران خان کو بھی۔ نواز شریف کو اپنی مدّت پوری کرنی ہے اور عمران خان کو پارٹی کی تنظیم نو۔ اس کے بغیر وسط مدّتی الیکشن اگر وہ لے بھی مریں تو کچھ حاصل نہ ہو گا۔ 
سیف اللہ نیازی اور صداقت عباسی پوٹھو ہار میں پارٹی کے حامیوں کو متحرک کرنے کے لیے سرگرم ہوئے ہیں۔ بے چارہ عباسی، 2013ء کے الیکشن سے قبل لیاقت باغ راولپنڈی کے آخری بڑے جلسے میں وہ پندرہ بیس آدمی بھی نہ لا سکا۔ مری سے اسے قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیا گیا تو عرض کیا تھا کہ اگر وہ تیسرے نمبر پر بھی آ سکا تو یہ ایک معجزہ ہو گا۔ یہ معجزہ واقعی رونما ہوا۔ 2012ء میں تحریکِ انصاف کے الیکشن میں اس سے بڑھ کر دھاندلی ہوئی جتنی کہ قومی انتخابات میں۔ اوّل اوّل کپتان کو ادراک نہ تھا۔ بتدریج اندازہ ہوا تو حیرت زدہ رہ گئے کہ اب کیا کریں ؎
مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہو گا کوئی زخم 
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
راولپنڈی کے جلسۂ عام کے لیے تیس لاکھ روپے کا ایثارکرنے اور تین ہزار سامعین کا جلوس لے کر آنے والے چوہدری فخر کو عباسی نے سٹیج کی سیڑھیاں چڑھنے کی اجازت نہ دی۔ ہر متحرک، محبوب اور موثر آدمی سے موصوف کو چڑ ہے۔ چوہدری کے ساتھ دوسرا حادثہ یہ ہوا کہ انگلینڈ میں جب وہ پچاس ہزار پائونڈ جمع کر چکا تو 
چیئرمین کے چیف آف سٹاف نعیم الحق نے اسے بتایا کہ خان صاحب ان کی تقریب میں نہیں آئیں گے تاوقتیکہ وہ ایک لاکھ پائونڈ کا بندوبست نہ کرے۔ نجیب آدمی نے کوشش کی کہ لندن میں خان صاحب سے ملاقات ہی ہو جائے مگر یہ بھی نہ ہو سکا۔ رنجیدہ ہو کر وہ پاکستان پہنچا۔ تب کپتان سے میں نے کہا: جن چند مخلص آدمیوں کو میں جانتا ہوں، چوہدری ان میں سے ایک ہے۔ نہ صرف راولپنڈی بلکہ پورے آزاد کشمیر میں وہ پارٹی کے لیے ایک بڑا اثاثہ بن سکتا ہے۔ خان نے تاسف کا اظہار کیا۔ صداقت عباسی اینڈ کمپنی مگر ڈٹی ہوئی تھی کہ ڈھنگ کے کسی آدمی کو پنپنے نہ دے گی۔ زچ ہو کر چوہدری نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ چند ماہ قبل وزیر اعظم آزاد کشمیر نے جسے اپنا مشیر مقرر کرنے کی پیشکش کی تھی‘ وزیر اعظم پرویز اشرف جس کے گھر کا طواف کرتے رہے تھے۔ دو ماہ قبل ایک ملاقات میں کپتان نے تسلیم کیا کہ پارٹی کو نئے الیکشن کی ضرورت ہے۔ کب یہ انتخابات ہوں گے اور کیا ان کے بغیر وہ ایک بڑی کامیابی کی امید پال سکتا ہے؟ 
نون لیگ نے اپنی حکمتِ عملی میں تبدیلیاں کی ہیں۔ تحریکِ انصا ف کا مذاق اڑانے والے وفاقی وزرا اب مذاکرات کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ اس اثنا میں مگر پرویز رشیدوں نے اس قدر ان کا تمسخر اڑایا ہے کہ پیچھے ہٹنے کی گنجائش اب ان کے لیے باقی نہیں۔ اس مرحلے پر اگر عمران خان نے آزادی مارچ ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا تو وہ خود کشی کے مرتکب ہوں گے۔ سمجھوتے کے امکان کو مسترد نہ کرنا چاہیے لیکن اب بہرحال انہیں ڈی چوک تک پہنچنا ہو گا۔ اس کے بغیر اگر کوئی معاہدہ انہوں نے کر لیا تو پارٹی بہت پیچھے جا پڑے گی۔ ممکن ہے کہ ردّعمل اس قدر شدید ہو کہ بہت سے کارکن مایوس ہو کر گھر بیٹھ رہیں۔ نون لیگ کی ترجیح یہ نظر آتی ہے کہ مذاکرات جاری رکھنے کا تاثر دے کر کارکنوں کو مخمصے میں مبتلا کر دیا جائے۔ عمران خان کے لیے چیلنج فقط یہ نہیں کہ وہ اسلا م آباد پہنچیں بلکہ یہ بھی کہ مظاہرین کی تعداد دو اڑھائی لاکھ سے کم نہ ہونی چاہیے۔ وہ اپنی سیاسی زندگی کے سب سے بڑے چیلنج سے دوچار ہیں اور اس مرحلے پر کسی بڑی غلطی کے وہ متحمل نہیں ہو سکتے۔ میدان میں اگر وہ نہ اترے تو طاہرالقادری لازماً اتریں گے اور اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش کریں گے۔ ایسے میں تحریکِ انصاف اور اس کے لیڈر کی ایسی بھد اڑے گی کہ باید و شاید۔ 
عمران خان ہی نہیں، نواز شریف اب چوہدری برادران پر بھی مائل بہ کرم دکھائی دیتے ہیں۔ ہفتے کی شام افواہ یہ تھی کہ سعودی عرب میں چوہدری شجاعت سے ان کی ملاقات ہوئی ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ اطلاع درست نہیں۔ چوہدری کچی گولیاں نہیں کھیلے۔ اس خبر کی لیکن تردید نہیں کی گئی کہ رمضان المبارک کے اوائل میں وزیر اعظم نے بڑے چوہدری کو فون کیا تھا۔ وہ ان سے ملاقات کے آرزومند تھے مگر یہ کہہ کر انہوں نے ٹال دیا کہ ساتھیوں سے وہ مشورہ کریں گے۔ شاعری سے نہیں، چوہدری شجاعت کو ضرب الامثال، محاوروں اور حکایات سے شغف ہے وگرنہ شاید وہ یہ کہتے ؎
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ 
ہائے اس زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا
میاں نواز شریف منصوبہ ساز تو یقینا ہیں۔ قوّتِ عمل بھی ان میں غیرمعمولی ہے۔ سیاسی زندگی میں اسی لیے کچھ کامیابیاں وہ سمیٹ سکے مگر وہ ضدّی اور بے لچک ہیں۔ خوئے انتقام ترک نہیں کر سکتے۔ اب وہ سوچتے ہیں کہ کسی طرح سعودی عرب میں اپنے رابطے استعمال کر کے چوہدری صاحبا ن کو نرمی پر آمادہ کریں۔ گزرے ہوئے مہ و سال کی توہین کو مگر گجرات کے جاٹ کیسے فراموش کر سکتے ہیں۔ حادثات سے سبق سیکھنے کی بجائے، وزیر اعظم اب کچھ اور متذبذب ہو چکے۔ سنا ہے، پچھلے دنوں وہ یہ سوچتے رہے کہ پیپلز پارٹی سے مل کر ایک آئینی ترمیم لائیں، جس کے تحت کور کمانڈروں کے تقرر کا اختیار انہیں حاصل ہو جائے۔ پولیس اور سول سروس کی طرح وہ مسلّح افواج کو بھی اپنی ذاتی ترجیحات کے لیے استعمال کرنے کے قابل ہو سکیں۔ اگر یہ اطلاع درست ہے تو خدا ان پہ رحم کرے۔ حالتِ جنگ میں جو حکمران خالص ذاتی مفاد کے لیے اس حد تک جا سکتا ہو، اس کا انجام معلوم۔ 
ہوش مندی سے کام لیا جائے تو عمران خان سے سمجھوتہ ممکن ہے۔ تحریکِ انصاف اور پیپلز پارٹی کے مشورے سے ایک نیا الیکشن کمیشن تشکیل دیا جائے۔ قومی اسمبلی میں ایک مشترکہ قرارداد کے ذریعے کمیشن کے موجودہ ارکان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جائے۔ جن سیٹوں پر زیادہ سنگین دھاندلی کا دعویٰ ہے، ان پر از سرِ نو الیکشن کرا دیا جائے۔ 20، 25 یا 30۔ نون لیگ اب بھی پنجاب میں اکثریت حاصل کر سکتی ہے۔ بہرحال اس کے لیے ایک قابلِ قبول فارمولا مرتّب کرنا ہو گا، جس کا اعلان اسلام آباد میں عمران خان کے مطالبات سامنے آنے کے بعد کیا جائے۔ نواز شریف دانائی سے کام لینے پر آمادہ ہوں تو مولانا فضل الرحمن اور وفاقی وزرا کو غیر ذمہ دارانہ بیان بازی سے منع کریں۔ ان کے ر استے میں وہ کانٹے بو رہے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے مقدمے سے اب انہیں جان چھڑا لینی چاہیے۔ جنرل کی بیساکھی بننے والوں کو گلے سے لگا لینے کے بعد، اس فوج کے سابق سربراہ کو تنہا وہ ہدف کیسے بنا سکتے ہیں، جو ملک کے لیے زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہے۔
ہوش مندی کیا غالب آئے گی؟ کچھ کہنا مشکل ہے۔ آدمی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی افتادِ طبع کا اسیر ہوتا ہے۔ جن رجحانات کے ساتھ وہ زندگی کا آغاز کرتا، اکثر انہی کے ساتھ دنیا سے اٹھ جاتا ہے۔ خود سے اوپر اٹھنے کی توفیق کم ہوتی ہے، بہت ہی کم۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved