آج کل دائیں بازوکاابھرنے والا ہر نیا رجحان، سیاسی جماعت یا لیڈر'' تبدیلی‘‘ کا نعرہ لگا رہا ہے۔ سیاسی افق کے دوسری طرف، ماضی میں حقیقی تبدیلی کی علامت سمجھی جانے والی نام نہاد سوشلسٹ، سوشل ڈیموکریٹ اور کمیونسٹ پارٹیاں ہیں جن کا منشور سرمایہ دارانہ نظام میں ہی پھنس کے رہ گیا ہے، ایک ایسا نظام جو اپنی تین سو سالہ تاریخ کے سب سے تباہ کن بحران سے گزر رہا ہے۔ بھارت کے حالیہ انتخابات میں بھی یہی ہوا۔ کمیونسٹ اور بائیں بازو کی پارٹیاں انقلابی سیاست، پروگرام اور تناظرکو پش پشت ڈال کر سیکولرازم، آئین اور جمہوریت کے کھوکھلے نعرے لگاتی رہ گئیں۔ مودی نے بڑی عیاری سے ملک میں پھیلی انتہا درجے کی معاشی ناہمواری اور غربت میں گزرے اپنے بچپن اور غریبوں کی زندگی میں بہتری لانے والے ترقیاتی منصوبوں کے وعدوں کو لچھے دار لفاظی کے ذریعے انتخابی فرنٹ پر کیش کروا لیا۔ ''تبدیلی‘‘ آگئی ہے لیکن درحقیقت کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا۔ اس تبدیلی نے بھارت کے ایک ارب غریبوں کی زندگی کا دھارا دراصل مزید محرومی اور ذلت کی طرف موڑ دیا ہے جو بی جے پی کی رجعتی حکومت کی چھتری تلے کارپوریٹ آقائوں کی بے لگام لوٹ مار اور استحصال سے پھیلے گی۔
گزشتہ ایک دہائی کے دوران بھارتی معیشت کی بلند معاشی شرح نموکا بہت ڈھنڈورا پیٹا گیا ہے۔ کارپوریٹ میڈیا کی منظر کشی کے برعکس یہ معاشی نمو بھارتی عوام کے معیار زندگی میں کوئی بہتری نہیں لا پائی۔ مقامی سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل اجارہ داریوں کو اپنی متزلزل قوت خرید سے منڈی فراہم کرنے والا ایک درمیانہ طبقہ پیدا ہواجبکہ آبادی کی اکثریت معاشی سائیکل سے ہی باہر ہوگئی ہے۔ حکمران طبقے نے غربت کے بدترین استحصال سے غیر معمولی منافع (سپر پرافٹ) کمایا ہے جس کی بنیاد پر معاشی ترقی کی تمام تر شعبدے بازی کی جارہی ہے۔ 2001ء سے 2008ء تک معیشت کی اوسط شرح نمو آٹھ سے نو فیصد کے درمیان رہی جبکہ اسی عرصے میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد 77کروڑ سے بڑھ کر 83کروڑ ہوگئی۔
امارت اور غربت کے درمیان خلیج مزید وسیع ہوتی جارہی ہے۔ جدید سافٹ ویئر انڈسٹری، ایٹمی اور خلائی پروگرام کا ڈھونگ ایک ایسے ملک میں رچایا جارہا ہے جس کی غربت کے سامنے افریقہ بھی ماند پڑجاتا ہے۔ سرکاری طور پر بیروزگاری کی 3.5فیصد شرح کرپٹ بھارتی ریاست اور حکمران طبقے کی ڈھٹائی اور مکروہ کردار کا واضح اظہار ہے۔ 2011-12ء میں کئے گئے آئی ایل اوکے سروے کے مطابق15سے 59سال کے محنت کشوں میں سے صرف 21.2فیصدملازمین کو باقاعدگی سے تنخواہ ملتی ہے۔ گزشتہ تین برسوں کی معاشی گراوٹ کے بعد آج کی صورت حال کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
اعداد و شمار خود بولتے ہیں: 70فیصد سے زائد بھارتی شہری 20روپے (0.35ڈالر)یومیہ سے کم پر زندگی گزار رہے ہیں۔ 36فیصد خواتین، 34فیصد مرد اور پانچ سال سے کم عمرکے 48 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ دیہات میں 80فیصد جبکہ شہری علاقوں میں 64فیصد خاندانوں کو مطلوبہ کیلوریز دستیاب نہیں۔ خوراک میں قیمتوں میں اضافے کی شرح فی الوقت 10فیصد سے زیادہ ہے جبکہ بنیادی ضرورت کی دوسری اشیاکی قیمتیں 9فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہیں۔ دالوں، پکانے کے تیل اور دودھ وغیرہ کی قیمتوں میں 2001ء کے بعد سے 50سے150فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے۔
تعلیم اور صحت کا انفراسٹرکچرگل سڑ چکا ہے۔ 29فیصد بچے پرائمری جبکہ 46فیصد مڈل تک پہنچنے سے پہلے ہی تعلیم ترک کر دیتے ہیں۔ صحت کے شعبے پر نجی سرمائے کی یلغار کے باعث 80فیصد مریض مہنگا علاج 'خریدنے‘ پر مجبور ہیں۔ جہاں روٹی نہیں مل رہی وہاں علاج کتنوں کی پہنچ میں ہوگا؟ ایک اندازے کے مطابق سالانہ آٹھ کروڑ لوگ صرف اس قرضے کے بوجھ تلے دب کر خط غربت سے نیچے جا گرتے ہیں جو انہیں بیمار ہونے کی صورت میں علاج کے لئے لینا پڑتا ہے۔
ریاست، سیاست اور معیشت پر سرمایہ داروں کی بڑھتی ہوئی گرفت کے باعث گزشتہ بیس برسوں کے دوران کام کے حالات بد تر اور تنخواہیں کم تر ہوئی ہیں۔ عالمی منڈی کی مقابلے بازی کے دبائو نے مالکان کو محنت کشوں کا زیادہ سے زیادہ خون چوسنے پر مجبور کیا ہے۔ مستقل نوکریاں ختم کر کے ٹھیکے داری اور دیہاڑی دار مزدوری کا نظام رائج کیا گیا ہے اور کام کے اوقات کار بڑھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پیداواریت (Productivity)میں 1999ء سے 2007ء تک پانچ فیصد جبکہ 2008ء سے 2011ء تک مزید 7.6فیصد اضافہ ہوا جبکہ اس عرصے میں حقیقی اجرت دو فیصدکم ہوئی ہے۔ ''چمکتے بھارت‘‘ کی معاشی ''ترقی‘‘ کا راز یہی بد ترین استحصال ہے جس کے ذریعے سستی اجناس یا خام مال ترقی یافتہ ممالک میں برآمد کر کے سرمایہ دار طبقہ دولت کے انبارلگارہا ہے۔
بالی وڈ کی فلموں میں جس درمیانے طبقے کو معاش کی فکر سے ماورا عشق لڑاتے ہوئے دکھایا جاتا ہے اس کی حالت قابل رحم ہے۔ مودی کی کامیابی میں تیزی سے سکڑتی ہوئی نومولود مڈل کلاس کی بے چینی اور لاابالی پن نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ خوشحالی، ترقی اور مواقع کی علامت سمجھے جانے والے ''ہائی ٹیک‘‘ بنگلور میں ہر سال دو ہزار نوجوان حالات سے تنگ آکر خود کشی کررہے ہیں۔ اپنی جان لینے والوں کی یہ تعداد ہندوستان کے کسی بھی بڑے شہر سے زیادہ ہے۔ 9جولائی 2014ء کو بی بی سی پر ''نوجوانوں کے قبرستان میں تبدیل ہوتا بنگلور‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی رپورٹ میں ماہرین نفسیات کے حوالے سے بتایا گیا کہ ''خود کشی کی بنیادی وجہ مقابلہ بازی کی فضا ہے۔ بنگلور میں مقابلہ بہت ہے، ہر کوئی تیزی سے پیسہ کمانا چاہتا ہے اور ناکامی کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔خودکشی کرنے والوں میں زیادہ تر افراد ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں‘‘۔ یہ ہیں آزاد منڈی کی مقابلہ بازی اور نفسا نفسی کے ثمرات جسے حکمران طبقے کی دانش 'فطری‘‘ بنا کر پیش کرتی ہے۔
بھارت کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر بیروزگاری کی شرح میں کمی کے لئے ہر مہینے دس لاکھ نئی نوکریاں پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ مرتی ہوئی سرمایہ دارانہ معیشت میں اتنی گنجائش موجود نہیں اور معاشی جمود کی وجہ سے سرمایہ کاری کی شرح مسلسل گراوٹ کا شکار ہے۔ مودی سرکار آگ کو پٹرول سے بجھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ نئی حکومت نے بھارتی تاریخ کی سب سے بڑی نجکاری کا اعلان کیا ہے جبکہ سبسڈی کے خاتمے کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے۔ یہ نیو لبرل معاشی ''اصلاحات‘‘ محنت کشوں پر سرمائے کے جبرکو شدیدکریں گی، مہنگائی بڑھے گی اور غربت میں ناگزیر طور پر اضافہ ہوگا۔اپنے نامیاتی بحران کے زیرپیہم زوال پذیر سرمایہ دارانہ نظام کے پاس زندہ رہنے کا یہی نسخہ بچا ہے۔ یہی نیم فاشسٹ ہندو بنیاد پرست بی جے پی کی ''تبدیلی‘‘ ہے۔
حکمران اب بھی اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ طبقاتی جدوجہد کا حتمی طور پر خاتمہ ہوچکا ہے۔ بھارت کے محنت کش عوام مودی، اس کے آقائوں اور حواریوں کی آنکھیں جلد ہی کھول دیںگے۔ عوام کی ذلت بارود بن کر پھٹے گی اور حکمران طبقے کو اس کے نظام سمیت نیست و نابود کر دے گی۔ 1946ء میں جہازیوں کی بغاوت سے شروع ہونے والا انقلاب ہو یا پھر 1970ء کی سرکشی ، بھارتی پرولتاریہ جارحانہ جدوجہد اور انقلابی تحریکوں کی درخشاں روایات کا امین ہے۔ قیادت کی غداریاں، موقع پرستی اور نظریاتی انحراف محنت کشوں کوہمیشہ مایوس نہیں رکھ سکتے۔ کروڑوں نوجوانوں پر مشتمل محنت کش طبقے کی نئی نسل کا اجتماعی شعور ماضی کی شکستوں سے داغدار نہیں ، مستقبل طوفانی واقعات سے لبریز ہے!