تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     03-08-2014

آرٹیکل 245اور سول اداروں کی ناکامی

ذوالفقار علی بھٹو نے نواب محمد احمد خان قصوری والے مقدمہ قتل میں اپنے عدالتی بیان میں ایک موقع پر کہا کہ میں نے ٹی وی کی رنگین نشریات شروع کروائیں تاکہ پاکستان کے عوام کو سستی تفریح میسر آئے‘ مدعاعلیہ (جنرل ضیاء الحق) روزانہ ٹی وی پر اپنی رنگین وردی پہن کر آ جاتا ہے۔ یہ جملہ مجھے میرے دوست ملک شوکت علی خان نے عشروں پہلے سنایا تھا۔ اس جملے نے بڑا مزہ دیا اور پھر میں اسے بھول بھال گیا۔ آج یہ جملہ قریب پینتیس برس بعد یاد آیا ہے۔ چودھری پرویزالٰہی نے سٹی ٹریفک پولیس بنائی تھی کہ ٹریفک کے مسائل حل کیے جائیں اور عوام کی رہنمائی کی جائے۔ شہباز شریف کی حکومت نے اسے ذریعہ آمدنی بنا لیا ہے۔ 
میں دوستوں کے ساتھ مانچسٹر سے گلاسگو جا رہا تھا۔ موٹروے پر سو ڈیڑھ سو میل کے سفر کے دوران دو تین جگہوں پر تنبیہی نوٹس لگا دیکھا۔ لکھا تھا کہ ''رفتار آہستہ کرلیں‘ آگے سپیڈ چیک کرنے والا کیمرہ لگا ہوا ہے‘‘۔ سات آٹھ سال پہلے یہ ایک اچنبھے کی بات تھی۔ تب ہمارے ہاں ہائی وے پر کسی موڑ کے پیچھے‘ کسی پوشیدہ جگہ پر یا کسی آبادی والی جگہ کے آخری سرے پر جہاں حد رفتار پچاس یا ساٹھ کلو میٹر ہوتی ہے کیمرہ لگا کر بیٹھی ہوئی ٹریفک پولیس حد رفتار کی خلاف ورزی کرنے والے ڈرائیوروں کا چالان کیا کرتی تھی‘ بلکہ کیا کرتی تھی ہی نہیں‘ اب بھی کرتی ہے۔ میں نے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک دوست سے پوچھا کہ جب چالان کرنا ہے تو یہ نوٹس کیوں لگایا ہے؟ اور اگر چالان نہیں کرنا تو کیمرہ لگانے کا کیا فائدہ ہے؟ دوست کہنے لگا مقصد چالان کرنا نہیں‘ رفتار کم کروانا ہے اور اگر وہ چالان کے بغیر کم ہو سکتی ہے تو پھر چالان کی کیا ضرورت ہے؟ اگر کوئی ڈرائیور اس نوٹس کو پڑھنے کے باوجود رفتار کم نہیں کرتا تو پھر ہونے والا چالان تیز رفتاری کے باعث نہیں بلکہ اس کی ڈھٹائی کے باعث ہوتا ہے۔ غلطی پر نہیں‘ دیدہ دلیری پر ہوتا ہے۔ مقصد ہائی وے پر حادثات کو روکنے کی غرض سے رفتار کو حد میں رکھنا ہے اور یہ مقصد اگر محض نوٹس سے حاصل ہو سکتا ہے تو بھلا چالان یا کیمرے کی کیا ضرورت ہے؟ بنیادی مقصد رفتار کم کروانا ہے اور وہ پورا ہو رہا ہے۔ 
رات کا وقت تھا۔ میں کالاشاہ کاکو سے موٹروے کی جانب آ رہا تھا۔ میں نے اسلام آباد جانا تھا۔ لاہور اور اسلام آباد کی نشاندہی کرنے والا بورڈ گرا ہوا تھا اور میں غلطی سے لاہور والی سمت مڑ گیا۔ مڑتے ہی مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ میں نے گاڑی روک لی۔ ابھی موٹروے دور تھی اور مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں کیا کروں۔ میں نے گاڑی ایک سائیڈ پر لگائی اور گاڑی کی ''Hazard lights‘‘ (دونوں سمت کے مڑنے والے اشارے بیک وقت جلانا) جلائیں اور دو تین منٹ تک کسی رہنمائی کا منتظر رہا۔ مجھے شک سا گزرا تھا کہ موٹروے پر پل کے نیچے شاید موٹروے پولیس کی گاڑی کھڑی ہے مگر اندھیرے میں کچھ واضح نظر نہیں آ رہا تھا۔ گاڑی کی سرخ اور نیلی بتی بھی نہیں جل رہی تھی۔ صرف پارکنگ لائٹ جل رہی تھی۔ مجھے گمان ہوا شاید یہ کوئی پرائیویٹ گاڑی کھڑی ہے۔ بالآخر میں نے گاڑی آہستہ آہستہ ریورس کرنی شروع کی۔ یہ محض تیس چالیس گز کا فاصلہ تھا۔ پھر میں دوبارہ اسی جگہ آ گیا جہاں لاہور اور اسلام آباد کے راستے الگ الگ ہو رہے تھے۔ میں نے گاڑی دائیں راستے پر کی اور پل سے گزر کر بائیں گھوما اور موٹروے پر آ گیا۔ جونہی میں پل کے نزدیک پہنچا‘ نیچے کھڑی گاڑی نے نیلی اور سرخ بتی جلا لی۔ ایک آفیسر نے مجھے رکنے کا اشارہ کیا اور کہنے لگا: آپ نے سلپ 
روڈ پر گاڑی ریورس کی ہے جو جرم ہے۔ آپ دو سو روپے جرمانہ ادا کریں۔ یہ کہہ کر اس نے چالان بک نکالی اور کاغذی کارروائی کا آغاز کردیا۔ میں نے پوچھا‘ آپ کو کیسے پتہ ہے کہ میں نے سلپ روڈ پر گاڑی ریورس کی ہے؟ وہ کہنے لگا‘ ہم کافی دیر سے آپ کو دیکھ رہے ہیں۔ میں نے پوچھا‘ جب میں نے اپنے دونوں اشارے جلائے تھے آپ دیکھ رہے تھے؟ وہ کہنے لگا بالکل دیکھ رہا تھا۔ میں نے کہا‘ یہ میرا نہیں آپ کا جرم بنتا ہے۔ آپ یہاں محض چالان کی غرض سے نہیں بلکہ ٹریفک کو محفوظ رکھنے اور حادثات سے بچانے کی ذمہ داری پر مامور ہیں۔ آپ کو بتیاں بند کر کے‘ کسی مچان پر بیٹھے ہوئے شکار کے منتظر شکاری کے بجائے مشکل میں مبتلا مجھ جیسے شخص کی مدد کے لیے فوراً آنا چاہیے تھا۔ آپ بھلے میرا چالان کر لیں مگر میں آپ کے اس غیر ذمہ دارانہ رویہ کے خلاف آپ کے آئی جی سے ملوں گا۔ اگر وہاں شنوائی نہ ہوئی میں عدالت میں جائوں گا۔ آپ دیکھنے کے باوجود میری رہنمائی اور مدد کرنے کے بجائے مورچہ لگا کر چالان کی تاڑ میں بیٹھے رہے۔ یہ ناقابل معافی جرم ہے۔ اگر خدانخواستہ مجھے حادثہ پیش آ جاتا تو اس کے ذمہ دار صرف اور صرف آپ تھے۔ اب آفیسر میرا چالان کرنے کے بجائے مجھ سے جان چھڑوانے پر آ گیا۔ پانچ سات منٹ کی بحث کے بعد اس افسر نے کہا کہ ہم دونوں سے غلطی ہوئی ہے۔ آپ کی غلطی اور میری غلطی برابر ہوئی لہٰذا آپ جا سکتے ہیں۔ میں اڑ گیا اور کہا کہ آپ کی غلطی بہرحال میری غلطی سے بہت بڑی اور سنگین ہے۔ مجھ سے غیر ارادی غلطی ہوئی اور اس میں بھی میں بے قصور ہوں کہ بورڈ گرا ہوا تھا مگر آپ کی غلطی دانستہ تھی‘ آپ محض چالان کی غرض سے چھپ کر بیٹھے رہے۔ میں نے گاڑی بند کردی اور دوبارہ ہیزرڈ لائٹس جلا دیں اور کہا کہ میں اس وقت تک یہاں سے نہیں جائوں گا جب تک آپ غلطی تسلیم نہیں کرتے۔ میری اہلیہ اور دوسرا افسر مجھے سمجھانے لگ گئے۔ میں نے اس افسر سے کہا‘ آپ ایمان سے بتائیں کون غلط ہے؟ وہ کہنے لگا ہم غلط ہیں۔ میں نے کہا تو اس افسر کو یہی بات ماننے میں کیا مجبوری ہے؟ وہ کہنے لگا‘ انا حائل ہے۔ میں پل کے نیچے بنی ہوئی سیمنٹ کی چھوٹی سی دیوار پر بیٹھ گیا۔ میرا استقلال دیکھ کر بالآخر پہلے آفیسر نے اپنی غلطی تسلیم کی اور میں اسلام آباد روانہ ہو گیا۔ 
پنجاب میں سٹی ٹریفک پولیس کا نظام چودھری پرویزالٰہی کا کارنامہ ہے۔ تب رشوت کا تصور نہ تھا اور چالان بنیادی مقصد نہ تھا۔ خوش اخلاقی دیکھنے کو ملتی تھی اور اہلکاروں کا سارا زور ٹریفک کی بہتری پر تھا۔ اب حساب الٹ ہے۔ بنیادی مقصد چالان ہے کہ اب ہر وارڈن کو چالانوں کا ٹارگٹ ملتا ہے۔ خوش اخلاقی رخصت ہو چکی ہے اور رشوت کی اطلاعات عام ہیں۔ یہ صرف ملتان کا نہیں تقریباً سارے شہروں کا المیہ ہے۔ ملتان میں روزانہ بوسن روڈ پر‘ نو نمبر چونگی کے فلائی اوور کے نیچے‘ سایہ دار جگہ پر اور جگہ جگہ موبائل ناکوں پر‘ ہر جگہ موٹر سائیکلوں کی شامت آئی ہوتی ہے۔ ویگو‘ لینڈ کروزر‘ پجیرو‘ پراڈو اور دیگر بڑی گاڑیوں کو ڈر کے مارے کسی کو روکنے کی جرأت نہیں ہوتی۔ جس کا جی کرتا ہے جیسی چاہتا ہے نمبر پلیٹ لگوا لیتا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ایسی ایسی نمبر پلیٹیں لگی ہوئی ہیں جن کا پڑھنا محال ہے۔ مگر سب چل رہا ہے۔ 
عید پر سنا کہ ٹریفک پولیس کو چالان کرنے سے روک دیا گیا ہے مگر اس اعلان کا بھی وہی حشر ہوا جو عید پر بجلی کی لوڈشیڈنگ نہ کرنے کا ہوا ہے۔ دیہی علاقوں میں چھ سے بارہ گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی رہی اور شہروں میں بھی وقفے وقفے سے بجلی بند ہوتی رہی۔ ٹریفک وارڈن دھڑلے سے چالان کرتے رہے اور چیف ٹریفک پولیس آفیسر کے احکامات ہوا میں اڑاتے رہے۔ پولیس ناکے لگا کر عیدی وصول کرتی رہی۔ سارے ادارے آہستہ آہستہ بربادی کی آخری حد کی جانب رواں دواں ہیں۔ پولیس‘ یونیورسٹیاں‘ محاصل اکٹھا کرنے والے ادارے‘ تیل و گیس کے محکمے اور بجلی پیدا کرنے اور تقسیم کرنے والی کمپنیاں‘ سب انحطاط کے آخری درجے پر پہنچ چکے ہیں۔ حکومت کو کسی چیز کی رتی برابر پروا نہیں۔ دس دن خانہ خدا میں گزار کر آنے والوں کو حقوق العباد کے حوالے سے اس ذمہ داری کا احساس تک نہیں جس کی خاطر لوگوں نے انہیں صاحب اقتدار کیا تھا۔ اسلام آباد کی حفاظت میں سول اداروں کی ناکامی کے خوف سے آرٹیکل 245 کے تحت فوج کو بلایا جا رہا ہے۔ سارے سول ادارے ناکام ہو چکے ہیں۔ کوئی ایک ادارہ ایسا نہیں جہاں آئین‘ قانون اور ضابطے کے مطابق کام چل رہا ہو۔ کیا کوئی آرٹیکل ایسا ہے جو ان اداروں کی ناکامی پر لگا کر معاملات درست کیے جا سکیں؟ اگر ایسا کوئی آرٹیکل موجود بھی ہے تو حکمران اس کا استعمال نہیں کریں گے کہ ان کا مقصد اپنے اقتدار کو دوام دینا ہے‘ عوام کو سہولت دینا نہیں ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved