تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     04-08-2014

مودی کو اپنی رونق نکھارنے کا موقع

یونین پبلک سروس کمیشن کے بھرتی امتحان میں 'سی سیٹ‘کے سوالات کو لے کر اتنی زبردست مخالفت ہوگی‘ اس کا اندازہ نہ تو پچھلی سرکار کو تھااور نہ موجودہ سرکا ر کو۔پچھلے سال دلی کے مکھرجی نگر میں جب اس اعلیٰ امتحان کے امیدواروں کے پہلے اجتماع میں‘ میں نے تقریر کی تھی تو مجھے ایسا ضرور لگا تھا کہ یہ تحریک کچھ پچھلی ہندی تحریکوں کی طرح بیچ میں ہی ٹھپ نہیں ہوگی۔اس کی وجہ تھی۔ تحریک چلانے والے امیدواروں کا مستقبل اس موومنٹ سے سیدھا جڑا ہوا تھا۔لگ بھگ دس لاکھ امیدوار اس امتحان کیلئے درخواستیں دے چکے ہیں۔ اعلیٰ سرکاری ملازمتوں میں بھرتی کے لیے امتحانوں میں انگریزی کا اتنا بول بالا ہے کہ ہندی کے ذریعے سے پاس ہونے والے امیدواروں کی تعدادلگاتار کم ہوتی جارہی ہے۔پچھلے سال1122 لوگ چنے گئے‘جن میں سے صرف 26ہندی والے تھے۔باقی تمام بھارتی زبانوں کے صرف27 لوگ چنے گئے یعنی کسی زبان کا ایک اور کسی کے دو سرکاری نوکری میںبھرتی ہوئے اور کسی زبان کا ایک بھی نہیں!کیا دنیا کے کسی آزاد ملک میں کبھی ایسا ہوتا ہے ؟بھارت کی یہ حالت تو غلام ملکوں سے بھی بد تر ہے ۔یہ معاملہ صرف ہندی کا نہیں ‘تمام بھارتی زبانوں کا ہے۔ جب میں نے 1965 ء میں انڈین اسکول آف انٹر نیشنل سٹڈیز میں اپنا بین الاقوامی سیاست کا پی ایچ ڈی کاتحقیقاتی کام اپنی مادری زبان(ہندی) میں لکھنے کی مانگ کی تو ایوان میں زبردست ہنگامہ ہو گیا۔کئی بار ایوان ٹھپ ہوا۔مہینوں بحث چلی تب کہیں جا کر اعلیٰ تحقیق کیلئے بھارتی زبانوں کے دروازے کھلے۔اسی وقت ایوان میں یہ بحث بھی چلی کہ اعلیٰ سرکاری نوکریوں کے امتحان صرف انگریزی میں کیوں ہوتے ہیں‘ بھارتی زبانوں میں کیوں نہیں؟ یکے بعد دیگرے کئی کمیشن بنے لیکن ان امتحانوں میں سالہا سال انگریزی کی بالادستی جوں کی توں رہی۔ لگ بھگ پندرہ سال تک میرے کچھ ساتھیوں نے لگاتار کمیشن کے دروازے پر دھرنا بھی دیا۔12 مئی1997ء کو ہماری حمایت میں سابق پریزیڈنٹ گیانی ذیل سنگھ‘اٹل بہاری واجپائی‘وی ۔پی سنگھ‘چوہدری دیوی لال‘پاسوان‘نتیش کمار اور دیگر کئی نامی گرامی لیڈر بھی شامل ہوئے۔کمیشن کے امتحانوں میں آہستہ آہستہ بھارتی زبانوں کو چھوٹ تو ملی لیکن انگریزی کی اہمیت ابھی تک قائم ہے۔ 
انگریزی کا لازمی ہونا طلباء اور امیدواروں کو سڑک پر اترنے کیلئے مجبور کر رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ تحریک صرف دلی میں ہو رہی ہے‘ حیدرآباد‘ چنائی‘ بنگلور اور کئی صوبائی دارالحکومتوں میں بھی کافی ہلچل ہے ۔حالیہ طلباء تحریک کا ہدف محدود ہے ۔یہ صرف 'سی سیٹ‘کے سوالات کو ہٹوانا چاہتا ہے۔یہ 'سی سیٹ‘کیابلا ہے؟یہ بھرتی کے شروعاتی امتحان کا انگریزی نام ہے ۔اس کا پورا نام ہے 'سول سروسز ایپٹی ٹیوٹ ٹیسٹ‘ یعنی سرکاری نوکریوں میں بھرتی ہونے والوں کی ذہنی آزمائش‘نفسیاتی لیول اور جنرل نالج وغیرہ کا امتحان!
اس شروعاتی امتحان کا مطلب اچھا ہے لیکن اس سوالنامہ میں تکنیکی‘سائنسی‘ ریاضی اور کمرشل سوالات کی بھرمار رہتی ہے۔ جو طلبا ان مضامین کو پڑھ کر آتے ہیں ‘وہ دنادن سوالات حل کر لیتے ہیں اور جو طلبا آرٹس‘ سوشل سٹڈیز اور اخلاقیات وغیرہ پڑھ کر آتے ہیں‘وہ بغلیں جھانکتے رہتے ہیں ۔یعنی 'سی سیٹ‘سوالنامے کا خاص کردار ہی سوالات کے گھیرے میں ہیں۔ اس کے علاوہ جو سوال ہندی میں پوچھے جاتے ہیں ان کی ہندی بس ماشااللہ ہوتی ہے ‘کیونکہ وہ ہندی نہیں ہوتی۔ انگریزی کا لفظی ترجمہ ہوتا ہے۔ گوگل کاعجیب وغریب ترجمہ دیا ہوا ہے۔ 'سٹیل پلانٹ‘ کا مطلب 'لوہے کا پودا‘اور 'واچ ڈاگ‘ کا مطلب'کتے کی نظر‘ پڑھایا جاتا ہے۔اب امیدوار کیا کریں؟ جب سوال ہی ان کے پلے نہیں پڑے گا تو وہ جواب کیا دیں گے ؟انہیں ہندی یا مادری زبان کے ذریعے سے امتحان دینے کی چھوٹ ضرور ہے لیکن یہ چھوٹ بھی کیا چھوٹ ہے۔ سارے امتحانی پرچے صرف ہندی اور انگریزی میں کیوں ہوتے ہیں؟دیگر بھارتی زبانوں میں کیوں نہیں؟ اس کے علاوہ200 نمبروں کے دو کوئیسچن پیپروں میں22 نمبر کے سوال انگریزی میں ہوتے ہیں۔ ان کے جواب بھی انگریزی میں دینے ہوتے ہیں۔ان بیس بائیس نمبروں کا نقصان جن امیدواروں کو ہوتا ہے‘وہ تو فضول میں ہی مارے گئے نا! امتحان میں تو ایک ایک نمبر کم یا زیاد ہ آنے پر طلبا کا مستقبل بنتا بگڑتا ہے۔ آپ ان کی قابلیت‘صلاحیت اور دلچسپی کا امتحان لے رہے ہیں یا یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ انگریزی کی رٹی ہوئی تعلیم میں ہوشیار ہیںیا نہیں ؟
رٹی ہوئی انگریزی سے پیدا نوکر شاہی نے آزاد بھارت میں کیا گل کھلائے ہیں‘ یہ سب کو پتہ ہے۔ہمارے بڑے بڑے لیڈر اس انگریزی کی دہشت کے سبب اپنے سرونٹس کے نوکر بنے رہتے ہیں۔قانون بنانے والے اراکین پارلیمنٹ کو قانون کے آرٹیکلز کے درست معنی معلوم نہیں ہوتے‘کیونکہ وہ انگریزی میں ہوتے ہیں۔ ہماری عدالتوں میں کئی سالوں تک کروڑوں مقدمے کیوں لٹکتے چلے آ رہے ہیں؟ اس میں بہت سا کردار انگریزی کا بھی ہے۔تمام بھارت کی حکومتی انتظامیہ کا یہی حال ہے۔ اگر سرکاری کام کاج میں انگریزی چھائی ہوئی ہے تو آپ اسے بھرتی کے امتحان سے کیسے ہٹا سکتے ہیں؟ گزشتہ سرکاروںنے اس مجبوری کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔ کیا مودی سرکار بھی یہی کرے گی؟ 
مودی سرکار نے امیدواروں اور طلبا کی مانگ پرضروری توجہ دی ہے ۔فوراً کمیٹی بٹھائی لیکن کمیٹی اور کمیشن نے ٹکا سا جواب دے دیا۔ وہ کچھ بھی بدلائو کرنے کو تیا ر نہیں۔ 24 اگست کو امتحانات ہونے ہیں۔اتنی جلدی کچھ نہیں ہو سکتا ۔اگر کچھ کیا تو طلبا کمیشن کے خلاف مقدمہ دائر کر سکتے ہیں۔ بیوروکریٹ یہی کہیں گے لیکن مودی سرکار کا یہ کڑا امتحان ہے ۔یا تو وہ کوئی بیچ کا راستہ نکالے یا 'سی سیٹ ‘کو ہی رد کر دے ۔صرف 'سی سیٹ‘کورد کرنا ہی کافی نہیں ہے‘وہ انگریزی کے'کوالیفائنگ‘پرچے کو بھی رد کرے۔ اس انگریزی کے لازمی امتحان کے نمبر چاہے نہ جوڑے جاتے ہوں لیکن اگر اس میں فیل ہونے والے طلبا کے باقی پرچے جانچے ہی نہ جاتے ہوں تو کیا ماناجائے گا؟کیا یہ نہیں کہ بھارت سرکار کے افسر بننے کی صرف ایک ہی قابلیت ہے۔ آپ کا انگریزی علم! آپ کی باقی سبھی اہلیتیں بیکار ہیں۔
عوام کے نظریہ سے اس کا کیا مقصد نکلا؟یہی کہ ملک کے لگ بھگ ایک ارب دس کروڑ لوگ ایسے ہیں جن کے بچوں کا حکومتی انتظامیہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ‘کیونکہ یہ لوگ اپنے بچوں کو انگریزی میڈیم مہنگے سکولوں میں نہیں پڑھا سکتے۔سرکاری نوکریوں پر صرف مٹھی بھر لوگوں کا قبضہ بنا رہے گا۔شہری مالدار‘ اونچی ذات والے اور انگریزی لوگوں کا!ملک کے غریب‘ دیہاتی‘ محروم لوگ نریندر مودی کی سرکار میں بھی ویسے ہی رہیں گے‘ جیسے انگریزوں کے دور حکومت میں رہتے آئے تھے؟مودی نے وزیراعظم بنتے ہی وہ کرشمہ دکھایا تھا‘جو بھارت کا کوئی وزیراعظم نہیں دکھا پایا۔انہوں نے ایک بیرونی لیڈر سے انگریزی نہیں‘ ہندی میں بات کی۔انہوں نے سرکاری مشینری کو بھی ہندی میں کام کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔وہ اقوام متحدہ میں بھی ہندی میں ہی خطاب کریں گے لیکن یونین پبلک کمیشن میں ہندی اور بھارتی زبانوں کو لے کر یہی ڈھرا چلتا رہا تو مودی کی حمائت اور شہرت کو گہرا دھکا لگے گا۔ اگر مودی سرکار تمام بھارتی زبانوں کو بھرتی کے امتحانات میں جائز مقام دلوا دیں تو وہ گجراتیوں اور ہندی زبان والوں کے ہی نہیں ‘بلکہ تمام بھارتیوں کے ہر دلعزیز رہنما بن جائیں گے۔
(تحریر کنندہ ‘بھارتیہ زبانوں کی جدوجہد کی علامت ہیں۔ انہوں نے دیانند‘مہاتما گاندھی اور لوہیا کی طرح انگریزی کی قوت کو کھلی للکار دی ہے۔ وہ ملکی زبانوں کے تحریکوں کے ہدایت کار رہے ہیں) 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved