تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     04-08-2014

ماضی کے گہرے سائے اور حالیہ خونریزی

غزہ میں ہلاکتیں بڑھ رہی ہیں اوراس کے ساتھ یورپ میں صہیونیت کے خلاف اشتعال کی لہر میں اضافہ ہورہا ہے۔ عرب تارکین وطن، نازی نظریات رکھنے والوں اور بائیں بازو کے عناصر پر مشتمل کچھ گروہوں نے یہودیوں کی عبادت گاہوں اور کاروباری مقامات کو نشانہ بنایا ، پر تشدد مظاہرے بھی کیے گئے۔ پیرس سے لے کر پیراگوئے کی گلیوں تک کچھ یہودیوں پرحملے بھی ہوئے اور یہ سلسلہ مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔ 
صہیونیت کے خلاف اشتعال کی لہر خاص طور پر فرانس میں سب سے نمایاں دکھائی دیتی ہے حالانکہ وہاں اسرائیل اور امریکہ کے بعد سب سے زیادہ یہودی آباد ہیں۔ اب یہاں سے یہودی بڑی تعداد میں ہجرت کرکے اسرائیل جارہے ہیں کیونکہ اُنہیں خدشہ ہے کہ نفرت کی موجودہ لہر میں اضافہ ہوگا اور ان پر حملے کیے جائیں گے۔ فرانس میں صہیونیت کے خلاف ناپسندیدگی کی لہرکوئی نئی بات نہیں۔ اگرچہ فرانس کا سیاسی اور قانونی نظام کسی پر مذہب کی بنیاد پرتنقید کی اجازت نہیں دیتا لیکن وہاں کے درمیانی طبقے میں صہیونیت کے خلاف شدید جذبات پائے جاتے ہیں۔ ان جذبات کو خاص طور پر ڈرائیفس افیئر(Dreyfus Affair) نے ہوا دی۔ الفریڈ ڈرائیفس فرانسیسی فوج کا کیپٹن تھا اور 1894ء میں اس کا کورٹ مارشل ہوا تھا لیکن اس کی یاد اب بھی تعصبات کے شعلوں کو ہوا دیتی رہتی ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ تعصب ناانصافی کا باعث بنتا ہے۔ 
اس کی مختصر تفصیل یوں ہے کہ فرانسیسی فوج کی خفیہ ایجنسی Statistical Wing کے جرمن سفارت خانے میں ایک جاسوس تھی۔ اس نے اطلاع دی کہ فرانسیسی فوج کا افسر جرمنوں کوخفیہ فوجی راز فروخت کررہا ہے۔ یہ انکشاف ایسے موقع پر ہوا جب فرانس کو 1870ء میں جرمن فوج کے ہاتھوں شرمناک شکست ہوچکی تھی۔ اُس وقت بہت سوںنے الزام لگایا کہ فرانسیسی، یہودی جرمن فورسزکے ساتھ تعاون کررہے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پہلی جنگِ عظیم میں شکست کے بعد بہت سے جرمنوں نے یہودیوں کو اپنی شکست کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ اس کے بعد ہٹلر کاد ور شروع ہوا اور ہولو کاسٹ ۔۔۔۔۔ باقی تاریخ ہے۔ 
ڈرائیفس کا تعلق السک(Alsace) سے تھا اور اس صوبے کی سرحد جرمنی سے لگتی تھی۔ اس پر 1870ء میں جرمن فورسز نے قبضہ کرلیا تھا؛ تاہم ڈرائیفس اپنے اہلِ خانہ سے ملنے اکثر وہاں جاتا تھا۔ اس کا یہودی ہونا شبے کو تقویت دیتا تھا، اس لیے Statistical Wing کی نظروں میں آ گیا۔ اگرچہ اس کے خلاف ٹھوس ثبوت نہ مل سکے لیکن اس کا کھلے عام کورٹ مارشل کیا گیا۔ اُسے ''شیطانی جزیرے‘‘(Devil's Island) میں عمر قید کی سزادی گئی۔۔۔۔۔ اس جزیرے پر ایسے ہی قیدیوں کو رکھا جاتا تھا۔ اس کے اہلِ خانہ کو اُس کی بے گناہی کا یقین تھا، اس لیے سزا کے بعد بھی اُنہوںنے اس کی رہائی کے لیے مہم چلائی۔ یہ وہ وقت تھا جب نامور ناول نگار ایمی زولا (Emile Zola) نے اپنا مشہور آرٹیکل "J'accuse!" لکھا۔ اس مضمون میں اُنہوںنے ڈرائیفس کیس کی خامیوں اوراُس کے ساتھ روا رکھی جانے والی فوجی عدالت کی ناانصافی کو دلیری سے آشکارکردیا۔ آخرکار برطرف اور سزایافتہ افسرکو اپیل کو حق دیاگیا اور اس نے اپنی بے گناہی ثابت کردی اوراُسے پھر باعزت طور پر بری کر کے عہدے پر بحال کردیا گیا۔ بعد میں پتا چلا کہ اصل جاسوس کوئی اور تھا۔
یہ کیس ظاہر کرتا ہے کہ فرانسیسی معاشرے میں یہودی مخالف جذبات ہر دور میں موجود رہے ہیں۔اس سے ایک اور حقیقت بھی آشکار ہوتی ہے کہ انصاف کا نظام ناانصافی کا قلع قمع کرسکتا ہے۔ اس پسِ منظر میں فرانس کے دانشور اور سیاست دان یہودی مخالف مہم کو تشویشناک نظروںسے دیکھ رہے ہیں۔ پیرس انسٹی ٹیوٹ آف پولٹیکل سٹڈیز کے پروفسیر ڈومینک موسی کینیڈا کے مشہور اخبار ''گلوب اینڈ میل‘‘ میں لکھتے ہیں:''حماس کی طرف سے کیے جانے والے مزید حملے روکنے یا خطے میں عارضی 'سکون‘ قائم کرنے کے لیے اسرائیلی حکام کی طرف سے اپنائی جانے والی خوفناک حکمت ِعملی کے نتیجے میں ایک طرف بے گناہ فلسطینیوں کا خون بہہ رہا ہے یا اسرائیلی فوجی ہلاک ہورہے ہیں تو دوسری طرف دنیا بھر میں یہودی شہریوںکی جانوں کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ فرانس میں رہنے والے بہت سے یہودی اسرائیل سے گہری محبت تو رکھتے ہیں لیکن جو اسرائیل اس وقت کررہا ہے، اُنہیں اس پر سخت تشویش بھی ہے ‘‘۔ مسٹر موسی مزید لکھتے ہیں : ''مشرق ِو سطیٰ سے آنے والے بھیانک مناظر اور مسلمان اقلیتوںکی بڑھتی ہوئی بے چینی کو اجازت نہیں دینی چاہیے کہ وہ فرانس میں مذہبی رواداری کے ماحول کو خراب کردیں‘‘۔
دوسری جنگِ عظیم میں فرانس میں ہزاروں یہودیوںکو پکڑ پکڑ کرجرمنوں کے حوالے کیا گیااور جرمنوںنے اُنہیں عقوبت خانوں اور بدنام ِ زمانہ ''کنسنٹریشن کیمپس‘‘ میں بہت بے رحمی سے موت کے گھاٹ اتارا۔ اس بربریت کی یاد ابھی تک یورپی یہودیوں کے لیے ایک ڈرائونا خواب ہے اور وہ ہرگز نہیں چاہیں گے کہ اس کا عشر عشیر بھی کبھی دہرایا جائے۔ عملی طور پرنہ سہی، انٹر نیٹ کی دنیا میں ایسے جذبات موجزن دکھائی دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہٹلرکو خراجِ تحسین پیش کیا جارہا ہے، فیس بک کے صفحات یہودی مخالف جذبات سے لبریز ہیں۔ اسرائیل کے رویّے کے پیشِ نظر بڑھتی ہوئی یہ نفرت باعثِ تعجب نہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس میں یورپی یہودیوںکا کوئی قصور نہیں اور نہ ہی وہ غزہ پر اسرائیلی حملے کے ذمہ دار ہیں۔ جس طرح اسلامی ممالک میں رہنے والے عیسائی امریکی پالیسیوں پر اثر انداز نہیں ہوسکتے لیکن اُنہیں عراق اور افغانستان پر حملوں کے بعد نشانہ بنایا گیا، اسی طرح تل ابیب سے باہر رہنے والے یہودیوںکو بھی غزہ پر اسرائیلی جارحیت کا خمیازہ بھگتنا پڑرہا ہے۔ اس سے دوطرفہ نفرت بڑھ رہی ہے۔ 
جہاں تک اسرائیل کا تعلق ہے ،اس کے رہنما یہ سوچتے ہیں چونکہ ان کے خلاف دنیا بھر میں نفرت بڑھ رہی ہے، اس لیے اُنہیں اپنی عسکری قوت کو مزید بڑھانا اور ہمہ وقت کسی بھی صورتِ حال کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ وہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ دنیا بھر کے یہودیوں کے لیے نفرت بڑھتی گئی تواس سے پہلے کہ وہ کچھ دہرایا جائے جو جرمنی میں کیا گیا تھا ، ان کے لیے ایک محفوظ گھر(اسرائیل) موجود ہو۔ ہٹلر نے بھی طاقت حاصل کرنے کے لیے یہود مخالف جذبات کو اپنے مقصدکے استعمال کیا تھا۔ اس وقت جرمن معاشرے میں یہ بات عام پائی جاتی تھی کہ پہلی جنگِ عظیم میں ان کی شکست کی وجہ یہودی تھے۔ دنیا بھرکے معاشروں میں کسی گروہ کو شکست کا باعث قرار دے کر نفرت کا نشانہ بنانا بہت آسان ہے؛ چنانچہ اس مضمون میں ، میںنے صورتِ حال کے دونوں پہلو پاکستانی قارئین کے سامنے رکھنے کی کوشش کی ہے۔ تعصبات انصاف کاخون کردیتے ہیں اور پھر انسانی خون بہنے لگتا ہے۔ اس صورت ِ حال کا تدارک کرنے کے لیے معاملات کا کھلے ذہن سے جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔ اگر اس موجودہ افسوس ناک خونریز ی کاکوئی حل نکالا جانا ہے تو اس کے لیے غیر جذباتی اور معروضی سوچ اپنانا ہوگی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved