تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     04-08-2014

اصل بات یہ ہے

پاکستان کے حساس اداروں پر گزشتہ آٹھ دس برسوں سے کچھ زیادہ ہی کرم فرمائی کی جا رہی ہے ۔اس کی ایک ممکنہ وجہ جاننے کے لیے 14 فروری2006 ء کی شام لندن میں تصدیق کی گئی اس دستاویز کو سامنے رکھنا پڑے گا جس پر ایجوئر روڈ پر واقع رحمن ملک کی رہائش گاہ پر مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں محمد نواز شریف اور پیپلز پارٹی کی سربراہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے دستخط کیے تھے۔ اس میثاق جمہوریت میں دونوں جماعتوں کی جانب سے ایک اہم ترین شق رکھی گئی جس کے الفاظ یہ ہیں '' نیشنل سکیورٹی کونسل ختم کر کے وزیر اعظم کی پسند سے ایک نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر مقرر کیا جائے گا جو تمام حساس اداروں کی رپورٹس کو مانیٹر کرے گا۔‘‘ اسی معاہدے کی شق16 کے تحت متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ جب بھی ان دونوں میں سے کسی ایک کی حکومت بنے گی تو ''پاکستان کی موجودہ کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی کو ختم کر کے ڈیفنس کیبنٹ کمیٹی کے تحت ایک نئی نیو کلیئر کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی قائم کی جائے گی۔‘‘ شق32 کے تحت ''آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس وزیر اعظم سیکرٹریٹ اور کیبنٹ ڈویژن کے ماتحت کام کرے گی۔‘‘ ملک کی دونوں بڑی سیا سی جماعتوں کی طرف سے اس معاہدے پر دستخط کیے جانے پر بھارتی میڈیا اور اس کی سیا سی قیا دت کی طرف سے پر جوش خیر مقدم کیاگیا اور ان دونوں رہنمائوں کو مبارکباد بھی دی گئی۔
میثاق جمہوریت پر دستخط ہو جانے کے بعد2008 ء میں پہلے ملکی انتخابات منعقد ہوئے، جن کے نتیجے میں پنجاب میں نواز لیگ اور مرکز میں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی مشترکہ حکومت قائم ہو ئی ۔ان کا پہلا ہدف یہی قومی ادارہ تھا۔ ان کی جانب سے فیصلہ کرنے میں چند ماہ کی تاخیر ہو گئی تو25 جولائی2008 ء کو دنیا بھر کے میڈیا میں ایک عجیب و غریب قسم کی خبر نے سب کو چونکا دیا‘ جب بھارت کے مرکزی وزیر برائے توانائی وتجارت جے رام رامیش نے پاکستانی حساس ادارے کو بحیرۂ عرب میں غرق کرنے کا بیان داغ دیا اور اسی رات کیبنٹ ڈویژن کی طرف سے آئی ایس آئی کے ہاتھ پائوں باندھنے کا نوٹیفکیشن جا ری کر دیا گیا۔یعنی احکامات جاری کیے گئے کہ آج کے بعد یہ صرف رحمن ملک وزیر داخلہ کو جواب دہ ہو گی۔ اس کے لوگوں کی پوسٹنگ ،ٹرانسفر اور فنڈز کا تمام تر کنٹرول رحمن ملک یا جو بھی وزیر داخلہ ہو گا، کے پاس ہوگا۔ جونہی یہ خبر باہر آئی ،ملک کے با خبر حلقے حیران رہ گئے کہ اچانک یہ نوٹیفکیشن کیوں جاری کیا گیا؟ جس کے تحت اسے وزارت داخلہ کے سیکشن افسروں کی تحویل میں دیا جانا مقصود ہے ؟ ان احکامات کے تحت آئی ایس آئی کے اندرون اوربیرون ملک تمام اثاثے اور اس کے لیے کام کرنے والے تمام ایجنٹ وزیر داخلہ رحمن ملک کے تحت آ جانا تھے ۔یہ نوٹیفکیشن جاری کرانے والے پس پردہ کون لوگ تھے؟ یقیناوہی جنہیں24 مئی2008 ء دن دس بجے آئی ایس آئی کی طرف سے اطلاع دی گئی تھی کہ ایک سفید ٹویوٹا لینڈ کروزر جنوبی وزیرستان کی پہاڑیوں سے نکل رہی ہے جس میں پاکستان کے ایک ہزار سے زائد بے گناہ شہریوں اور تین سو سے زائد(اس وقت تک) فوج، ایف سی کے افسروں اور جوانوں کا قاتل بیت اﷲ محسود سوار ہے ۔آئی ایس آئی کی طرف سے امریکی سینٹرل کمانڈ اور سی آئی اے کو یہاں تک بتا دیا گیا کہ بیت اﷲمحسود اس وقت جنوبی وزیرستان کی پہاڑیوں میں اس رینج اور فریکوئنسی میں سفر کر رہا ہے۔ بار بار اپیل کی جاتی رہی کہ امریکی اپنے سیٹیلائٹ سے اسے نشانہ بنائیں لیکن امریکی ٹس سے مس نہ ہوئے اور محسود اپنے ٹھکانے پر پہنچ گیا‘ جہاں اس نے میڈیا سے بات چیت کے لیے کچھ منتخب لوگوں کو بلایا ہوا تھا ۔پریس کانفرنس کے بعد جب بیت اﷲ محسود واپسی کے لیے روانہ ہوا تو ایک بار پھر امریکیوں کو اس کی نقل و حرکت کی مکمل اطلاعات دی جانے لگیں لیکن امریکہ نے کوئی ایکشن نہ کیا۔ اس پر امریکہ سے سخت احتجاج کیا گیا۔ جنرل مشرف اس وقت صدر تھے۔ انہوں نے امریکیوں سے سخت
لہجے میں بات کی اور ساتھ ہی امریکیوں اور نیٹو کے لیے دی گئی سہولیات واپس لینے کی دھمکی دے دی ۔اس دھمکی کے دو دن بعد‘ کابل میں بھارتی سفارت خانے پر اچانک حملہ ہوگیا تو امریکی فوج کے چیئر مین جوائنٹ چیف آف سٹاف ایڈ مرل مائیکل مولن، سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر سٹیفن آر کیپ کے علاوہ بھارتی حکومت اور میڈیا جنرل مشرف اور ہمارے حساس اداروں کو سخت برا بھلا کہنے لگے۔ بہرحال انہیں دھمکانے کے لیے آرمی ہائوس پہنچنے والے امریکی جرنیلوں کو دو فلمیں دکھا ئی گئیں۔ایک فلم میں براہمداغ بگٹی کو نئی دہلی ایئر پورٹ سے بھارتی را کے سیف ہائوس تک جاتے دکھایا گیا تھا۔ ابھی مائیک مولن اور سٹیفن اس حملے سے سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ را کے افغانستان کے مشن ہیڈ کے ساتھ براہمداغ بگٹی کی ایک اور فلم دکھا دی گئی ۔امریکہ کو بتا دیا گیا کہ اب ثابت ہو چکا ہے کہ بیت اﷲ محسود امریکہ کا آدمی ہے جسے بھارت کی بھی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔ چند دن بعد اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی کو امریکیوں کی جانب سے فوری دورہ ٔ امریکہ کی دعوت دے دی گئی جوپی پی پی کی حکومت کے لیے بہت بڑی بات تھی لیکن ساتھ شرط رکھی گئی کہ آئی ایس آئی کا بندو بست کر کے آنا ہے ۔ جونہی گیلانی امریکی دورے کیلئے ان کی سر زمین پر اترے ،آئی ایس آئی کے پر
کترنے کے احکامات جاری کر دیے گئے ۔
ایک ایسا ادارہ جو پاکستان کے مفادات کے خلاف سرگرمیوں کو مانیٹر کرنے اور پھر ان سازشوں کا سد باب کرنے کے لیے دنیا کے مختلف کونوں میں پھیلا ہوا ہے، ایک ایسا ادارہ جو ملک کے اندر اور با ہر ملکی سلامتی کیلئے ہزاروں جگہوں پر آنکھیں، دماغ اور کان استعمال کر رہا ہے ،اسے لاوارث چھوڑ دینایا میدان میں کسی سینما کی سکرین کی طرح نصب کر دینا کسی طور بھی منا سب نہیں۔ یہ کوئی عام ادارہ نہیں بلکہ ملک کی سلامتی کے خلاف دشمن کے منصوبوں کو نا کام بنانے والی قوت کا نام آئی ایس آئی ہے ،لیکن کیا کیا جائے کہ اپنے پرائے سب‘ اسے ایک ہی لقمے میں نگلنے کیلئے بے تاب ہوئے جا رہے ہیں۔
اس کے بعد ان کا اگلا ہدف ملٹری انٹیلی جنس تھی ۔اسی میثاق جمہوریت میں لکھا گیا ہے کہ'' ملک کی سکیورٹی کے تمام اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کا مکمل کنٹرول جی ایچ کیو سے لے کر وزیر اعظم کی نگرانی میں دے دیا جائے گا۔‘‘ امریکی دورے اور آئی ایس آئی کے بارے نوٹیفکیشن کے چند روز بعد یکم اگست 2008ء کو آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کے اجلاس میں نیوکلیئر انرجی کے متعلق پاکستانی حکومت نے بھارت کے حق میں ووٹ دے دیا اور اگر کوئی چھ سال قبل کے قومی اخبارات دیکھنے کی زحمت کرے تو بھارت کو یہ ووٹ دینے کے بعدجناب نواز شریف نے ایسے ہی تو نہیں کہا تھا کہ''بھارت اور پاکستان کے درمیان ویزہ سسٹم ختم کر کے سرحدوں کو آمد و رفت کیلئے کھول دینا چاہیے ۔‘‘! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved