محمد بن عبداللہ ابن ابی عامر 938ء میں اندلس کے ایک یمنی عرب خاندان میں پیدا ہوا۔ بچپن سے ہی اولوالعزمی اور اپنی تعلیم میں غیر معمولی دلچسپی کی خصوصیات اسے دوسرے بچوں سے ممتاز کرتی تھیں۔ اس کی بلند فکری کا اندازہ یوں کرلیجیے کہ لڑکپن میں ایک روز وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ان کے اور اپنے مستقبل کے بارے میں بات کررہا تھا تو اسے اس کے ایک دوست نے فخر سے بتایا کہ اس کے تاجر باپ نے اسے اپنے ساتھ کام پر لگانے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ بہت جلد اپنے باپ کے ساتھ تجارتی سفر پر روانہ ہونے والا ہے۔ بات چلی تو تاجر کے بیٹے نے محمد سے پوچھا کہ وہ کیا بننا چاہتا ہے؟ 'وزیر اعظم‘، بغیر کسی توقف کے اس نے جواب دیا۔ اس کی سنجیدگی دیکھ کر اس کا دوسرا دوست اپنا قہقہہ ضبط نہ کرسکا اور ہنستے ہوئے کہنے لگا ، 'اگر تم وزیراعظم بن جاؤ تو میرا منہ کالا کرکے گدھے پر الٹا بٹھا کر قرطبہ کی گلیوں میں پھرانا‘ ، محمد نے غصے سے وعدہ کیا ،' ایسا ہی ہوگا‘۔ تاجر کے بیٹے نے اپنی ہنسی روکتے ہوئے فرمائش کی ،' کیا مجھے ملک التجار کاعہدہ مل جائے گا؟‘۔ اس نے اپنے دوست کو یقین دلایا کہ وقت آنے پر اس کی مطلوبہ عہدے پر تقرری کردی جائے گی۔ اپنے دوستوں کی طنزیہ ہنسی کے چرکے دل پر لے کر اس نے اندلس کے شاہی محل کے باہر عرضی نویسی شروع کردی۔ اپنی درخواستوں کے انداز بیان اور خوشخطی کی وجہ سے وہ بہت جلد اندلس کی بیوروکریسی کی نظروں میں آگیا اور اسے وزیراعظم کے دفتر میں بطور کلرک ملازمت مل گئی۔ یہاں سے اپنی غیر معمولی قابلیت اور شیطانی ذہانت کے بل پر اس نے اپنے آقا کو روندتے ہوئے
شاہی خاندان کی قربت حاصل کرلی۔ یوں بھی دسویں صدی عیسوی میں اندلس میں اموی خلافت کی مسند پر نااہل حکمرانوں کا راج تھا اور محلاتی سازشوںکا حصہ بنے بغیر کسی کا آگے بڑھنا ناممکن تھا۔ یہ ماحول محمد جو اب صرف ابن ابی عامر کہلاتا تھا، کے لیے سازگار ثابت ہوا۔ اس پر طرہ یہ کہ اس نے خلیفہ الحکم دوئم کی ایک عیسائی بیوی (ہشام دوئم کی والدہ )سے مراسم بھی پیدا کرلیے۔ انہی تعلقات کی بنیاد پر پہلے اسے کمسن ولی عہد کی جائداد کی نگرانی سونپی گئی اور پھر اسے قرطبہ کا قاضی مقرر کردیا گیا ۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ خود کو انصاف کا دیوتا ثابت کرنے کے لیے ابن ابی عامر نے ایک معمولی جرم میں سزا کے طور پر اپنے بیٹے کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ عوام کے دلوں میں اپنی جگہ بنا کر اس نے اپنی انصاف پسندی بھی عیش کوش خلیفہ کے قدموں پر نچھاور کردی اور بڑی سہولت سے اس کے مخالفین کو قانون کی ٹکٹکی پر کس دیا۔ الحکم دوئم کی وفات کے بعد اس کا دس سالہ بیٹا ہشام دوئم تخت پر بیٹھا تو اس کے تمام اختیارات ابن ابی عامر نے بطور حاجب (وزیراعظم ) استعمال کرنا شروع کردیے اور عملی طور پر خلیفہ کو اس نے یرغمال بنا لیا۔ یہاں سے ابن ابی عامر کے عروج اور بنو امیہ کے زوال کا آغاز ہوا۔ اس نے المنصور کالقب اختیار کرکے ربع صدی تک بلاشرکتِ غیرے اندلس پر حکومت کی اور اس کی موت کے صرف تین سال بعد بنوامیہ کی
خلافت ختم ہوگئی اور ملک ایک طویل خانہ جنگی کا شکار ہوگیا۔ مسلمان سپین میں محدود ہوتے چلے گئے اور آخرکار معدوم کر دیے گئے۔ یاد رہے کہ ابن ابی عامر نے لڑکپن کے جن دوستوں سے جو وعدے کیے تھے وہ من و عن پورے کیے۔ تاجر کے بیٹے کو ملک التجار بنا دیا اوردوسرے منہ پھٹ دوست کی خواہش کے مطابق اس کے چہرے پر سیاہی مل کر گدھے پر الٹا بٹھا کر قرطبہ کی گلیوں میں گھمایا۔
ابن ابی عامر کی وزارت عظمٰی کا یہ قصہ انٹرنیٹ پر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی ایک پرانی ویڈیودیکھ کر یاد آیا، جس میں ایک بھارتی ٹی وی کو انٹرویودیتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ 2008ء کے الیکشن میں میں خود کو بہتر پوزیشن میں دیکھتا ہوں جبکہ 2013ء کے الیکشن میں وزارت عظمٰی میرا مقدر ہوگی اور اپنی کامیابی کے بارے میں میرے ذہن میں کوئی ابہام نہیں‘۔ یہ ویڈیو نومبر 2006ء کی ہے یعنی آج سے تقریبََا آٹھ سال پہلے کی۔ بے شک عمران خان کی بلند حوصلگی کی داد دینی چاہیے کہ جب وہ جنرل پرویز مشرف کی بندوبستی اسمبلی میں خصوصی انتظام کے تحت اپنی جماعت کے واحدمنتخب رکن تھے، اس وقت بھی وہ اپنے روشن مستقبل کے بارے میںپر امید تھے۔ ان کی خودساختہ امید کے چراغ 2013ء میں تو اتنی لو دینے لگے تھے کہ انہوںنے الیکشن سے پہلے ہی مختلف مجالس میں کئی افراد کو مخاطب کرکے انہیں وفاقی وزارت سنبھالنے کی تیاریاں کرنے کی ہدایات بھی جاری کردی تھیں۔ کیا کسی کے دل میں موجود اقتدارکی غیرمعمولی خواہش اسے وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز کرنے کے لیے کافی ہے؟ خواہشات کے گھوڑوں پر فقیر تو سواری کرسکتے ہیں لیکن سیاستدانوں کو یہ زیبا نہیں کہ وہ اپنے ارمان نکالنے کے لیے عوامی حمایت کے مسلمہ جمہوری طریقوں کو نظر انداز کرکے، حکومت پر چند ہزار یا چند لاکھ نفوس کے ساتھ حملہ آور ہوجائیں اور اسے عوامی دباؤ کا نام دے کر ملک کے نظام کو معطل کرکے رکھ دیں۔ بے شک وزارت عظمٰی کی خواہش پالنا کوئی جرم نہیں لیکن دستور کو داؤ پر لگا کر اگر عمران خان چودہ اگست کے مظاہرے سے اپنے لیے اقتدار برآمد بھی کر لیں تو یہ عارضی ہوگا۔ اگر وہ دس لاکھ کا مجمع اسلام آباد میں لاکر عوامی مینڈیٹ کی دھجیاں اڑائیں گے تو ان کے(متوقع) مینڈیٹ کی ہنڈیا پھوڑنے کے لیے کوئی گیارہ لاکھ کا جلوس لے کر دارالحکومت میں واردہوگیا توازروئے 'انصاف‘ انہیں یہ فیصلہ بھی قبول کرنا ہوگا۔ اگر خان صاحب ووٹوں کی گنتی کی بجائے مجمعوں میں حاضری کی بنیاد پر فیصلے چاہتے ہیں توبسم اللہ، بس یہ ذہن میں رہے کہ ابن ابی عامر کی طرح خان صاحب تو شاید عظیم ہوجائیں ، یہ ملک اور اس کا نظام آندھیوں کی زد پر آجائیں گے۔
عمران خان ٹھیک کہتے ہیں کہ ان کی طرف سے نئے الیکشن کا تقاضا دستور کے دائرے کے اندر ہی آتا ہے لیکن یہ انہیں بھی معلوم ہے کہ الیکشن کے صرف ایک سال بعدایک اور الیکشن کا مطالبہ مان لیا جائے تو دستور کی چولیں ہل جائیں گی۔ دنیا بھر میں آئین میں دی گئی رخصتیں محض بحرانی کیفیت سے نکلنے کا راستہ فراہم کرتی ہیں، یہ کہیں نہیں ہوتا کہ ان رخصتوں کا فائدہ اٹھانے کے لیے بحران پیدا کردیا جائے۔ پاکستان کے آئین میں تو اس بات کی بھی گنجائش ہے کہ ہر تین ماہ بعد قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرا دیے جائیں اور 1990ء کی دہائی میں یہی کچھ تو ہوتا رہا لیکن ان حرکتوں سے آئین مضبوط نہیں کمزور ہوا۔ یہ ایک مسلمہ روایت ہے کہ آئین کی لچک کا فائدہ کم سے کم اٹھایا جاتا ہے، ورنہ یہ شریف الدین پیرزادہ جیسے جادوگروں کے ہاتھ میں موم کی ناک بن کر رہ جاتا ہے۔ عمران خان کو سمجھنا چاہیے کہ ہر بڑی عمارت میں صدر دروازے کے علاوہ ہنگامی اخراج کا راستہ بھی رکھا جاتا ہے، لیکن عام حالات میں کوئی ذی شعور اپنی آمدورفت کے لیے یہ راستہ استعمال نہیں کرتا۔ اب اگر کوئی ہنگامی راستے کی افادیت کو جانچنے کے لیے اپنے گھر کو آگ لگا دے تو اسے کیا کہہ سکتے ہیں۔