بھارت اور پاکستان کی حکومتوں نے سرحدوں کے آرپار جس طرح ذرائع ابلاغ کی ترسیل پر بندشیں لگا رکھی ہیں ، اس کی نظیر دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ حتیٰ کہ اسرائیل ، فلسطین اور کوریا کی حکومتوں نے بھی میڈیا کی ترسیل پر اتنی سخت پابندیاں کبھی نہیں لگائیں۔ایک جمہوری ملک اور آزاد میڈیا ہونے کے باوجود بھارت ،پاکستانی چینلوں کی براہ راست نشریات نیز اخبارات و جرائد کی ترسیل سے خائف ہے۔
تاہم، حال ہی میں اس منظر نامہ میں ایک خوشگوار تبدیلی یہ دیکھنے میں آئی کہ بھارت کے ایک بڑے میڈیا ادارہ ' زی گروپ‘ نے ایک نیا چینل' زی زندگی‘ کے نام سے شروع کیا ہے جس پرصرف پاکستانی ڈراموں کو نشر کیا جاتا ہے اور ایک قلیل مدت میں پاکستانی ڈراموں نے جو مقبولیت حاصل کی ہے، اس نے تفریحی دنیا میں یہاں ایک ہلچل مچادی ہے۔ بھارت میں ریاست جموں کشمیر کو چھوڑ کر تقریباً 8 کروڑ افراد مردم شماری میں مادری زبان اردو درج کرواتے ہیں(غیر سرکاری طور پر یہ تعداد11 کروڑ سے اوپر ہے، کیونکہ مردم شماری کا اسٹاف اکثر علاقوں میں لوگوں سے بغیر پوچھے خود ہی ان کی مادری زبان ہندی درج کرواتا ہے)۔ ان کے لیے تو یہ چینل ایک نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئی ہی ہے ، غیر اردو دان طبقوں میں بھی اس کو خوب پذیرائی مل رہی ہے اور خوب تعریفیں ہو رہی ہیں۔ ایک ہفتہ قبل میرے اپنے اخبار، جہاں میں کام کرتا ہوں، کی ایک ادارتی میٹنگ میں کئی ساتھیوں نے جو اردوزبان سے با لکل نابلد ہیں، پاکستانی ڈراموں کی تکنیک، زبان اور معیار کی ستائش کی۔ جنوبی بھارت کے ایک ساتھی پارسا وینکٹیشور راوٗ کا کہنا تھا کہ ان ڈراموں نے اس کو اردو زبان سیکھنے کی ترغیب دی ہے۔ تقریباً ڈیڑھ سال قبل مجھے زی گروپ کے چیئرمین سبھاش چندرا سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ وجہ یہ تھی کہ انگریزی کے جس کثیرالاشاعت اخبار کے لیے میں کام کرتاہوں، وہ بھی زی گروپ
کاہی حصہ ہے۔ مجھے اخبار کے قومی بیورو چیف کی ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں۔ مگر شرط یہ تھی کہ اس پر توثیق گروپ کے چیئر مین سبھاش چندرامجھ سے انٹرویو لینے کے بعد کریں گے۔تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک جاری انٹرویو میں مسٹر چندرا نے پاکستانی میڈیا کا بھی ذکر چھیڑا۔ پاکستانی ڈراموں کا موازنہ بھارتی ٹی وی سیریلوں اور سوپ اوپیرا سے کیا۔ ان کا اعتراف تھا کہ بھارتی سیرئیلوں کی کہانی خاصی کمزور ہوتی ہے، اور شیطان کی آنت کی طرح ختم ہونے کا نام بھی نہیں لیتی ہے۔ اکثر پروڈیوسر حضرات کہانی بس کھینچتے ہیں،جبکہ پاکستانی ڈراموں کی کہانی خاصی جاندار ہوتی ہے اور کامیڈی بھی ایسی ہوتی ہے جو موجودہ سیاسی اور معاشرتی مسائل کااحاطہ کرتی ہے اور سب سے زیادہ سود مند یہ ہے کہ ایک فیملی ساتھ بیٹھ کر ان کودیکھ سکتی ہے۔ بھارت میں کامیڈی کا مطلب ہی فحش گوئی اور شہوانیت زدہ فقرہ بازی ہے۔میں نے مسٹر چندرا سے کہا کہ پا کستان میں تکنیکی وسائل بھارت کے مقابلے میں قلیل ہیں مگر وہاں کہانی کاروں کے تخیل کی پرواز کا فی اونچی ہے،اورڈراموں کو زندگی کی حقیقتوں سے قریب لانے میں اداکاروں اور پروڈیوسروں سے زیادہ رائٹروں کا رول ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھارت میں چاہے ہندی ہو یا اردو، محی الدین نواب، امجد اسلام امجد، ایم اے راحت، معراج رسول، کاشف زبیر اور اس قبیل کے دیگر ادیبوںکا کوئی ہم پلہ نہیں ہے۔ان کا اگلا سوال تھا کہ دونوں ملک اب زبان اور کلچر کے لحاظ سے خاصے دور ہوچکے ہیں۔پاکستانی ڈرامے کیا یہاں پذیرائی حاصل کرپائیں گے؟ میں نے انہیں کہا کہ یہ رسک لیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ میڈیا فاصلوں کو مٹا سکتا ہے اور عوام کو ایک
دوسرے سے روشناس کرانے میں معاون کا کردار ادا کرسکتا ہے۔
اس سال مئی کے اواخر میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے جب نواز شریف دہلی تشریف لائے تو سبھاش چندرا نے ان کی موجودگی کا فائدہ اٹھا کر ان سے 'زی زندگی‘ کا علامتی افتتاح کروایا، کیونکہ چینل کی باضابطہ لانچنگ کی تاریخ جون میں مقرر کی گئی تھی۔جس طرح اس چینل کو یہاں پذیرائی حاصل ہورہی ہے، لگتا ہے کہ نواز شریف کے لیے اسے بھارت کے دورے کی سب سے بڑی کامیابی تصور کیا جائے گا۔گو ابھی چند ہی ڈرامے اس چینل سے نشر ہورہے ہیں اور ابھی تک پاکستانی کامیڈی کا کوئی پروگرام ٹیلی کاسٹ نہیں ہوا ، مگر اس قلیل مدت میں پاکستانی ذرائع ابلاغ نے قلیل وسائل کے باوصف بھی یہاں لوہا منوالیا ہے۔
پاکستانی ڈرامے وادیِ کشمیر میںبھی ناظرین، خاص کر خواتین میں مقبول عام ہو رہے ہیں۔ کشمیر کے ایک مقامی اخبار نے اس سلسلے میں عوام و خواص سے با ت کی تو بتایا گیا کہ پاکستانی سیرئیلز ایک نئی تازگی کا احساس دلاتے ہیں جبکہ بھارت میں جو سیرئیل تخلیق کیے جاتے ہیں وہ سال در سال چلتے ہوئے اپنا تسلسل کھو دیتے ہیں۔وادیِ کشمیر کے معروف فلم ساز اور ہدایت کار مشتاق علی احمد خان کا کہنا ہے کہ موضوع کے اعتبار سے پاکستانی ڈرامے مجموعی طور غیر روایتی اور موجودہ صورتحال کے عین مطابق ہو تے ہیںجو ڈرامہ کے تئیں ناظرین کی کشش برقرار رکھنے میں کامیاب ہو تے ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ طویل قسطوں میں تاریخی واقعات کو اگر فلمایا جائے تو موضوع متاثر نہیں ہو گا لیکن اس کے بر عکس جب آپ انسانی معاشرے کی نجی کہانیوں کو سال در سال نشریات میں لائیں گے ‘ جیسا کہ فی الحال بھارت میں روایت دیکھنے کو مل رہی ہے ‘ تو اس کی روح یقینی طور متاثر ہو گی اور وہ ناظرین میں کشش پیدا نہیں کرسکتی۔اداکار اختر حسین کا کہنا تھا کہ سماجی مسائل یا نجی زندگی کے حالات و واقعات پر مبنی پاکستانی ڈرامہ سلسلہ وار مختصر قسطوں پر مشتمل ہو تے ہیںاور وہ شروع سے لے کر آخر تک ناظرین کی توجہ کو کہانی سے ہٹنے نہیں دیتے۔ مثال دیتے ہو ئے انہوں نے کہا کہ 'زی زندگی‘ سے 'زندگی گلزار ہے‘ کی ہر روز ایک قسط پیش کی جا رہی تھی اور یہ محض 26دنوں میں کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا اور کشمیر میں سنجیدہ طبقہ نے بھی اسے سراہا۔ کشمیری خواتین سے جب اس بارے میں پو چھا گیا تو انہوں نے کہا کہ بھارتی سیرئیلز ٹی وی کے مختلف چینلوں پر بھرے پڑے ہیں لیکن، ان کے باوجود ''زندگی گلزار ہے‘ ‘ یا خواتین کے مسائل پر مبنی ڈرامہ'' کتنی گر ہیں باقی ہیں‘‘ کی کامیابی ثابت کرتی ہے کہ ڈرامہ ان سب سے ہٹ کر ہے ۔ اس کے کردار سب سے الگ اور جیتے جاگتے محسوس ہوتے ہیں اور اردو زبان کے مکالمے نہایت جان دار ہیں اور دوسری بات یہ کہ کہانی کشمیر کے مسلم معاشرے سے ہم آہنگ ہوتی ہے ۔
قصہ مختصر یہ کہ پاکستانی حکومت اور میڈیا کے ذمہ داروں کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہے اور ان کو اب اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ بھارتی فلموں اور کلچر کی یلغار کو روکنے اور اس کا توڑ کرنے کے لیے ان کے پاس موثر ہتھیار ہے اور وہ ایک حقیقت سے قریب تہذیب کے مالک ہیں۔ بھارت کے عوام خاص طور پر اردو داں طبقے تک پہنچنے کے لیے جس طرح کے بھی اقدامات کی گنجائش ہو ، کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ اور اس کے لیے اگر حکومت پاکستان کو بھارتی میڈیا کے بارے پالیسی نرم بھی کرنی پڑے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بھارتی سیرئیلوں سے تو بھارتی ناظریں ہی اُوب چکے ہیں، وہ پاکستانی ڈراموں اور سیرئیلوں کو کیا کمپیٹشن دے سکیں گے۔ پاکستان کو واقعی اپنے رائٹروں پر فخر ہونا چاہیے اور بجا طور پر ان کو سہولیات فراہم کرکے، بھارت اور پاکستان کے عوام کے بیچ ایک پل کا کام کرانے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
دوسری طرف یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ بھارت کا کارپوریٹ سیکٹر اور اشتہاری دنیا 'زی زندگی ‘کی کامیابی کو کس نگاہ سے دیکھے گی۔ بھارت میں چاہے اخبار ہو یا چینل، کور پرائس یا صارفین کی پیمنٹ پر نہیں، بلکہ اشتہاروں کے دم سے چلتے ہیں۔اسی لیے بھارت میں اخبارات کی قیمتیں پاکستان کے مقابلے میں خاصی کم ہوتی ہیں۔یہی حال ٹی وی چینلوں کا بھی ہے۔آخر یہ کارپوریٹ شعبہ پاکستانی ڈراموں اور اس کے ذریعے اردو زبان کی ترویج کو کس حد تک برداشت کرپائے گا؟۔' زی زندگی‘ کی وجہ سے پاکستانی اداکاروں کوبھارتی شوبز کی طرف سے آفرز آسکتی ہیں، مگر ان کو یہ بات ذہن نشین کرنی چاہے کہ احساس کمتری میں مبتلا ہونے اور بھارتی کلچر میں ضم ہونے کے بجائے وہ یہاں پاکستانی روایات کے سفیر اور امین بن کر آئیںاور اپنے کلچر اور زبان کو نہ صرف متعارف کروائیں، بلکہ ا خلاق و کردار سے دونوں ملکوں کے عوام کے دلوں کوبھی جوڑیں۔