تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     05-08-2014

جان محمد کی ای میل اور خادم اعلیٰ کی ڈانٹ پھٹکار

پاک مائی کے قدیمی قبرستان میں میرا آبائی احاطہ ہے۔ جس میں میرے خاندان کی پانچ نسلیں مدفون ہیں۔ میری ماں کے قدموں میں ایک قبر کی جگہ خالی پڑی ہے۔ دنیا میں جنت کا یہ ٹکڑا میرے لیے خالی چھوڑا گیا ہے۔ میرے مالک کی رحمت شامل حال رہی تو یہ عاجز اس خالی جگہ پر مٹی اوڑھ کر سونے کی سعادت حاصل کرے گا۔ میرا ماضی ، حال اور مستقبل ملتان کی مٹی سے جڑا اورگندھا ہوا ہے۔ ملتان نام کا ایک شہر ایران میں بھی ہے جہاں گرمی میرے ملتان جیسی پڑتی ہے مگر وہاں انور رٹول اور چونسا آم نہیں ہوتے۔ وہاں سرائیکی نہیں فارسی بولی جاتی ہے مگر فارسی کا یہ شعرمیرے ملتان کے لیے ہے ؎
ملتان ما بہ جنتِ اعلیٰ برابر است
آہستہ پا بنہ کہ ملک سجدہ می کند
آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ مجھے ملتان کیوں عزیز ہے؟ یہاں میرا دل ھڑکتا ہے۔ مجھے اس کے ذرے ذرے سے پیار ہے اور میں اسے اپنی آئندہ نسلوں کے لیے اپنے خوابوں کی طرح خوبصورت دیکھنا چاہتا ہوں۔ ایک جنت نظیر شہر کے طور پر۔
مجھ سے جب کوئی یہ کہتا ہے کہ تم ملتان چھوڑ کر لاہور یا اسلام آباد آجائو تو میں محض ہنس دیتا ہوں ۔ بارہا ایسا ہوا کہ مجھے بڑی اچھی مالی آفر کی گئی مگر میں نے ملتان چھوڑنے سے انکار کردیا کہ میں اس فالتو پیسے سے وہ کچھ نہیں خرید سکتا جس سے میں ملتان چھوڑ کر محروم ہوجائوں گا۔ ملتان ایسا شہر ہے جس میں بڑے شہروں والی ساری خوبیاں تو ہیں مگر خرابیاں نہیں ہیں۔ ایسا دوسرا شہر ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل سکتا۔ اب بھلا اس کو برباد ہوتے کیسے دیکھا جاسکتا ہے؟
لاہور ملتان سے بہت بڑا شہر ہے۔ میرا مطلب ہے اب بہت بڑا ہے۔ کبھی یہ شہر ملتان کے قریب ایک بڑے قصبے کے طورپر جانا جاتا تھا، لیکن ہمیں تاریخ کا پہیہ الٹا چلانے سے کوئی غرض نہیں۔ بس ہماری غرض تو اتنی ہے کہ ملتان جیسا بھی ہے خوب ہے اور اسے خوب تر بنایا جائے نہ کہ برباد کیاجائے ۔ لاہور اب ملتان سے کئی گنا بڑا شہر ہے۔ بحریہ ٹائون سے ڈی ایچ اے فیز نائن جائیں تو اتنی دیر میں ملتان کے ساڑھے سات چکر لگائے جاسکتے ہیں۔ گجومتہ سے شاہدرہ جانے میں کار پر جتنا وقت لگتا ہے اتنے وقت میں آپ ملتان کے آخری سرے سے خانیوال پہنچ جاتے ہیں۔ لاہور میں میٹرو کا روٹ ستائیس کلومیٹر طویل ہے، پنڈی اور اسلام آباد ملاکر 30کلو میٹرلمبا ہے جبکہ ملتان میں یہ روٹ 37کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ کل ملتان پر محیط پہلا تخمینہ تیس ارب روپے ، دوسرا تخمینہ اکتالیس ارب روپے اور حقیقی تخمینہ ساٹھ ارب سے زائد ۔ آدھے شہر کی کمرشل اراضی خریدنے پر اتنا ہی خرچ آتا ہے۔ ساٹھ ارب روپے میں ملتان پیرس نہ سہی ،پیرس کا بچونگڑا ضرور بن سکتا ہے۔
میں نے اپنے گزشتہ کالم میں لکھا کہ میرے ماہر نفسیات دوست کا کہنا ہے کہ میٹرو ، موٹروے اور پیلی ٹیکسیاں وغیرہ یہ سب میاں صاحبان کے لاشعور میں کسی ناآسودہ خواہش کی طرح پھنسی ہوئی ہیں۔ وہ شاید ٹرانسپورٹر بھی بننا چاہتے تھے۔ دیگر کاروباروں کی طرح ٹرانسپورٹ کا بزنس بھی کرنا چاہتے تھے مگر کسی وجہ سے نہ کرسکے ۔ اب اپنے لاشعور میں بیٹھی ہوئی اپنی اس ناآسودہ خواہش کی تکمیل کے لیے ہماری اور آپ کی ٹیکس کی رقم سے رانجھا راضی کرنا چاہتے ہیں۔ اس بات پر ایک ناراض قاری کی بڑی سخت ای میل آئی ہے۔ جان محمد نے مجھے پنجابی ہونے کا طعنہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ میں پنجابی ہونے کے ناتے پنجابی حکمرانوں کی کرپشن کو نفسیاتی معاملات میں لپیٹ کر دراصل ان کے جرائم کو چھپانے کا مرتکب ہورہا ہوں اور ادھر ادھر کے معمولی الزامات لگاکر ان کے اصل جرائم کی پردہ پوشی کررہا ہوں ۔ جان محمد کا کہنا ہے کہ یہ سارا 
معاملہ کرپشن کاہے ،کمیشن کا ہے اور مال پانی بنانے کا ہے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ یہ بات صرف جان محمد ہی نہیں کہہ رہا ،مخلوق خدا کی اکثریت کہہ رہی ہے۔ مجھے نہیں پتا ملتان میٹرو منصوبے سے حکمران کس طرح کمیشن کھا سکتے ہیں مگر زمین کی خریداری پر مامور لوگوں کی باتیں کھلی پڑی ہیں۔ اربوں کی خریداری میں ہونے والے گھپلے کروڑوں میں نہیں ہوا کرتے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ملتان کو میٹرو بس کی ضرورت ہے؟ اس کا جواب ہے کہ ہرگز نہیں۔ میں سارا دن ملتان میں سڑکیں ناپتا ہوں، مخلوق خدا کو ملتا ہوں اور عام آدمی سے رابطہ رکھتا ہوں۔ مجھے خدائے واحد کی قسم ہے کہ ایک بھی شخص ایسا نہیں ملا جو اس پروجیکٹ کا مخالف نہ ہو۔ حتیٰ کہ اس پروجیکٹ پر کام کرنے والے صاحب ضمیر سرکاری افسر بھی۔ ہاں اسے آپ میری بے ایمانی کہہ لیں کہ میں نے ان پٹواریوں ، کلکٹروں اور تحصیلداروں سے رائے نہیں لی جنہوں نے اس پروجیکٹ کے لیے زمین کی خریداری کرنی ہے۔ مسلم لیگ کے وہ لیڈر بھی درون خانہ اس پروجیکٹ کے خلاف بولتے ہیں جو روزانہ اخبارات میں اس مجوزہ پروجیکٹ کی شان میں قصیدہ کہتے ہیں۔ اب ان افسروں اور لیگی لیڈروں کے نام کیا لکھوں ؟ یہ صحافتی اقدار کے منافی ہے کہ آف دی ریکارڈ گفتگو کرنے والوں کا نام لیاجائے لیکن اگر یہ نام خادم اعلیٰ کے کانوں میں پڑ جائیں تو خادم اعلیٰ کا غصے سے کلیجہ پھٹ جائے۔
میں نے سوال کیا کہ آخر کیا بات ہے کہ ملتان کی سیاسی قیادت وزیراعلیٰ کے سامنے زبان نہیں کھولتی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ عوامی نمائندے عوامی حکمران کو عوام کے جذبات سے آگاہ نہیں کرتے ؟ عام آدمی کا تاثر تھا کہ خادم اعلیٰ کسی کی سنتے نہیں۔ جو بات ٹھان لیں بس اس کی تکمیل چاہتے ہیں۔ ہر حالت میں۔ میں نے کہا وہ جو مرضی کریں جو چاہیں کریں مگر ان کو اصل بات تو بتانی چاہیے، انہیں حقیقت سے تو آگاہ کرنا ضروری ہے۔ انہیں یہ بات تو معلوم ہونی چاہیے کہ مخلوق خدا ان کے منصوبے سے ہرگز متفق نہیں۔ ملتان میں میٹرو کی نہیں دیگر چیزوں کی زیادہ اور فوری ضرورت ہے۔ سینی ٹیشن کا مسئلہ ہے ۔ بارش کے بغیر بھی شہر کے بہت سے حصے گندے پانی میں ڈوبے رہتے ہیں۔ پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ زیر زمین پانی آلودہ ہے اور ڈیڑھ سو فٹ تک ناقابل استعمال ہے۔ پینے کے قابل نہیں ۔ سیوریج کے پانی کی باقاعدہ ڈسپوزل کا مسئلہ بڑا گمبھیر ہے۔ اندرون شہر چلنا مشکل ہے۔ ملتان میں ٹریفک کا مسئلہ جہاں خراب ہے وہ میٹرو کے روٹ سے کوسوں دور ہے اور جہاں میٹرو چلانے کا منصوبہ ہے وہاں سرے سے ٹریفک کا اور ٹرانسپورٹ کا کوئی مسئلہ نہیں ۔ ملتان کے مسائل میں ہسپتالوں کی کمی کا مسئلہ بڑا اہم ہے۔ ملتان شہر سے باہر ایک نہایت شاندار ہسپتال کی عمارت تیار کھڑی ہے مگر خادم اعلیٰ کی اس پر نظر نہیں پڑرہی۔ اس تکمیل شدہ عمارت میں صرف مشینری ، آلات اور میڈیکل سٹاف آجائے تو اردگرد کے دیہاتی علاقوں سے آنے والے مریضوں کا دبائو نشتربرکم کیاجاسکتا ہے جو اس علاقے کا واحد ہسپتال ہے اور مریضوں کے بے پناہ دبائو کا شکار ہے۔ یہ عمارت صرف اس لیے بیکار کھڑی ہے کہ اس کا منصوبہ چودھری پرویز الٰہی کے دور میں منظو ہوا تھا ۔ برن سنٹر گزشتہ سات سال سے خادم اعلیٰ کی نظر کرم کا منتظر ہے ۔ چودھری پرویز الٰہی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا تو نام ہی ایسا ہے کہ خادم اعلیٰ کی طبیعت سن کر ہی مکدر ہوجاتی ہے۔ اس کے ساتھ ملحقہ شیش محل کلب ملتان کا واحد سپورٹس کلب تھا جسے گراکر میدان بنادیاگیا۔ اسے گراتے وقت کہا گیا کہ اسے کارڈیالوجی انسٹی ٹیوٹ میں شامل کرکے اس کی توسیع کی جائے گی۔ آج پانچ سال سے زائد ہوگئے ہیں مگر اس خالی زمین پر ایک اینٹ بھی نہیں لگائی گئی۔ سامنے چار ستارہ ہوٹل والے اپنے مہمانوں کی گاڑیاں اس پارکنگ میں کھڑی کرتے ہیں۔ نہ کلب رہا اور نہ دل کے امراض کے اس ہسپتال میں توسیع ہوئی۔یہاں ٹریفک اور ٹرانسپورٹ کا بنیادی مسئلہ صرف دو چیزوں سے حل ہوسکتا ہے۔ پہلا یہ کہ ملتان رنگ روڈ جو آدھی بنی ہوئی ہے مکمل کردی جائے اوراندرون شہر سرکلر روڈ کو کھلا کردیاجائے ۔ کوئی شریف آدمی اندرون شہر گاڑی نہیں لے جاسکتا مگر خادم اعلیٰ میٹرو پر بضد ہیں۔ یہ ملتان والوں کی ضرورت نہیں تو حکمران اس پر بضد کیوں ہیں ؟لگتا ہے جان محمد ٹھیک کہتا ہے۔
میں نے یہ سب کچھ کہنے کے بعد پھر پوچھا کہ آخر ملتان کے نمائندے خادم اعلیٰ کے سامنے حقائق کیوں بیان نہیں کرتے ؟ ایک واقف حال کہنے لگا تمہیں اصل بات کوئی نہیں بتائے گا۔ جب اس مسئلے پر سرکٹ ہائوس میں مشاورتی میٹنگ ہوئی تھی تب ایک شکست خوردہ مسلم لیگی ایم این اے نے اس منصوبے کے خلاف بات کا آغاز ہی کیا تھا کہ خادم اعلیٰ نے اس کی ایسی طبیعت صاف کی کہ باقی سب کو کان ہوگئے۔ اس کی سرعام تذلیل نے وہاں موجود دیگر لوگوں کا قبلہ فی الفور سیدھا کردیا اور سب نے سچ بولنے سے توبہ کرتے ہوئے خادم اعلیٰ اور اس منصوبے کی شان میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے شروع کردیے۔ تمہیں تو پتا ہی ہے کہ ہم لوگ ویسے ہی مدح سرائی میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں ،اوپر سے ڈانٹ پھٹکار ہوئی ہو تو ہماری کارکردگی کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ اب تم یہ بتائو ہم لوگ کیا بولیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved