تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     06-08-2014

کتبے

شمس الرحمن فاروقی 
حافظہ بیحد کمزور تھا۔ ایک دن سانس لینا ہی بھول گئے۔ چونکہ ان کے انتقال میں مشیتِ ایزدی شامل نہیں تھی اور یہ ان کا اپنا ہی کیا دھرا تھا اور روح کو ایصالِ ثواب کی بھی زیادہ سے زیادہ ضرورت تھی‘ اس لیے نمازِ جنازہ محمد عمر میمن کی اقتدا میں دوبار پڑھی گئی جو ساتھ ساتھ اس کا ترجمہ بھی کرتے جاتے تھے۔ مرثیہ احمد مشتاق نے لکھا اور قلم توڑ کر رکھ دیا؛ چنانچہ اس ٹوٹے ہوئے تاریخی قلم کو فوری طور پر نیشنل آرکائیوز میں محفوظ کر لیا گیا۔ گوپی چند نارنگ نے اپنے تعزیتی پیغام میں اسے ادب کے لیے ایک سانحۂ عظیم قرار دیا اور کہا کہ ''ان کی کمی تین چار سال تک محسوس کی جائے گی‘‘۔ 
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا 
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا 
جمیل الدین عالیؔ 
کئی بار فرشتۂ اجل کو پیغام بھیجا کہ وہ اس دنیائے دنی سے مکمل طور پر بیزار ہو چکے ہیں‘ اور آ کر ان کا کام تمام کر دے لیکن وہ ہر بار متامل رہا کہ ابھی ملک و قوم کو آپ کی ضرورت ہے۔ پھر ایک بار یہ عذر پیش کیا کہ کم از کم اپنی سنچری تو مکمل کر لیں۔ آخر ان کے بیحد اصرار پر فرشتے نے آ کر یہ ناگوار فریضہ بھاری دل کے ساتھ ادا کردیا۔ نمازِ جنازہ گورنر ڈاکٹر عشرت العباد نے پڑھائی اور مرثیہ ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے اپنے مخصوص ترنم میں پڑھ کر سنایا۔ ابھی نصف تک ہی پہنچے تھے کہ روتے روتے گھگی بندھ ہو گئی جو ہزار کوشش کے باوجود نہ کھلی تو باقی کا حصہ پروفیسر سحر انصاری نے سنایا۔ الطاف بھائی نے لندن سے اپنے تعزیتی پیغام کے ساتھ متعدد آہیں‘ سسکیاں اور دھاڑیں بھی ارسال کیں۔ 
قدسیؔ و شیفتہ اب مرثیہ کہویں شاید 
مر گیا غالبِ آشفتہ نوا کہتے ہیں 
کشور ناہید 
آخری عمر میں دن رات کتابیں پڑھنے میں جُتی رہیں تاکہ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں اپنا نام سب سے زیادہ کتابیں پڑھنے والی خاتون کے طور پر درج کروا سکیں۔ ان میں کئی بہت بور کتابیں بھی شامل ہوتیں۔ حتیٰ کہ ابوالحسن نغمی کی ایک کتاب اس اونٹنی کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوئی۔ ان کی یہ خواہش تو پوری نہ ہو سکی‘ البتہ کثرتِ مطالعہ سے انتقال کرنے والی پہلی خاتون کے طور پر ان کا نام اس کتاب میں ضرور شامل ہو گیا۔ چیئرمین اکادمی ادبیات کی عدم موجودگی کے باعث نمازِ جنازہ محمد عاصم بٹ نے پڑھائی۔ وصیت کے مطابق مذکورہ کتاب قبر کے سرہانے رکھ دی گئی تاکہ آتے جاتے درسِ عبرت حاصل کریں۔ مرثیہ اکبر ناطق نے لکھا جو عوام میں بیحد مقبول ہوا اور موصوف کو اس پر کسی ایوارڈ کے ملنے کی بھی پوری پوری امید ہے۔ حکومت کی طرف سے سوگ کا اعلان متوقع ہے۔ 
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں 
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں 
ڈاکٹر فاطمہ حسن 
انجمن ترقی اردو کی سربراہ مقرر ہونے پر لوگوں نے انہیں مولوی عبدالحق کہنا شروع کردیا‘ حتیٰ کہ یہ ان کی چِڑ بن کر رہ گیا۔ اچھی بھلی تھیں کہ غلطی سے گھر کے اس کمرے میں چلی گئیں جس میں کچھ عرصہ پہلے ڈاکٹر ستیہ پال آنند چند روز کے لیے مہمان ٹھہرے تھے اور جو آسیب زدہ ہو گیا تھا اور اس کمرے کو مستقل طور پر بند کردیا گیا تھا۔ بس‘ پھر یہ ہوا کہ گھروالوں نے ایک دلدوز چیخ کی آواز سنی اور یہ قصہ اس طرح تمام ہوا۔ غالباً وہاں ڈاکٹر موصوف کا کوئی بھوت موجود تھا جسے اصولی طور پر انہیں جاتے ہوئے ساتھ لے جانا چاہیے تھا۔ نمازِ جنازہ سے پہلے حاضرین کو سابق سربراہ انجمن جمیل الدین عالی کے دوہے پڑھ کر سنائے گئے۔ 
در و دیوار پہ حسرت کی نظر کرتے ہیں 
خوش رہو اہلِ وطن ہم تو سفر کرتے ہیں 
ناصر زیدی 
انتقال کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی ماسوائے اس کے کہ سخت سردی کا موسم تھا۔ میت کو ٹھنڈے پانی سے غسل دیا جا رہا تھا کہ کپکپاتے ہوئے اٹھ کر بیٹھ گئے۔ گھروالوں نے خوشی منائی۔ لیکن اس کے بعد زیادہ دن تک زندہ نہ رہے ۔ دوسری بار احتیاطاً نیم گرم پانی سے غسل دیا گیا تاکہ کہیں پھر نہ اُٹھ بیٹھیں۔ نمازِ جنازہ چودھری قدرت اللہ نے پڑھائی اور اپنی تقریریں حاضرین کو مرحوم کی محققانہ خدمات سے خوفزدہ کیا۔ ناصر بشیر نے مرثیہ لکھا جس پر انہیں اخبار سے فارغ کردیا گیا۔ صحافی برادری نے اطمینان قلب کا مظاہرہ کیا کہ مرحوم نے نہایت مناسب وقت میں انہیں داغ مفارقت دیا۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ 
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا 
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا 
نذیر ناجی 
عہدِ شباب میں شائع ہونے والے اپنے اکلوتے مجموعہ کلام کا مطالعہ کر رہے تھے کہ جیسے حسین و جمیل یادوں کی ایک فلم سی چل پڑی۔ ابھی اس کا انٹرول بھی نہ ہوا تھا کہ دل پر اداسی کا بوجھ محسوس کیا۔ آخر اسی اضطراب اور دلی گرفتگی کے عالم میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ نمازِ جنازہ ہارون الرشید نے پڑھائی جس کے بعد ایک ولولہ انگیز تقریر میں اُس گھڑ سوار مجاہد کا قصہ تفصیل سے بیان کیا جو دریائے آمو پار کر کے اپنی منزلِ مقصود میاں والی آ پہنچا تھا اور آج کل مارچ اور دھرنوں میں مشغول ہے۔ اس کے بعد موصوف نے موقع کی مناسبت سے حُزنیہ اشعار بے وزن پڑھے۔ مرثیہ اسلم کولسری نے لکھا۔ چیف ایڈیٹر نے مرحوم کا مجسمہ بنوا کر اخبار کے دفتر کے سامنے نصب کرنے کا اعلان کیا۔ 
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جائوں گا 
میں تو دریا ہوں، سمندر میں اُتر جائوں گا 
فخریہ پیشکش 
اپنے مُردوں کو گھر جیسی سہولیات مہیا کرنے کے لیے ہمارے قبرستان کا رُخ کریں۔ قبر تسلی بخش حد تک کشادہ ہوگی تاکہ مردہ اگر چاہے تو اُٹھ کر بیٹھ بھی سکے‘ نیز سوال جواب کرنے والے فرشتوں کے بیٹھنے کے لیے بھی وافر جگہ موجود ہوگی۔ خصوصی آرڈر پر قبر کو ایئرکنڈیشنڈ بھی کیا جا سکتا ہے جبکہ قبر کو ہوادار بنانے کا انتظام بھی دستیاب ہے۔ سوال جواب کی سہولت کے لیے مُردے کی قبل از وقت تربیت کا اہتمام بھی کیا جا سکتا ہے‘ حتیٰ کہ مُردے اور لواحقین کے لیے شکایت کا کوئی موقع نہیں چھوڑا جاتا۔ ایک بار خدمت کا موقع دیں۔ آزمائش شرط ہے۔ پہلے آئو‘ پہلے پائو۔ 
المشتہر: مثالی قبرستان‘ نزد رِنگ روڈ لاہور 
آج کا مقطع 
اتنے چہروں میں اسے ڈھونڈ ہی لیتے آخر 
کیا ضروری تھا، ظفرؔ اس کو صدا بھی دینا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved