تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     06-08-2014

اور اب وہ ملک دشمن ہوگیا؟

منہاج القرآن فائرنگ ٹربیونل میںدیئے گئے وزیر اعلیٰ پنجاب کے بیان حلفی کے مطابق انہیں تو ٹی وی دیکھ کر پتہ چلا کہ وہاں کوئی مسئلہ ہے۔ وزیر اعظم کے گھر رائے ونڈ کے باہرٹرانسفارمر پھٹنے سے دو بچوں کی ماں کی ہلاکت پر عمار چوہدری کے کالم کے حوالے سے ''دنیا‘‘ ٹی وی پر انیق ناجی کے پروگرام ''تلاش ‘‘ میں اس ماں کے معصوم بیٹے سے جب پوچھا گیا کہ کیا آپ کو اپنی ماں کے ''اجتماعی قاتلوں‘‘ کے حوالے سے انصاف کی امید ہے؟ تو معصوم بچے نے کہا ''مجھے وزیراعظم نواز شریف سے انصاف کی کیا توقع ہو سکتی ہے جنہیں اپنے گھر کے باہر ہونے والے اس اندوہناک واقعہ کا ابھی تک پتہ ہی نہیں‘‘۔
عمران خان کی پالیسیاں اب ملک دشمن ہو چکی ہیں۔ یہ کوئی چھوٹا موٹا الزام نہیں اور نہ ہی کسی عام اور چھوٹے موٹے آدمی نے یہ انکشاف کیا ہے بلکہ اس کے محرک ہمارے وزیر اطلاعات ہیں جنہوں نے اپنے بال دھوپ میں سفید نہیں کیے۔ اگر دیکھا جائے تو عمران خان کی جماعت بھی یہ الزام لگانے بلکہ اس کو بار بار دہرانے پر ملک کے اس وزیر با تدبیرکے خلاف ہتک عزت پر بیس کھرب روپے مالیت کا دعویٰ کر سکتی ہے۔ عمران خان پر وقتاً فوقتاً لگائے جانے والے الزامات کی تاریخ دیکھیں تو اس کا باقاعدہ آغاز 1996ء سے ہوتا ہے جب سیتا وائٹ والی فائل پوری شدت کے ساتھ میڈیا کے سامنے لائی گئی؛ تاہم اس میں تیزی 30اکتوبر کے لاہوری جلسے کے بعد آئی۔ جب لوگوں نے دھڑا دھڑ تحریک 
انصاف کی طرف راغب ہونا شروع کر دیاتو ہر طرف شور مچ گیاکہ جنرل پاشا کی ایجنسیاں ہمیں ناکام بنانا چاہتی ہیں۔ پھرکہا جانے لگا کہ ہسپتال میں گھپلے ہو رہے ہیں۔ جب یہ الزام بھی دم توڑ گیا تو فیصل ٹائون کے پلاٹ کی گردان شروع کر دی گئی۔ گیارہ مئی کے انتخابات سے دو ماہ پہلے وسیع پیمانے پر پراپیگنڈہ کیا گیا کہ تحریک انصاف تو پی پی پی کی بی ٹیم ہے اور جب انتخابات کی مہم زوروں پر پہنچی تو کہا جانے لگا کہ پنجابیو ہوش کرو‘ اگر عمران خان کو ووٹ دیا تو اس سے زرداری پھر جیت جائے گا۔ غرض الزامات کا وسیع سلسلہ تھا جو شروع کر دیا گیا اور جب گیارہ مئی کو ''تاریخی انتخابات‘‘ ہو گئے‘ جن میں نواز لیگ ''بھاری اکثریت‘‘ سے جتوا دی گئی تو عمران خان نے کہا کہ وہ ملکی سلامتی اور جمہوریت کیلئے انتخابات کو تو مان لیتے ہیں لیکن اس میں کی جانے والی بد ترین دھاندلی کو تسلیم نہیں کرتے اوراس کے خلاف آواز اٹھانا اپنا جمہوری حق سمجھتے ہیں۔ ایک سال تک انصاف کی ہر دہلیز پر سر پٹکنے کے بعد جب تحریک انصاف نے عوامی احتجاج شروع کیا تو کہا جانے لگا کہ عمران خان اب اسٹیبلشمنٹ خان بن گیا ہے۔ جب دھاندلی پر کیے جانے والے عوامی جلسے بھر پور رش لینے لگے تو کہا گیا عمران خان جمہوریت دشمن ہے۔ پھر جب چودہ اگست کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا
اعلان ہوا تو جناب پرویزرشید اور ان کے ہمنوا کہنا شروع ہو گئے کہ عمران خان کا ایجنڈا ''ملک دشمن‘‘ ہے ۔
ان کے نزدیک عمران خان کا ایجنڈ شاید اس لیے ملک دشمن ہے کہ اس نے ان کی اس بات کی سخت مخالفت کیوں کی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان یہ سرحد صرف ایک لکیر ہے۔ ان کی نظروں میں عمران خان کا ایجنڈا شاید اس لیے ملک دشمن ہے کہ وہ ان لوگوں کی راہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑا ہو گیا ہے جو کہتے ہیں اُدھر کے مندر والوں اور اِدھر کی مسجد والوں کا ایک ہی رب ہے۔ شاید عمران خان کا ایجنڈا اس لیے ملک دشمن ہے کہ اس نے قوم کو یہ بتانے کی غلطی کی ہے کہ مودی کی حلف برداری کی تقریب میں جانے والوں نے کشمیریوں کو وقت دینے کے باوجود ان سے ملنے سے انکار کر دیا اور بھارت کی سٹیل انڈسٹری کے بادشاہ سے ملنے چلے گئے۔ آپ کہتے ہیں کہ عمران خان ملک دشمن اور جمہوریت دشمن بن گیا ہے تو حضور ذرا سنجیدگی سے سوچیے کیا اس وقت ملک میں جمہوریت ہے؟ اگر جمہوریت ہوتی تو انصاف ہوتا اور اگر انصاف ہوتا تو وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے گھر سے دو کلو میٹر کے فاصلے پر 16انسانوں کو قتل نہ کیا جاتا اور گولیوں کی بارش سے زخمی ہو کر زمین پر گرکر تڑپنے والے 83 لوگوں پر لاٹھیاں نہ برسائی جاتیں۔ جس طرح غزہ میں فلسطینی بچوں اور عورتوں کے قتل کی کہیں ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی‘ اسی طرح ماڈل ٹائون میں لاشیں گرانے والوں کے خلاف بھی کوئی ایف آئی آر نہیں۔
چند دن قبل امریکی وائٹ ہائوس کی ترجمان کا وہ بیان سنجیدگی سے سامنے رکھیے جس میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کے لانگ مارچ سے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔ یہ بیان کس لیے اور کس کے کہنے پر دیا گیا ہے؟ کہیں یہ کارگل والا بیان تو نہیں؟ عمران خان کے لانگ مارچ اور قادری صاحب کے انقلاب مارچ میں حاضرین کی تعداد کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اگر کوئی چیز معنی رکھتی ہے تو وہ یہ کہ کیا اس مارچ کیلئے چلنے والے قافلے جو زیا دہ تر پنجاب سے روانہ ہوں گے انہیں روکا جائے گا؟ اور اگر روکا جائے گا تو اس لانگ مارچ کیلئے گھروں یا شہروں سے نکلنے والوں کو روکنے کا کیا طریقہ اختیار کیا جائے گا؟
اس لانگ مارچ کے حوالے سے ایک اہم بات چونکا دینے والی ہے کہ گجرات میں ظالم زمیندار کے ہاتھوں ایک غریب بچے کے بازو کاٹنے والے سانحے پر ایم ایس سمیت پولیس کے سب افسران کو وزیراعلیٰ نے جذبات میں آ کر معطل کر دیا لیکن ابھی ان کی زبان سے معطلی کے الفاظ نکلے ہی تھے کہ انہیں بتایا گیا کہ حضورگجرات کے ڈی پی اوکی کوتاہی کو ''نظر انداز‘‘ کر دیا جائے کیونکہ یہ اس ڈی پی او کے والد محترم ہیں جنہوں نے ضمنی انتخاب میں نوازلیگ کے جلسے میں باقاعدہ تقریریں کرتے ہوئے لوگوں سے اپنے لیڈر شہباز شریف کی کامیابی کیلئے ووٹ مانگے تھے۔اتنا سننا تھا کہ خادم اعلیٰ پنجاب نے ڈی پی او گجرات کو فوراً بحال کر دیا۔ شاید اس نیکی کے بدلے میں ان سے چودہ اگست کو ''کام لیا جائے گا شجاعت کا‘‘۔ 
اعتزاز احسن کہتے ہیں کہ اگر عمران خان تین لاکھ افراد اسلام آباد میں اکٹھے کر لیتے ہیں تو حالات کوئی بھی رخ اختیار کر سکتے ہیں۔ دوسری طرف لاہور سے اسلام آباد تک ملک میں گیس اور بجلی نہ ہونے سے70 فیصد فیکٹریاں اور کارخانے تقریباً بند ہو رہے ہیں۔ لوڈشیڈنگ، مہنگائی اور بجلی کے بلوں کی حالت یہ ہو چکی ہے کہ ملک کے80 فیصد سے زائد عوام اپنی زندگیوں سے بیزار نظر آنے لگے ہیں۔ لوگوں نے اب معاشی انقلاب کیلئے سنجیدگی سے سوچنا شروع کر دیا ہے۔یہ نعرہ اگر عوامی ہمدردی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا تو لاکھوں کی تعداد میں بے روزگار لوگ اسلام آباد کی جانب اپنا رخ کر سکتے ہیں اور اگر ایسا ہوا تو پھر نتائج کچھ بھی ہو سکتے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved