بھارتی صوبے چھتیس گڑھ‘ جس میں چند ماہ قبل بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے زبردست تباہی آئی تھی‘ خاندانوں سے بچھڑنے والی معمر خواتین کو امدادی اشیا دی جا رہی تھیں۔ اپنے آپ کو زیادہ حق دار ثابت کرنے کے لئے عورتیں اپنی عمریں بڑھ چڑھ کر بتا رہی تھیں تاکہ انہیںزیادہ مستحقین میں شمار کیا جائے۔ کئی ہزار عورتوں نے اپنی عمر 100 سال سے اوپر بتائی۔ بعض نے 200 کے آس پاس اور ایک نے 282 سال۔ اتنی زیادہ عمریں دیکھ کر ایک خاتون نے سوچا کہ ان سے آگے بڑھنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اپنی عمر دوسروں سے دوگنا کر ڈالو۔ جب اس کا نمبر آیا اور عمر پوچھی گئی‘ تو اس نے جواب دیا ''532 سال۔‘‘ سرکاری اہلکاروں میں سنسنی دوڑ گئی۔ اس خاتون نے تو بھگوان پر بھروسہ کر کے‘ تیر چلا دیا تھا کہ دائو لگ گیا تو امداد مل جائے گی‘ ورنہ عمر میں تو میں نے سب کو پچھاڑ دیا ہے۔اس خاتون کا تو آخری دائو تھا۔ اس نے بائونسر پھینک دیا۔ مگر ہمارے عمران خان کو کیا ہو گیا؟ کہ انہوں نے بھی‘ 14مہینے سے ٹک ٹک کر کے بیٹسمین کی طرف 532نمبر کا بائونسر دے مارا۔ حالانکہ اس کی قطعاً ضرورت نہیں تھی۔ انہوں نے یہ اعلان کر کے سب کو حیران کر دیا کہ ''اب بات چیت کے دروازے بند۔ نوازشریف استعفیٰ دیں اور انتخابات کرا دیں۔‘‘ یہ بالکل ایسے ہی ہے‘ جیسے بھارتی عورت نے اپنی عمر 532 سال بتا کر‘ بائونسر پھینکا تھا۔ سب حیران ہیںکہ اچھا بھلا کھیلتے کھیلتے انہیں یہ کیا سوجھی۔ الیکشن میں دھاندلی کی چوٹ کھانے کے بعد ‘وہ پھر سنبھل گئے تھے اور اچھی خاصی بالنگ کرتے آرہے تھے۔ نوازشریف ٹک ٹک کرنے پر مجبور تھے۔ ایسے کھلاڑی کو بائونسر دینے کا کیا فائدہ ؟جوبلا ہی اوپر نہ اٹھاتا ہو۔بائونسر کا فائدہ اس وقت ہوتا ہے‘ جب بیٹسمین ہک کرنے کو بے تاب ہو۔نوازشریف کا مقصد کریز پر ڈٹے رہنا ہے۔ وہ ٹک ٹک کر کے آرام سے 5سال نکال سکتے ہیں۔ انہیں بائونسر کو ہک کرنے کی کیا ضرورت ؟
کیا خان صاحب واقعی سمجھتے ہیں کہ نوازشریف بائونسر پر کیچ دے جائیں گے؟ خان صاحب کرکٹ کے مانے ہوئے کپتان ہیں۔ لیکن سیاست میں دس بیس سال کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔شوکت عزیز کی طرح وزارت عظمیٰ ہر ایک کو نہیں ملتی اور اگر ملتی ہے‘ تو کسی فوجی حکمران سے۔ سیاست کا کھیل بہت صبرآزما ہوتا ہے۔ نوازشریف جیسا قسمت کا دھنی کوئی کوئی ہوتا ہے۔ پھر بھی انہوں نے 10سال کی سیاست کر کے‘ جس میں آٹھ نو سال انہیں‘ وزیر اور صوبائی وزیراعلیٰ کی حیثیت میں حکومتی امور چلانے کا تجربہ ہو چکا تھا۔ اس کے باوجود وہ 2مرتبہ وزیراعظم بن کر بھی کوئی ٹرم پوری نہیں کر پائے اور تیسری ٹرم میں پہلے ہی سال کے دوران ڈگمگا رہے ہیں۔ خان صاحب تو ابھی سیاست کے سکول میں ہیں۔ کالج میں اس وقت داخل ہوں گے‘ جب ان پر ایوان اقتدار کا دروازہ کھلے گاتب انہیں سمجھ آئے گی کہ جس عہدے کے لئے سیاستدان جانیں دائو پر لگا دیتے ہیں‘ اس میںاقتدار صرف پچیس تیس فیصد ہوتا ہے اور 70فیصد مختلف اداروںکے قبضے میں۔ جب کوئی جنرل صاحب‘ سارا اقتدار سمیٹ کر بیٹھ جائیں‘ توسیاستدانوں کو بچے بچائے کھانوں پر گزراوقات کرنا پڑتی ہے۔ آصف زرداری نے دو مرتبہ بحیثیت شوہر وزارت عظمیٰ دیکھی ہے اور بطور صدر ایک سال اقتدار کا ذائقہ بھی چکھا ہے۔ صدارت کے باقی 4سال‘ انہوں نے صرف پروٹوکول پر گزارے ہیں۔ وہ جان چکے ہیں کہ سیاستدان سوفیصد ووٹ لے کر بھی آ جائے‘ تو اسے اقتدار میں صرف 30 فیصد حصہ ملے گا۔ یہ تجربہ انہیں محترمہ کی شہادت کے بعد‘ ایوان اقتدار میں رہ کر ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ الیکشن میں انہوں نے زور ہی نہیں لگایا۔ وہ جانتے تھے کہ آنے والے 5 سال کے لئے نوازشریف کو چنا جا چکا ہے۔ انہیں بھی خبر تھی کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ مگر اس سے زیادہ خبر یہ تھی کہ نوازشریف کو 2014ء سے پہلے نکالنا مشکل ہو گا اور اگر کہیں نوازشریف نے اپنی افادیت ثابت کر دی‘ تو ان کی گاڑی5سال بھی چل جائے گی۔ خواہ عربوں اور امریکیوں کو دھکا ہی لگانا پڑے۔
عمران خان اس وقت اپنی مقبولیت کے نقطہ عروج پر ہیں۔ الیکشن کے دنوں سے بھی زیادہ۔ شاید یہ مبالغہ نہ ہو کہ وہ اس وقت ملک کے مقبول ترین لیڈر ہیں۔ اسی لئے میں نے لکھا کہ لمحوں کی لگامیں ان کے ہاتھوں میں ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ بھارتی عورت کی طرح ایک دم 532سال کے ہو جائیںاور گھوڑے کی لگامیں ڈھیلی چھوڑ کر‘ سرپٹ دوڑانے لگیں۔ انہیں بہت آرام سے گھوڑے کو دلکی (Trot) پر رکھنا چاہیے تھا۔ جو بڑا مشکل کام ہوتا ہے۔ عوام کے اندر جوش و جذبہ اور حرکت کو برقرار رکھنااور سامنے والے کھلاڑی کو یوںدبائو میں رکھنا‘ جیسے وہ شہہ کی زد پر ہو۔ میں سمجھتا ہوں‘ ابھی وقت ہے۔ آصف زرداری درمیان میں آ گئے ہیں۔ان کے بہانے مذاکرات کا دروازہ کھول لیں۔ نوازشریف بھی خطرہ مول لینے کے موڈ میں نہیں۔ انہیں خوب اندازہ ہے کہ اسلام آباد کے اندر عوام بے قابو ہو گئے‘ تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ یہی بات خان صاحب کے لئے بھی ممکن ہے کہ اگر وہ انتـظامیہ کو بے بس نہ کر سکے‘ تو نوازشریف فاتح بن جائیں گے۔ لیکن خان صاحب کی سیاست بہت پیچھے چلی جائے گی۔جہاں تک وہ حالات کو لے آئے ہیں‘ انہیں بہت سپیس مل چکی ہے۔ مناسب یہی ہے کہ اس سپیس پر قبضہ کر کے‘ جتنا کچھ ملتا ہے‘ حاصل کر لیں اور مزید حاصل کرنے کے لئے ان کے پاس 4سال کا عرصہ پڑا ہو گا۔ اس دوران بطور اپوزیشن لیڈر خان صاحب کی طاقت میں بہرطور اضافہ ہوتا رہے گا۔ جبکہ نوازشریف کی طاقت میں کمی ہونا لازم ہے۔ تیسری دنیا میں برسراقتدار رہ کر کوئی لیڈر مقبولیت حاصل نہیں کر سکتا۔ عوامی مقبولیت کا بہترین دور اپوزیشن میں رہ کر آتا ہے اور عدم
مقبولیت اقتدار کی قیمت ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ کسی بھی وزیراعظم سے مطالبات کرتے وقت یہ ذہن میں رکھیںکہ 70 فیصد اقتدار کے جو مالک‘ سلیپنگ پارٹنر کی حیثیت میں پیچھے بیٹھے ہیں‘ کوئی بھی وزیراعظم ان کی رضامندی کے بغیر ایسا سمجھوتہ نہیں کر سکتا‘ جس میں اسے اپنے 30 فیصد سے زیادہ کچھ دینا پڑے۔ شفاف انتخابات کرانا وزیراعظم کے بس کی بات نہیں۔ انتخابات کی مینوفیکچرنگ کا کنٹرول‘ 70فیصد والے اپنے پاس رکھتے ہیں۔ 1970ء میں انہوں نے یہ کنٹرول چھوڑ کر جو نتائج بھگتے‘ اس کے بعد وہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ الیکشن کے میلے ضرور لگیں گے مگر نتائج کا فیصلہ ان کے ہاتھ میں ہو گا۔ سیاستدان چاہیں تو بتدریج یہ اختیار حاصل کر سکتے ہیں۔ مگر اس کے لئے طویل عرصہ درکار ہے۔ بھارتی سیاستدان‘ اس اعتبار سے خوش قسمت رہے کہ وہ انتخابی عمل کو بتدریج غیرمتنازعہ بنانے میں کامیاب رہے۔ اندراگاندھی نے تھوڑی سی خرابی کی تھی۔ اس وقت کے اپوزیشن لیڈرمرارجی ڈیسائی کے پاس پیغام آ گیا تھا کہ'' آپ اندراگاندھی کو اڑانا چاہیں تو ہم مدد کے لئے تیار ہیں۔‘‘ مرارجی ڈیسائی فوراًاندراگاندھی سے ملنے چلے گئے اور انہیں بتا دیا کہ ''ممکنہ احتیاطی تدابیر کر لیجئے۔ ورنہ وہ تیار بیٹھے ہیں۔‘‘ وہ دن اور آج کا دن‘ بھارت میں کوئی حکومت عوامی احتجاج کو کچلنے کی کوشش نہیں کرتی۔ اگر سیاسی عمل کے ذریعے عوامی مظاہروں اور احتجاجوں کو روکا نہ جا سکے‘ تو بلاتاخیرسمجھوتا کر لیا جاتا ہے۔ اس کی تازہ مثال اناہزارے کا دھرنا ہے۔ ان کے دھرنے کو ایک ہفتہ بھی پورا نہیں ہوا تھا کہ حکومت نے یہ پیغام بھیج دیا کہ آپ کے مطالبات کو آئین کا حصہ بنانے کے لئے‘ اپنی ٹیم کے ساتھ‘ مذاکرات کے لئے آ جائیں۔ اناہزارے اپنی ٹیم لے کر‘ کابینہ کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کرنے گئے اور ایک سمجھوتے پر اتفاق رائے بھی ہو گیا۔ عملدرآمد سے پہلے سیاست آگے نکل گئی۔ پاکستان میں عوامی احتجاج کے سامنے حکومت کے پاس ایک ہفتہ گزارنے کی مہلت نہیں ہوتی۔ نوازشریف اپنا احتجاجی مارچ لے کر گوجرانوالہ تک گئے تھے کہ رات کے 2بجے وزیراعظم کے کان پکڑ کر کہا گیا کہ مطالبہ پورا کر دو اور جنرل کیانی نے خود ٹیلیفون کر کے اطلاع دی کہ مارچ ختم کر کے واپس چلے جائیں۔ آپ کا مطالبہ مان لیا گیا ہے۔ تھوڑی دیر میں وزیراعظم ٹیلی ویژن پر اس کا اعلان کر رہے ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں کو سمجھنا ہو گا کہ آنے والے چارپانچ عشروں تک‘ ان کے پاس ایک خاص حد سے آگے احتجاجی مظاہروں کے سامنے ڈٹے رہنے کی گنجائش نہیں ہوگی۔ یہ گنجائش بھی اس صورت میں پیدا ہو سکتی ہے کہ اگر ہر الیکشن کے بعد پرامن انتقال اقتدار ہوتا رہے۔ تب کہیں جا کر منتخب حکومتوں کو پورا اقتدار منتقل ہو گا۔ خان صاحب کو چاہیے‘ اپنی احتجاجی تحریک میں دو باتوں کا خیال رکھیں۔ وزیراعظم سے جو مطالبہ بھی کیا جائے‘ وہ اقتدار میں ان کے 30فیصد حصے سے زیادہ نہ ہو۔ کیونکہ زیادہ پر ان کا اختیار نہیں ہو گا اور ایک ہفتے سے زیادہ احتجاجی تحریک کو طول نہ دیں کیونکہ اس سے زیادہ کی اجازت نہیںملے گی۔ سال چھ مہینے کے بعد نئی تحریک شروع کی جا سکتی ہے۔