تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     07-08-2014

وزیر ِ خارجہ کی اہمیت

کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ آج سے سوسال بعدپاکستان اور بھارت مل کر لڑی جانے والی دو نوںجنگوں، 1965ء اور1971ء کی یاد منانے کے قابل ہوجائیں گے؟کیا بنگلہ دیش بھی' آزادی‘ کے صدسالہ جشن کی تقریبات میں شرکت کرے گا؟اگر مہذب دنیا کے تبدیل شدہ رویوں کو دیکھیں تو اس میں زیادہ تعجب نہیںہونا چاہیے کیونکہ اگر یورپ کے حریف ممالک، جیسا کہ بلجیم، فرانس، برطانیہ اور جرمنی، جنہوں نے پہلی جنگِ عظیم میں ایک دوسرے کا خون بہایا تھا،اُس عظیم جنگ کی صدسالہ یاد مناتے ہوئے افہام وتفہیم کے جذبے سے ایک دوسرے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کرکھڑے دکھائی دے سکتے ہیں تو پاکستان اور بھارت کو کیا امر مانع ہے؟تاہم برِ صغیر کی روایتی مخاصمت سے لبریز فضا میں ایسا ہونا اگر ناممکن نہیں تو بھی مشکل ضرور دکھائی دیتا ہے۔ ایٹمی صلاحیت کے حامل ان دونوں ممالک کے درمیان دشمنی کی بنیادی وجہ کشمیر رہا ہے اور اس مسئلے کا کوئی قابل ِ قبول حل دکھائی نہیں دیتا۔
کیا کوئی وزیر ِ خارجہ ان معاملات کو سدھا ر کی طرف لے جاسکتا ہے؟کیا وہ خارجہ تعلقات کے حوالے سے پید ا ہونے والے مسائل سے اپنے ملک کو نکال کر بہتر ماحول تشکیل دے سکتا ہے؟اپنی مختصر سی تاریخ کا جائزہ رجائیت کی حوصلہ افزائی نہیںکرتا۔ ملک میں جمہوری سفر کی شروعات سے پہلے، ہمارے کچھ وزرائے خارجہ مخصوص ذہنیت کے حامل افراد ہوتے تھے۔صد ر ایوب نے اپنے وزرائے خارجہ (محمد علی بوگرہ 1962-63ء اور ذوالفقارعلی بھٹو1963-66ء) کے ساتھ تنائو کی پالیسی اپنائی۔ وضع دار انسان محمد علی بوگرہ تو ایوب خان کے ناروا رویے کی تاب نہ لاتے ہوئے دل گرفتگی کے عالم میں اس عالم ِ فانی سے رخصت ہوئے لیکن بھٹو زیادہ تاب و تواں کے مالک تھے۔ ان کی خطر پسند طبیعت نے ایوب کوقائل کر لیا کہ پاکستان بھارت کو میدان ِ جنگ میں شکست دے سکتا ہے، چنانچہ ملک کو جنگ میں دھکیل دیا گیا۔ تاہم ، نہ تو ہم کشمیر آزاد کراسکے اور نہ فوجی فتوحات حاصل کرتے ہوئے بھارت پر کوئی دبائو ڈال سکے۔ اس کے بعد شکست کا سامنا کرنا پڑا، لیکن بھٹو صاحب کی جذباتیت سرد نہ پڑ سکی۔ انھوں نے نعرہ لگایا۔۔۔'' پاکستان لڑے گا،ہم ایک ہزار سال تک لڑیں گے۔ اگر انڈیا نے ایٹم بم بنالیا تو پاکستان بھی بنائے گا چاہے ہمیں گھاس کیوں نہ کھانا پڑے، چاہے ہمیں بھوکا کیوں نہ رہناپڑے۔۔۔ ہمارے پاس بچائو کا کوئی اور راستہ نہیں ۔‘‘
کیا بھٹو ایک اچھے وزیر ِ خارجہ تھے یا نہیں، اس کا ہم کبھی فیصلہ نہ کرسکے۔شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ ہمارے ہاںسکیورٹی کے معاملات پر بات کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی اور نہ ہی رازوں کو بے نقاب کیا جاتا ہے۔ چنانچہ بعد کے آنے والے برسوں میں بھٹو کو بطور سیاست دان تو زیر ِ بحث لایا گیا لیکن بطور وزیرِ خارجہ ان کے کردار پر بات کی جانی ابھی باقی ہے۔ امریکہ جیسے ممالک میں بھی پچیس سال بعد حساس ترین رازوں تک عوام کو رسائی دے دی جاتی ہے لیکن ہمارے ہاں انہیں تہہ در تہہ دفتیوں میں رکھا جاتا ہے کہ کہیں عوام سچائی نہ جان لیں۔ 
یہاں ایک اور ضمنی سوال بھی اٹھتا ہے کہ انتہائی جارحانہ وزیر ِ خارجہ بھی ریٹائر ہونے کے بعد انتہائی نرم خو، امن کی فاختہ، کیوں بن جاتے ہیں؟کئی سال پہلے میں دہلی میں بھارتی وزرائے خارجہ آئی کے گجرال اور جسونت سنگھ سے ملی۔ اُ س وقت مسٹر گجرال ٹریک ٹو ڈپلومیسی پر کام کررہے تھے اور اپنے پاکستانی ہم منصب صاحبزادہ یعقوب علی خان کے ساتھ دوستانہ ماحول میںملاقاتیں کررہے تھے۔ جسونت سنگھ کتابوں کے مطالعے میں ڈوبے، اپنی کتاب ''Jinnah:India-Partition-Independence‘‘ کے لیے مواد اکٹھا کررہے تھے۔ اس کتاب نے پاکستان کو خوش کردیا اور جب مسٹر سنگھ اسلام آباد اور کراچی آئے تو ان کا بھرپور خیر مقدم کیا گیا۔ 
گزشتہ ایک عشرے سے وزیر ِخارجہ کا کردار بہت کم ہوکررہ گیا ہے کیونکہ خارجہ پالیسی کو ایگزیکٹو اتھارٹی اپنی مرضی سے چلاتی ہے۔ عام تاثر یہ تھا کہ پی پی پی کے گزشتہ دور میں خارجہ پالیسی کے معاملات سابق آرمی چیف جنرل کیانی صاحب نے اپنے ہاتھ میں لے رکھے ہیں جبکہ موجودہ دور میں وزیر ِ اعظم خود اس کی نگرانی کررہے ہیں۔ تاہم ضروری نہیںکہ ایگزیکٹو اتھارٹی پر فائز افراد یا فوجی جنرل وزارت ِخارجہ کے نازک امور کے بھی ماہر ہوں۔ 
ایک وزیر ِخارجہ جنگجو طبیعت کا مالک بھی ہوسکتا ہے اور امن کا نقیب بھی۔تاہم ایک اور مخصوص قسم کے وزرائے خارجہ بھی دکھائی دیتے ہیں۔۔۔ لاتعلق، غیر واضح، غیر جذباتی اور معروضی۔ وہ بالکل مشینی انداز میں کام کرتے ہیں اوراپنے رویے سے ذاتی پسند و ناپسند کا اظہار نہیںہونے دیتے۔تاہم ایسا رویہ عام طور پر آدمی ظاہر کرتے ہیں۔کیا خواتین اس میدان میں زیادہ فعال اور موثر ثابت نہیں ہو سکتیں؟اس کا جواب اثبات میں دیا جاسکتا ہے کیونکہ آدمی جارحانہ، ہٹ دھرم اور اناپرست ہوتے ہیں جبکہ خواتین نرمی اور معاملہ فہمی سے لچک دار رویہ دکھانے کی اہل ہوتی ہیں۔ دوصدیوں کے تجربے سے مالا مال امریکیوں نے یہ سیکھا کہ اگرچہ اُنھوںنے ہلیری کلنٹن کو بطور صدر نہیں چنا لیکن اُنھوںنے اس پرکشش خاتون کو امریکی حکومت کا سب سے اہم عہدہ دے دیا ۔ صدر کلنٹن نے یوگو سلاویہ نژاد میڈیلن البرائٹ کو سیکرٹری آف سٹیٹ بنایا جبکہ جارج ڈبلیو بش نے اس عہدے کے لیے کونڈالیزا رائس کو چنا۔ 
ہلیری کلنٹن اپنے عہدے پر بہت کامیاب ثابت ہوئی ہیں۔ وہ بطور فرسٹ لیڈی پاکستان آئیں تو اسلام آباد میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی۔ دونوں خواتین ایک دوسرے کے ساتھ بہت گرم جوشی سے ملیں۔ اپنے اعزاز میں دیے گئے لنچ میں اُنھوں نے محترمہ سے دعدہ کیا کہ وہ وائٹ ہائوس میں پاکستان کی بات کریں گی اور پاکستان کی خواہشات اپنے شوہر تک پہنچائیںگی۔ وہ جانتی تھیں کہ میزبان ملک کا دل کیسے جیتا جاسکتا ہے۔ جب محترمہ امریکہ گئیں تو امریکی سفیر مسٹر تھامس سمسن کے استقبالیے میں جب ہیلری کلنٹن سینکڑوں پاکستانیوں سے ملیں تو اُنھوںنے پاکستانی لباس، سیاہ شلوار قمیص پہنی ہوئی تھی۔ان کا رویہ اتنا دوستانہ تھا کہ جب ہماری وزیر ِ اعظم صاحبہ اسلام آباد ائیرپورٹ پر اتریں تو ان کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا کہ امریکہ پاکستان کے انتہائی قریب آچکا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے جب ہلیری کلنٹن پاکستان آئیں تو ان کی پاکستانی صحافیوں کے ساتھ ایک نشست ہوئی۔ اس میں کسی خاتون صحافی کے سوال کے جواب میں وہ ساس اور بہو کے موضوع پر بھی بات کرتی سنائی دیں۔ پاکستانیوں کی ایک تعداد امریکہ کے بارے میں منفی تاثر رکھتی ہے لیکن ایک شخص کا رویہ بھی پوری قوم کو متاثر کرکے دیگر اثرات کو زائل کرسکتا ہے۔ دوسری طرف یہ بات بھی مسلمہ ہے کہ محترمہ بھی بہت اعلیٰ پائے کی سفارت کار تھیں۔ جب وہ اپنے منصب پر موجود تھیں تو ہمیں کسی وزیر ِ خارجہ کی ضرورت نہیں تھی۔ 
شاہ محمود قریشی کے بارے میں کچھ نہ کہنا ہی بہتر ہے لیکن حنا ربانی کھر یقینا ہوا کے ایک خوشگوار جھونکے کی طرح تھیں۔ بہترین ہینڈ بیگ ہاتھ میں تھامے، سیاہ چشمہ لگائے اوراُونچی ایڑی والی جوتی پہنے چونتیس سالہ مس کھر نے ثابت کیا کہ ہماری وزارت ِ خارجہ کو واقعی ایک نوجوان خاتون کی ضرورت تھی۔ یہ نہیں کہ انھوںنے پاک بھارت تعلقات کی برف پگھلادی لیکن بھارت نے یقینا اُن کی موجودگی کومحسوس کیا کیونکہ وہ پرکشش ہونے کے علاوہ ذہین بھی تھیں اور ہماری وزارت ِخارجہ میں یہ دونوں خوبیاں ایک عرصے سے عنقا تھیں۔ ان کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ منصب سے ہٹنے کے بعدوہ دیگر سیاست دانوں کی طرح ٹی وی پر آکر اہم راز فاش نہیں کرتیں۔ اُنھوںنے غالباً ہلیری کلنٹن سے سیکھا ہوگا کہ کس طرح پس ِ پردہ رہ کر کام کیا جاتا ہے۔ درحقیقت مس کھر نے نہایت چابکدستی سے پریس کو غچہ دیا ہے ورنہ کیانی صاحب اور زرداری صاحب کے حوالے سے ان سے بہت سی باتیں پوچھی جاسکتی تھیں۔ تاہم ، ہمارا پریس جتنا چالاک دکھائی دیتا ہے اتنا ہے نہیں۔ کوئی بھی عیار طبع خریدار ہوتو۔۔۔''بک جاتے ہیں ہم آپ متاعِ سخن کے ساتھ۔‘‘موجودہ حکومت نے زرداری حکومت سے ایک سبق سیکھا ہے کہ انٹیلی جنس افسران کو خارجہ پالیسی کی سرگرمیوں میں ملوث نہ کرنا ہی بہتر ہے۔ خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ ہے کیونکہ آج کل چین اور ترکی کے اندھا دھند دوروں کے سوا خارجہ پالیسی میں کوئی سرگرمی بھی دکھائی نہیں دے رہی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved