شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کر کے آنے والے 9 لاکھ متاثرین میں ساڑھے چار لاکھ کے لگ بھگ وہ بچے بھی شامل ہیں‘ جن کا مستقبل ان سیاسی المیوں کے ساتھ جُڑ چکا ہے جن کی گونج دور تک سنی جا رہی ہے لیکن قوم کے نونہالوں کی زندگیوں اور مستقبل کے حوالے سے سماجی اور حکومتی سطح پرکوئی فکر نہیں پائی جاتی۔ آئی ڈی پیز کے ساتھ ہمدردی و تعاون کے اظہار کے جتنے قرینے دیکھنے کو ملے ان میں متاثرین بچوں کے تحفظ بارے احساس کی شمع کہیں جگمگاتی نہیں دکھائی دی۔ہائر ایجوکیشن کے صوبائی وزیر مشتاق غنی نے خیبرپختونخوا کے کالجوں میں آئی ڈی پیز طلبہ کے لئے دس فیصد کوٹہ متعین کرنے کا مژدہ تو سنایا مگر زیر تعلیم ساڑھے چار لاکھ بچوں کو صوبہ کے تعلیمی اداروں میں ایڈجسٹ کرنے کی بات نہیں کی؟ لاکھوں بچوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ اور تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ ان بچوں کو تعلیم دینے کے لئے مناسب وسائل کے علاوہ پرائمری تعلیم کے مستحق آئی ڈی پیز بچوں کو ابتدائی تعلیم کے لئے ایسی فضا درکار ہو گی جس میں اساتذہ طلبہ کی مادری زبان اور تہذیبی پس منظر سے بخوبی واقف ہوں۔
معلوم نہیں ڈیرہ اسماعیل خان جیسے سرائیکی ضلع میں جہاں اساتذہ کی اکثریت پشتو نہیں جانتی، لگ بھگ پچاس ہزار بچوں کو بنیادی تعلیم اور وہ ماحول کس طرح فراہم کیا جا سکے گا جس کے بغیر ان معصوم بچوں کو پڑھانا ممکن نہیں ہو گا؟ پھر ان ساڑھے چار لاکھ میں طالبات کی تعداد قدرے زیادہ ہوگی۔
تعلیم و تعلم کے علاوہ ان کے تحفظ کا مسئلہ بھی حکومتی اداروں کے پیش نظر ہونا چاہیے لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اب تک آئی ڈی پیز بچوں کے تحفظ اورتعلیم و تربیت کے ضمن میں پالیسی اصول نہیں وضع کئے؛ چنانچہ مسائل پر کھلی بحث کے دروازے بھی نہیں کھل سکے۔ ہرچند کہ روایت پرست سماج میں بچیوں کو تعلیم دلانا مشکل ہوتا ہے مگر غریب الوطنی میں طالبات کی تعلیم کے امکانات اور بھی کم ہو جائیں گے۔بنوں کے آئی ڈی پیز مرکز کی بارہ سالہ گوزیل تاشفین کے خیالات سے عیاں ہے کہ قبائلی معاشرے میں بچیوں کا تعلیم حاصل کرنا کس قدر دشوار ہے۔ساتویں جماعت کی طالبہ،گوزیل جو میرام شاہ کے آرمی پبلک سکول میں نمایاں پوزیشن کی حامل ہونے کے باوجود خود کو خواتین کی تعلیم کی راہ میں حائل مشکلات سے مبرا نہیں سمجھتی، قبائلی خواتین کے لئے ایسی تعلیم کا حق حاصل کرنے کی علمبردار بننا چاہتی ہے، جو فرد کی آرزوئوں اور اجتماعی ذمہ داریوں میں مطابقت پیدا کر سکے۔ گوزیل نے ایک ٹیلی وژن رپورٹ میں سادہ سا سوال اٹھایا کہ '' یہ لوگ عورتوں کو پڑھنے کیوں نہیں دیتے؟ لیکن اس کے معصوم سوالات کا جواب کہیں سے نہیں ملا؛ حالانکہ حکومت کے علاوہ سول سوسائٹی کو ان سوالوں کا جواب دینا چاہیے تھا،اب اگر کوئی غیر ملکی این جی او یا عالمی ادارہ
گوزیل کی پکار پہ لبیک کہے گا تو ملالہ یوسف زئی کی مانند اس معاملہ کو بھی قومی غیرت اور حب الوطنی کے منافی قرار دے کر حصول علم کے فطری جذبوں کے اظہارکو غیر ملکی ایجنٹی سے جوڑ دیا جائے گا اور صحت مندانہ رجحانات کو نظریاتی تنازعات میں الجھا کے کچل دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ پاکستان 1990ء میں یو این کنونشن کے تحفظ اطفال کے بین الاقوامی قانون کی توثیق کر چکا ہے جس کے تحت وہ حقوق بچگاں کی حفاظت کے لئے ایسی قانون سازی کرنے کا پابند ہے،جس میں اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کو زندگی اور وجود کی بقا ء کے لئے درکار بنیادی ضروریات، مثلاً خوراک، رہائش اورصحت کی سہولیات تک رسائی کے حق کو یقینی بنانا ہو گا۔ قانون سازی سے انحراف کی صورت میں پاکستان کو عالمی برادری کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یو این سی آر سی کے تحت بچوں کو تعلیم ،کھیلوں،ثقافتی سرگرمیوں،معلومات تک رسائی اور فکر و اظہار کے علاوہ ضمیر و مذہب کی آزادیاں بھی ممکن بنانا ہوں گی، خاص طور پر اُجڑ کر آنے والے بچوں کو پرتشدد ماحول سے دور رکھ کر ان کی خصوصی دیکھ بھال کا نظام تشکیل دینا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔
یو این کنونشن کے تحت کم عمربچوں کو سماجی برائیوں سے بچانے، بچوں سے مزدوری لینے اور انہیں خارجی مقاصد کے حصول کے لئے آلۂ کار کے طور پر استعمال کرنے کے فعل کو روکنے کی خاطر مؤثر قوانین بنانا ہوں گے۔ محصور بچوں کو اظہار رائے کی آزادی کا حق دینے کے علاوہ ان کی زندگیوں سے مربوط معاملات میں ان کی مرضی کو شامل کرنا یقینی بنانا ہوگا۔ انہیں اپنی ہم خیال تنظیموں میں شمولیت اور پرامن اجتماعات میں شرکت کی آزادی دینا لازمی ہے؛ تاکہ ان کی استعداد و صلاحیتوں کو فروغ ملے اور معاشرتی سرگرمیوں میں شرکت کے ذریعے انہیں بلوغت کے تقاضوں کے لئے تیاری کے مواقع دیئے جا سکیں۔ لیکن تساہل کی حیرت انگیز صورت دیکھئے کہ سی آر سی پر دستخطوں کے دس سال بعد 2000ء میں جنرل مشرف کی حکومت نے جو وی نائل جسٹس سسٹم آرڈیننس کے ذریعے بچوں کے حقوق کو محفوظ بنانے کے لئے ابتدائی قانون سازی کی کوشش کی جس میں اوپر بیان کئے گئے حقوق اطفال کو کسی حد تک سمویا گیا لیکن چودہ سال سے یہ جو وی نائل جسٹس آرڈیننس اسمبلی سے منظوری کے ذریعے باقاعدہ ایکٹ بننے کا منتظر ہے۔پاکستان جیسے معاشرے‘ جہاں عورتوں اوربچوں سے سخت مشقت لینے کے علاوہ انہیں ذاتی و گروہی دشمنیوں کا شکار اور جنسی زیادتیوں کا نشانہ بنانے کی روش عام ہے‘ میں ایسے قوانین کے فوری اطلاق کی ضرورت تھی۔بچوں سے زیادتیوں کے حوالے سے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ''ساحل‘‘نے 2013ء کی رپورٹ میں بچوں سے زیادتی کے جو اعداد و شمار پیش کئے وہ تشویشناک ہیں۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال بچوں سے زیادتی کے 3002 واقعات سامنے آئے‘ یعنی اوسطاً ہر روز یہاں زیادتی کے 8 واقعات رونما ہوتے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ بچوں سے زیادتی کے رجحان میں پچھلے سال کی نسبت ساڑھے سات فیصد اضافہ ہوا، رپورٹ میں صرف وہ کیسز شامل کئے گئے جنہیں میڈیا نے اٹھایا۔ بچوں سے زیادتی کے ہزاروں واقعات ایسے ہیں جو پولیس ریکارڈ پر آتے ہیں نہ میڈیا انہیں رپورٹ کرتا ہے۔ جس معاشرے میں بچوں کے ساتھ زیادتی کا رجحان تیزی سے فروغ پا رہا ہو وہاں ان لاکھوں بچوں کے تحفظ کو یقنی بنانے کے لئے مؤثر قانون سازی ناگزیر تھی‘ لیکن افسوس کہ سیاسی پارٹیاں،سماجی گروہ یا سول سوسائٹی اس اہم ترین ایشو کو اپنی دلچسپیوں کا مرکز نہیں بنا سکی۔ ارباب سیاست اور جمہوریت کے نام لیوائوں سے اپیل ہے کہ اگر وہ سیاسی جھگڑوں سے فرصت پا کر‘ اسمبلیوں کے طے شدہ مینڈیٹ کے اندر تحفظ اطفال کے سلسلے میں موثر قانون سازی کر سکیں تو ہماری اگلی نسل محفوظ ہو سکتی ہے!