شوال المکرم آٹھ ہجری کو غزوۂ حُنَین واقع ہوا ، مکہ فتح ہوچکاتھا، عرب کی سب سے بڑی طاقت قریش مکہ شکست کھا چکے تھے۔ بہت سے عرب قبائل نے اسلام قبول کرنے میں اسی لئے توقف کیا ہوا تھا کہ مسلمانوں کی اپنے سب سے بڑے حریف(Rival) قریش مکہ کے ساتھ فیصلہ کن جنگ کب ہوتی ہے اور اس کا انجام کیا ہوتاہے؟۔ رمضان المبارک 08ھ میں فیصلے کا وہ دن آپہنچا اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فیصلہ کن فتح عطا فرمائی اور رحمۃللعالمین ﷺ نے فاتح کی حیثیت سے اپنے مفتوحین اور ماضی کے دشمنوں کے لئے عام معافی کا اعلان کردیا اور حدیث وسیرت کی کتابوںمیں انہیں ''طُلَقَاء‘‘ کا نام دیا گیا ، یعنی عدوات رسول اور عداوتِ اسلام پر مبنی اُن کے ماضی کے تمام مظالم معاف فرمادئیے گئے۔ چنانچہ حجاز کے قبائل جوق درجوق اسلام میں داخل ہونے لگے ، جس کا ذکر سورۂ'' الفتح‘‘ میں ہے ۔ لیکن دو قبائل بنو ہوازن اور بنوثقیف طاقت ور تھے، جنگی مہارت بھی رکھتے تھے اور ماہر تیرانداز تھے ، انہوں نے تیس ہزار افراد پر مشتمل ایک بھاری لشکر تیار کیا اور مسلمانوں کی برتری کو چیلنج کیا ۔
رسول اللہ ﷺ دس ہزار مجاہدین پر مشتمل ایک لشکرلے کر ان کے مقابلے کے لئے روانہ ہوئے، مگر اس لشکر میں ''طُلَقَاء‘‘ کی بھی ایک بڑی تعداد تھی ، جو پرجوش تو تھے اور مالِ غنیمت سمیٹنے کا بھی شوق تھا ، لیکن ابھی ایمان ان کے دلوں میں راسخ نہیں ہواتھا ، اس لئے عزیمت کے معیار پر وہ پورا اترنے کے قابل نہ تھے ۔ رسول اللہ ﷺ اس طرح کے ناپختہ کار مجاہدین اورنوجوانوں کوساتھ لے جانا نہیں چاہتے تھے ،جن کے بارے میں قرآن نے فرمایا:''دیہاتیوں نے کہا: ہم ایمان لائے، آپ کہہ دیں! (ابھی) تم (پوری حقیقت ومعنویت کے ساتھ) ایمان نہیں لائے۔ ہاں یہ کہو کہ ہم نے اطاعت کی اور ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا،(الحجرات:14)‘‘۔لیکن فتح مکہ کی جذباتی کیفیت تھی اور ہوش پر جوش کا غلبہ تھا ۔ چنانچہ جب معرکہ برپا ہوا اور قبیلۂ ہوازن کے تیر اندازوں نے بلند پوزیشنوں سے تیر اندازی شروع کی، تو مسلمان مجاہدین کے قدم اکھڑ گئے ، کیونکہ وہ اس طرح کی صورتِ حال کے لئے تیار نہیں تھے اور وقتی طور پر بہت سے مجاہدین پسپا ہوئے اورلشکرِ اسلام منتشر ہوگیا۔
رسول اللہ ﷺ اِن پُرخَطَر حالات میں بھی کوہِ استقامت بن کر جمے رہے اور ڈٹے رہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ''میں نبی ہوں، اس میں کوئی جھوٹ نہیں اور میں عبدالمطلب کا فرزند ہوں ‘‘ ، یعنی حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں، اللہ کے نبی اور عبدالمطلب کے فرزندکے قدم ڈگمگاتے نہیں ہیں۔ پھر آپ نے اپنے چچا عباس بن عبدالمطلّب رضی اللہ عنہ کو ،جو بلند آواز تھے ، فرمایا کہ اولوالعزم صحابہ کو بلاؤ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: '' اے حدیبیہ میں درخت کے نیچے میرے ہاتھ پر تن من دھن قربان کرنے کی شرط پر بیعت کرنے والے انصار ومہاجرین ! واضح رہے کہ اسے قرآن نے ''بیعتِ رضوان‘‘ سے تعبیر فرمایا اور صحابۂ کرام فرماتے تھے :'' ہم نے موت پر بیعت کی‘‘۔ '' اے جماعتِ انصار ! جنہوں نے رسول اللہ ﷺ اور ان کے صحابہ کو پناہ دی‘‘۔
چنانچہ منتشر صحابہ دوبارہ جمع ہوئے اور جنگ کے لئے ازسرِ نوصف بندی کی اور پورے عزم کے ساتھ کُفّار کا مقابلہ کیا اور بالآخر اﷲتعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی اور چھ ہزار جنگی قیدی ، چوبیس ہزار اونٹ اور چالیس ہزار بکریاں اور بے شمار مالِ غنیمت ہاتھ آیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس منظر کو یوں بیان فرمایا :''بے شک اللہ نے کئی مواقع پر تمہاری مدد فرمائی (اور خاص طور پر ) غزوۂ حنین کے موقع پر جب کہ تمہاری تعداد کی کثرت نے تمہیں غرور میں مبتلاکردیا تھا ، لیکن وہ (کثرت) تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی ، پھر تم پیٹھ پھیرتے ہوئے لوٹے، پھر اللہ نے اپنے رسول اور مومنوں پر قلبی طمانیت نازل فرمائی اور ایسے لشکر اتارے جن کو تم نے نہیں دیکھا اور کافروں کو عذاب دیا اور کافروں کی یہی سزا ہے ۔ پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ جس کی چاہے گاتوبہ قبول فرمائے اور اللہ بہت بخشنے والا اور بے حد مہربان ہے،(التوبہ:25-27)‘‘۔
غزوۂ حُنین سے بھی یہ سبق ملا کہ عزیمت واستقامت ، ایمان کی پختگی اور اللہ عزوجل ّ، اس کے رسولِ مکرم ﷺ اور دینِ اسلام کیلئے ایثاروقربانی کے جذبے سے عاری کثیر تعداد بھی فتح کی ضمانت نہیں بن سکتی، جیسا کہ غزوۂ حنین میں ناتجربہ اور غیر راسخُ الایمان مجاہدین کے قدم ڈگمگا گئے اور اس کیفیت نے وقتی طور پر لشکر اسلام کومنتشر اور پسپا کردیااور عارضی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن رسول اللہ ﷺ کی اولوالعزمی کی برکت سے جب پختہ کار اور راسخ الایمان صحابۂ کرام دوبارہ ہمت باندھ کر اور ایثار وقربانی کے جذبے سے سرشار ہوکر میدانِ جہاد میں آئے ، تو اللہ تعالیٰ نے وقتی شکست کو باوقار فتح میں تبدیل فرمادیا ۔
غزوۂ بدر میں بھی جنگی قیدیوں سے فدیہ لینے والوں کے حوالے سے مسلمانوں سے اجتہادی خطا ہوئی ،تو قرآن مجید میں اﷲتعالیٰ نے اس کی نشاندہی بھی فرمائی اور اس پر معافی بھی عطا فرمائی۔ اسی طرح غزوۂ اُحُد میں جن سے اجتہادی خطا ہوئی ، ان کابھی مؤاخذہ نہیں فرمایا اور غزوۂ حنین میں بھی لغزش کھانے والوں کا مؤاخذہ نہیں فرمایا ۔ یہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑاکرم اور احسان تھا اور اس بات کی دلیل کہ ان کے دل ایمان ِراسخ اور اخلاص ورضا کی دولت سے معمور تھے اور انہوں نے ایثار، جانثاری اور جاں سپاری کی وہ عظیم روایات قائم کیں ،جن کی مثال پیش کرنے سے انسانی تاریخ عاجز ہے ۔
ہمیں ایک بار پھر شوال المکرم میں واقع ہونے والے غزوات اُحُد وحُنین سے سبق حاصل کرکے اسے اپنے موجودہ حالات پر منطبق کرنا چاہئے، وہ سبق یہ ہے: (1)رسول اللہ ﷺ کے حکم کے مقابل اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں ،مومن کا کام صرف صدقِ دل اور اخلاصِ نیت سے اللہ عزّوجلّ اور اس کے رسولِ مکرم ﷺ کے احکام پر عمل کرنا ہے ۔ غزوۂ اُحُد میں صحابۂ کرام کی نیت خالص تھی ، رسول اللہ ﷺ کے حکم سے انحراف کا کوئی ارادہ نہیں تھا ، لیکن انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے صریح حکم کو اپنے اجتہاد سے ترک کردیااور مسلمانوں کو ناقابلِ تلافی نقصان اٹھانا پڑا، یعنی قیادت کی غیر مشروط اطاعت لازمی ہے، بشرطیکہ اس کا حکم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرم ﷺ کی معصیت کا سبب نہ بنے۔
(2)غزوۂ اُحُد ہی کے موقع پر پُرجوش نوجوان صحابۂ کرام نے رسول اللہ ﷺ کی منشا کو جاننے کے باوجود مدینہ منورہ سے باہر نکل کرکھلے میدان میں کفار سے مقابلہ کرنے پر اصرار کیا ، اگرچہ بعد میں وہ اس پر نادم ہوئے، لیکن رسول اللہ ﷺ اجتماعی رائے کے پیشِ نظر اسلحے سے لیس ہوچکے تھے ، اس لئے اب فیصلے سے پیچھے ہٹنے کی گنجائش نہیں تھی، لیکن اس کا مسلمانوں کو نقصان اٹھانا پڑا اور عبداللہ بن اُبی کی قیادت میں تین سو منافقین کو بھی مسلمانوں کا ساتھ چھوڑنے کا بہانہ مل گیا۔
(3)رسول اللہ ﷺ کو مشورہ دیا گیا کہ یہودی قبائل جو مسلمانوں کے حلیف (Ally)ہیں ، انہیں مدد کے لئے بلایا جائے ، لیکن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہم کافروں کے مقابل جنگ میں کافروں پر اعتبار نہیں کرسکتے، اللہ تعالیٰ کا ارشا دہے: ''اے ایمان والو! غیروں کو اپنا رازدار نہ بناؤ، وہ تمہاری بربادی میں کوئی کسر نہ چھوڑیں گے، انہیں تو وہی چیز پسند ہے جس سے تمہیں تکلیف پہنچے ، ان کی دشمنی تو ان کی باتوں سے عیاں ہے اور(مسلمانوں کے خلاف جو نفرت وعداوت )وہ اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں ، وہ اس سے بھی بہت زیادہ ہے ، (آل عمران:103)‘‘۔
(4)حق وباطل کی جنگ میں کبھی بھی جوش کو ہوش پر غالب نہیں آنے دینا چاہئے ، جنگ محض جذباتی معاملہ نہیں ہے ، اس کے لئے گہرے تجزیے ، جامع حکمتِ عملی اور منظم منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ناتجربہ کاری اور ناپختہ ایمان بعض اوقات نفع کے بجائے نقصان کا باعث بن جاتاہے ۔ آج کل امت مسلمہ اسی ابتلا سے دوچار ہے کہ ایک مخصوص طبقہ اپنی فکر کو طاقت کے زور پر مسلط کرناچاہتا ہے اور اس کے نتیجے میں ہم خود ہی اپنے جسدِ ملّی کو پارہ پارہ کررہے ہیں ،پس ہمیں کسی خارجی دشمن کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
(5)رسول اللہ ﷺ نے اپنی ذاتِ عالی صفات کو اسوۂ وَقُدوہ(Role Model) اور نمونۂ عمل بنا کر یہ ثابت کیا کہ اگر قیادت اولوالعزم ہو ، شجاعت اورجر أ ت کی پیکر ہو ، غیر متزلزل ہو اور بڑے سے بڑے خطرے کا سامنا کرنے کی ہمت رکھتی ہو، تو اللہ تعالیٰ ناسازگار حالات کے باوجود شکست کو فتح میں تبدیل فرمادیتا ہے، یعنی کسی بھی بڑے سے بڑے معرکے کو سر کرنے کے لئے قیادت کاکردار سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔