مہم جوئی کا نہیں‘ کارِ سیاست حکمت کا نام ہے۔ فیصلہ کن لمحات میں جو دانائی کا مظاہرہ نہ کر سکیں‘ وقت انہیں روند کر گزر جاتا ہے۔ نوازشریف ہی نہیں‘ عمران خان بھی عرصۂِ امتحان میں ہیں۔ آئندہ چند روز میں ان کی قسمت کا فیصلہ ہو جائے گا۔
کھیل نازک مرحلے میں داخل ہو گیا۔ مذاکرات کی راہ بارودی سرنگوں سے پٹی ہے اور تین فریقوں‘ حکومت‘ تحریک انصاف اور علامہ طاہرالقادری کو احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ اندیشہ یہ ہے کہ وگرنہ لال مسجد جیسا کوئی سانحہ رونما ہو سکتا ہے۔
دو باتوں پہ یہ ناچیز اصرار کرتا رہا۔ اول یہ کہ عمران خان کے مطالبات کو سنجیدگی سے لینا ہوگا‘ ثانیاً شریف حکومت کو اکھاڑا نہیں جا سکتا۔ بیشتر سیاسی فریق عدم اعتدال کا شکار رہے۔ سراج الحق کی کوششوں سے اب بالآخر نتیجہ خیز بات چیت کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ اعتماد بحال کر کے عمران خان اور ان سے زیادہ نوازشریف کو وسعتِ قلبی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
ایک بڑا خطرہ لاہور میں ہے‘ جہاں طاہرالقادری کے کارکنوں کا گھیرائو ہے۔ علامہ صاحب ہیجان کا شکار ہیں اور یہاں تک انہوں نے کہہ دیا کہ شریف خاندان ملک سے فرار ہونے کی تیاری کر چکا۔ حمزہ شہباز نے وضاحت کردی ہے۔ نہ بھی کرتے تو یہ واضح تھا کہ دور تک ایسا کوئی امکان نہیں۔
اس قدر غیر منطقی دعویٰ انہوں نے کیوں کیا‘ جو بالآخر ان کے لیے شرمندگی لائے گا اور ایسی شرمندگی‘ جس کا مداوا کوئی نہ ہوگا؟
ہندوستان میں فارسی کے آخری بڑے شاعر مولانا عبدالقادر گرامیؔ اقبال کے ذاتی دوست تھے۔ ایک بار کہا تھا: گرامیؔ کو دیکھ لو‘ آنے والی نسلوں کے سامنے اس بات پہ فخر کر سکو گے۔ مہینوں وہ اقبال کے گڑھی شاہو والے مکان میں قیام کرتے۔ سرتاپا شاعر‘ نیم مجذوب سے مگر حسن کلام کے تاجدار۔ ایک دن علی بخش سے انہوں نے کہا: کل گوبھی گوشت پکوائو۔ اگلے دن وہ ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو برہم ہو کر بولے: کیا مذاق ہے۔ صبح گوبھی گوشت‘ دوپہر گوبھی گوشت‘ شام گوبھی گوشت‘ میں تو تنگ آ گیا۔ کھانے کی ٹرے اٹھائے علی بخش علامہ کے کمرے میں داخل ہوئے اور ماجرا بیان کیا۔ انہوں نے حکم دیا کہ جس قدر جلد ممکن ہو‘ مولانا گرامی کے لیے دوسرے سالن کا بندوبست کیا جائے۔ پھر کچھ دیر میں علی بخش کو بتایا: حکم صادر کرنے کے بعد مولانا گرامی عالمِ خیال میں معلوم نہیں کتنی بار گوبھی گوشت کھا چکے اور اب اس سے بیزار ہیں۔
اس بات کو ایک لطیفہ نہ سمجھا جائے۔ عالمِ تصور میں علامہ صاحب بارہا انقلاب برپا کر چکے۔ تاریخ ساز منصب پر فائز ہو کر معلوم نہیں کیسے کیسے احکامات صادر فرما چکے۔ بریلوی مکتب فکر کے وہ ایک خوش خیال خطیب ہیں۔ ہرگز وہ کوئی بڑے عالم نہیں۔ اقتدار ان کی منزل ہے اور عمر بھر اس کے لیے منصوبہ بندی کرتے رہے۔ وہ ایک داستان گو ہیں اور خوش عقیدہ لوگوں کا شکار کرتے ہیں۔ غیر معمولی ذہانت اور اخلاص کی ایک خاتون نے جو اللہ کی تلاش میں تھیں‘ ایک بار یہ کہا: دوسروں کے علاوہ علامہ صاحب کا بھی میں نے مطالعہ کیا‘ وہ یہ کہتے ہیں کہ ''پہلے تو مجھے ولی اللہ تسلیم کرو‘ اس کے بعد میں تم سے بات کروں گا‘‘۔
صاف ترین الفاظ میں‘ میں اپنے دوست عمران خان (اور ہاں چودھری صاحبان) کو متنبہ کرتا ہوں کہ وہ ان صاحب سے دور رہیں‘ وگرنہ اپنی منزل کھوٹی کر لیں گے۔ جس شخص کو اللہ کے آخری رسولؐ سے کوئی بات منسوب کرنے میں حجاب نہ ہو‘ وہ اور کیا نہیں کر سکتا۔
سیاستدان ایک دوسرے کے باب میں بہت ہی بے رحم ہوا کرتے ہیں۔ شریف خاندان سے ہرگز کوئی ہمدردی مجھے نہیں مگر انصاف بھی تو ایک چیز ہے۔ شہباز شریف سانحہ ماڈل ٹائون کے لیے بالواسطہ تو یقینا ذمہ دار ہیں۔ ان کا طرز حکومت ناقص ہے مگر تحقیق سے اب یہ واضح ہے کہ براہ راست گولی چلانے کا حکم انہوں نے ہرگز نہ دیا تھا؛ اگرچہ اب ان کے طرزِ عمل میں انتقام جھلکتا ہے۔ ان کے ذہن پہ طاہرالقادری سوار ہیں مگر یہ بات انہیں فراموش نہ کرنی چاہیے کہ علامہ کے سادہ لوح فدائین کا کوئی قصور اس میں ہرگز نہیں‘ جن پر گولیوں کی بوچھاڑ کی گئی۔ جنہوں نے لاشیں اٹھائیں۔ ان لوگوں کو مشتعل کرنا خطرناک ہوگا۔ کتنی ہی دیر میں تامل کا شکار رہا کہ یہ بات لکھوں یا نہ لکھوں۔ ملک کے دشمن بہت ہیں۔ سرحدوں کے اندر اور باہر بھی۔ وہ ماڈل ٹائون میں فساد کی کوشش کر سکتے ہیں اور اسلام آباد میں بھی‘ حتیٰ کہ طاہرالقادری اور عمران کو ذاتی طور پر نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ عمران خان کو بہرحال دارلحکومت پہنچنے کی کوشش کرنا ہے‘ اگر وہ نہیں کرتے تو سیاسی طور پر خودکشی کا ارتکاب کریں گے۔
سمجھوتہ اسلام آباد میں ہونا چاہیے اور اس طرح ہونا چاہیے کہ عمران خان اور وزیراعظم میں سے کسی کے لیے شرمندگی کا باعث نہ ہو۔ اسی میں دونوں کی نجات ہے۔ اگر یہ بات وہ سمجھ نہ سکے تو تاریخ کی بارگاہ میں مجرموں کی طرح کھڑے ہوں گے اور بالآخر مسترد کر دیئے جائیں گے۔ عمران خان کو اپنا لہجہ اب نرم کرنا چاہیے اور نوازشریف کو چاہیے کہ مشاہد اللہ خان‘ رانا ثناء اللہ‘ رانا مشہود اور پرویز رشید کو غیر ذمہ دارانہ اظہارِ خیال سے منع کریں۔ آدھا مسئلہ اسی سے حل ہو جائے گا۔ مولانا فضل الرحمن کو پرے رکھیں تو ایک چوتھائی اس سے۔ وہ اپنی ذات گرامی کے سوا کسی کے نہیں۔ ریلوے میں خواجہ سعد رفیق کی کارکردگی قابلِ تحسین ہے۔ بالآخر اس ادارے کے بحال ہو جانے کی امید جاگی ہے۔ مگر سیاسی بیان جاری کرتے ہوئے ان کے اندر کا طالب علم لیڈر غالب آ جاتا ہے‘ مثلاً یہ کہ اسلام آباد کو انقلابیوں یا فسادیوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جائے گا۔ کس کو انہوں نے فسادی کہا۔
اللہ کرے معاہدہ ہو جائے تو امکانی طور پر اسے ایک آرڈیننس کی صورت میں نافذ کیا جا سکتا ہے۔ پس پردہ مذاکرات میں‘ اول اول جس کی تجویز قمر زمان کائرہ نے پیش کی تھی اور سراج الحق نے جھپٹ لی۔ بہت اچھا کیا۔ مذاکرات کے لیے سراج الحق بہترین آدمی ہیں۔ اترسوں کی ملاقات میں عمران خان سے انہوں نے کھل کر بات کی بلکہ کھری کھری۔ اسی طرح وزیراعظم سے بھی نہایت خوبی کے ساتھ عمران خان کے صرف ان مطالبات کو انہوں نے اپنایا جو قابل قبول تھے۔ پھر حکمت کے ساتھ اپنی طرف سے پیش کیے تاکہ ڈور الجھ نہ جائے۔ پنجابی محاورے کے مطابق پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم والے تو شلغموں سے مٹی جھاڑ رہے تھے۔ موقع پرست فضل الرحمن اور پہلی بار اقتدار کا مزہ چکھ کر مدہوش ہو جانے والے محمود اچکزئی نے بالکل ہی غلط مشورے دیئے۔ وہ آدمی جو اس لطیفے کا خالق ہے کہ ذاتی کوشش سے‘ اس نے افغانستان کو پاکستان پر حملہ کرنے سے باز رکھا۔
عمران خان کے کارکنوں میں غیر معمولی جوش و خروش ہے۔ انہیں مگر یاد رکھنا چاہیے کہ وہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو مستعفی ہونے پر مجبور نہیں کر سکتے۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کو نون لیگ کی حکومت سازگار ہے۔ دہشت گردی سے نبرد آزما مسلح افواج ہرگز ان کے حق میں مداخلت نہ کریں گی۔ آخری تجزیے میں میڈیا بھی‘ حکومت کا تختہ الٹنے میں ان کا مددگار نہ ہوگا۔ میں جانتا ہوں کہ اب وہ مجھ سے کچھ زیادہ حسن ظن نہیں رکھتے۔ کانوں کے وہ کچے ہیں اور دن رات انہیں اس ناچیز کے خلاف اکسایا جاتا ہے۔ میں مگر اپنی فطرت سے مجبور ہوں۔ اٹھارہ سالہ رفاقت کو دل سے نوچ کر پھینک نہیں سکتا۔ انہیں رسوا ہوتے ہوئے میں دیکھ نہیں سکتا؛ اگرچہ ان کے گلو بٹوں نے میری توہین میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اگر کچھ حلقے کھل جائیں اور یوں بعض پر دوبارہ الیکشن ہوں۔ اگر وہ نیا الیکشن کمشن حاصل کر لیں اور آئندہ عام انتخابات کو دھاندلی سے پاک رکھنے کی ضمانت کے علاوہ‘ اچھی نگران حکومت‘ تو یہ ان کی بڑی کامیابی ہوگی۔ پہلی بار میڈیا نے توازن کا مظاہرہ کیا۔ پہلی بار دہشت گردی کے خاتمے اور منصفانہ انتخاب کا امکان پیدا ہوا ہے۔
مہم جوئی کا نہیں‘ کار سیاست حکمت کا نام ہے۔ فیصلہ کن تاریخی لمحات میں جو لوگ دانائی کا مظاہرہ نہ کر سکیں‘ وقت انہیں روند کر گزر جاتا ہے۔ نوازشریف ہی نہیں‘ عمران خان بھی عرصۂِ امتحان میں ہیں۔ آئندہ چند دنوں میں ان کی قسمت کا فیصلہ ہو جائے گا۔
پسِ تحریر: کس قدر شرم کی بات ہے کہ مذاکرات کے تازہ دور میں بلدیاتی الیکشن کسی کو یاد نہیں۔ شہری حکومتوں کے بغیر کہاں کی جمہوریت‘ کون سی جمہوریت۔