تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     10-08-2014

خوداحتسابی

مشکل اس وقت آن پڑتی ہے‘ گرہ اس وقت کھلنے میں نہیں آتی‘ جب اپنی غلطی پر غور کرنے سے انکار کردیا جاتا ہے۔ جب ناکامی کے اسباب خارج میں تلاش کیے جاتے ہیں۔ ایک ذرا سی خود احتسابی‘ اللہ کے بندو‘ کبھی ایک ذرا سی خوداحتسابی! 
شریف حکومت ہی کو لیجیے‘ اچھا بھلا مذاکرات کا سلسلہ چل نکلا تھا۔ پھر اس نے علامہ طاہرالقادری کے کارکنوں پہ یلغار کردی‘ پٹرول پمپ بند کر دیے گئے‘ اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ کردی گئی اور تحریک انصاف کے حامیوں کو ہراساں کیا جانے لگا۔ اس کے بعد سکیورٹی کے نام پر برپا کی جانے والی کل جماعتی کانفرنس کتنی مددگار ہو سکتی ہے‘ اصل فریق جس میں موجود ہی نہیں‘ شیخ رشید‘ چودھری برادران اور ڈاکٹر طاہرالقادری تو کیا‘ عمران خان بھی نہیں۔ شہزادے کے بغیر ہیملٹ کا ڈرامہ کس طرح سٹیج کیا جا سکتا ہے؟ 
افسوس کہ فخر الدین جی ابراہیم نے بھی بالآخر وہی کیا ہے‘ کبھی بہت چاہ اور بڑی امیدوں کے ساتھ جنہیں چیف الیکشن کمشنر بنایا گیا تھا۔ اس الیکشن کے لیے‘ جس میں پہلی بار ایک سول حکومت سے‘ دوسری سول حکومت کو اقتدار منتقل ہونا تھا۔ 
فخر الدین جی ابراہیم کتنے ہی اچھے جج رہے ہوں مگر انتظامی صلاحیت ان میں نام کو نہیں۔ عمر بھی ان کی بڑھ گئی اور یادداشت ان کی مددگار نہیں؛ حتیٰ کہ بہت بنیادی بات بھی انہیں یاد نہیں رہتی۔ عربوں کا محاورہ یہ ہے ''لِکُلِّ فَنٍّ رِجَالُٗ‘‘۔ ہر کام کے لیے لوگ مختص ہوتے ہیں۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے: بندے سے جو کام اللہ لینا چاہتا ہے‘ وہ اس کے لیے آسان کر دیتا ہے۔ 
مدتوں کی خاموشی کے بعد... اور انہیں خاموشی ہی زیبا تھی... بالآخر انہوں نے زبان کھولی ہے۔ دوسری چیزوں کے علاوہ یہ کہا کہ اگر فوج کا کردار زیادہ ہوتا‘ الیکشن اگر مرحلہ وار ہوتے اور ہر پولنگ سٹیشن پر ایک فوجی افسر مقرر کردیا جاتا تو الیکشن زیادہ خوبی سے منعقد ہو سکتے۔ 
کچھ پرانی باتیں‘ ایک بار پھر دہرانا ہوں گی۔ ایک بار پھر اس واقعے کو یاد کیجیے کہ بزرگ جج کا اکرام ملحوظ رکھتے ہوئے چیف آف آرمی سٹاف ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ بہت دیر تک بات ہو چکی اور رخصت ہونے کا وقت آیا تو جج صاحب نے جنرل کیانی سے کہا ''کیانی صاحب کو میرا سلام کہیے گا‘‘۔ ان کی خدمت میں‘ وہ کس لیے حاضر ہوئے تھے؟ ظاہر ہے کہ الیکشن کو منصفانہ بنانے کی کوشش میں مدد دینے کے لیے۔ 
یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ الیکشن کمیشن دو پارٹیوں کی سازباز سے بنا تھا۔ ''سازباز‘‘ کا لفظ اگر ناگوار ہے تو مفاہمت کہہ لیجیے۔ کراچی کو ایم کیو ایم کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تھا اور اس آزادی سے متحرک جماعت نے پورا فائدہ اٹھایا۔ نجم سیٹھی ایسے شخص کو دس کروڑ کی آبادی پر نگران وزیراعلیٰ بنا دیا گیا۔ آج بھی وہ وزیراعظم کے آدمی ہیں۔ کرکٹ بورڈ اب کھیل سے زیادہ خارجہ پالیسی کا میدان ہے۔ نجم سیٹھی کے بعد شہریار خان۔ باخبر لوگ یہ کہتے ہیں کہ سابق چیئرمین بھارت جاتے تو کرکٹ سے متعلق شخصیات سے زیادہ وزیراعظم کے ایما پر بھارتی سیاستدانوں سے ملاقاتیں کرتے۔ میاں محمد نوازشریف کے پیغامات انہیں پہنچاتے۔ شہریار خان ٹریک ٹو ڈپلومیسی سے وابستہ رہے اور ان کے خیالات سے ہر باخبر آدمی آشنا ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ کرکٹ بورڈ میں ان کی حیثیت تابعِ مہمل کی ہوگی۔ جسے پیا چاہے‘ وہی سہاگن‘ قوانین اور دستور دفع دور! 
الیکشن کمیشن نے جب جنرل اشفاق پرویز کیانی سے یہ کہا کہ ہر پولنگ سٹیشن پر ایک فوجی افسر ہونا چاہیے تو انہوں نے مطلع کیا تھا کہ افسروں کی کل تعداد 25 ہزار اور پولنگ سٹیشن 80 ہزار۔ پھر جسٹس کیانی سے‘ تھکے ماندے چیف الیکشن کمشنر کی جگہ جنہوں نے اختیار سنبھال رکھا تھا‘ جنرل نے سوال کیا: کسی مقام پر دھاندلی اگر واقعی برپا ہو تو کیا فوجی افسر کو پولنگ روک دینے یا مداخلت کرنے کا اختیار ہوگا۔ واضح طور پر ان کا جواب نفی میں تھا۔ سپہ سالار اس کے بعد کیا کرتا؟ دس پندرہ ہزار افسروں کو اگر وہ تعینات کر بھی دیتا تو دھاندلی کے الزام پر قوم کو کیا جواب دیتا؟ 
الیکشن کی شب 'دنیا‘ ٹیلی ویژن پر ناچیز نے کہا کہ کراچی کی حد تک فوج اور ر ینجرز بھی ذمہ دار ہیں۔ اس کے بعد پہلی بار جنرل کیانی سے ملاقات ہوئی تو مذکورہ واقعہ انہوں نے سنایا۔ پھر کراچی پہنچا تو حیران کن تفصیلات معلوم ہوئیں۔ کئی پولنگ سٹیشنوں پر عملہ ہی نہ پہنچا تھا اور رینجرز کے وہ افسر پریشان تھے‘ امن و امان جن کی ذمہ داری تھی‘ حتیٰ کہ ان میں سے ایک نے‘ ایک معروف پولیس افسر کو گرفتار کرنے کی دھمکی دی۔ محترمہ جاسمین منظور نے کیمرے کی نظر سے‘ ووٹوں کے وہ انبار دکھائے‘ پولنگ سٹیشنوں کے عقب میں جو ایک سیاسی پارٹی کے رحم و کرم پر تھے۔ اس پر انہیں قتل کی دھمکی دی گئی۔ اخبار نویسوں کے ساتھ ایک ملاقات کے ہنگام‘ جب نیک نام اور روتی بلکتی اخبار نویس نے وزیراعظم سے مدد کی التجا کی تو ان کا جواب یہ تھا ''میں آپ کے لیے دعا کروں گا‘‘۔ الیکشن کمیشن کے سیکرٹری نے تسلیم کیا کہ کراچی میں آزادانہ الیکشن کے تقاضے پورے نہ ہو سکے مگر کیا ایک بھی قابل ذکر مجرم کے خلاف کارروائی ہوئی۔ کراچی کے باب میں سپریم کورٹ یہ فیصلہ صادر کر چکی تھی کہ چار سیاسی پارٹیاں بھتہ خوری میں ملوث ہیں۔ ظاہر ہے کہ جرائم پیشہ گروہ پالنے ہیں۔ کیا اس شہر میں خصوصی انتظامات کی ضرورت نہ تھی۔ فخر الدین جی ابراہیم آج یہ کہتے ہیں اور بجا کہتے ہیں کہ دھاندلی کے معاملات میں الیکشن ٹربیونلز کو 120 دن میں فیصلہ صادر کرنے کا اختیار ہونا چاہیے تھا۔ یہ بات اس وقت انہیں کیوں یاد نہ آئی۔ تب کیا انہوں نے اس کے لیے کوشش کی؟ قوم کو آگاہ کیا ہوتا۔ اگر ایک عدد پریس کانفرنس وہ کر دیتے تو نگران حکومت اور دھاندلی کا منصوبہ بنانے والوں پر دبائو پڑتا۔ وہ مگر نظم و نسق کے آدمی ہی نہیں۔ بس وہ استعفیٰ دے سکتے ہیں‘ اٹارنی جنرل بنے‘ گورنر یا چیف الیکشن کمشنر‘ ہمیشہ یہی کیا۔ ایک بار آدمی غلطی کرتا ہے مگر بار بار کیوں؟ اس قدر تکریم اور پذیرائی کے باوجود جو انہیں حاصل تھی‘ ہر بار ایسے مناصب کا شوق انہیں کیوں لاحق ہوا‘ جن سے وہ انصاف نہ کر سکتے تھے۔ 
کیا الیکشن کا اہتمام کرنے والوں میں نیک نیتی کارفرما تھی۔ حلقہ این اے 122 میں چھ پولنگ سٹیشنوں کے تھیلے کھول کر دیکھے گئے۔ 80 فیصد سے زیادہ ووٹوں پر انگوٹھوں کے نشان قابل شناخت نہیں۔ ملک بھر میں یہی ہوا۔ آخر کیوں؟ کوئی تو ذمہ دار ہوگا۔ کیا اس کے خلاف قانون کبھی حرکت میں آیا؟ سال بھر عمران خان چلاتے رہے۔ ان کی بات سننے سے انکار کردیا گیا۔ ان کا مذاق اڑایا گیا اور ان پر طعنہ زنی کی گئی۔ آج وہ اسلام آباد پہ یلغار کا عزم رکھتے ہیں تو وزیراعظم مذاکرات کی پیشکش فرماتے ہیں۔ ہنگامہ نہ ہونا چاہیے‘ بات چیت ہی میں بھلائی ہے۔ حکومت کو اکھاڑ پھینکنے کی کوشش سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ طوفان اب بھی تھم سکتا ہے‘ بحران اب بھی ٹل سکتا ہے‘ عمران خان اور وزیراعظم سمیت سبھی کو اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا۔ مشکل اس وقت آن پڑتی ہے۔ گرہ اس وقت کھلنے میں نہیں آتی‘ جب اپنی غلطی پر غور کرنے سے انکار کردیا جاتا ہے۔ ناکامی کے اسباب جب خارج میں تلاش کیے جاتے ہیں۔ ایک ذرا سی خود احتسابی‘ اللہ کے بندو‘ کبھی ایک ذرا سی خوداحتسابی! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved