تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     10-08-2014

اقتدار بھی کیا چیز ہے

جنرل پرویز مشرف کے وزیرداخلہ آفتاب شیر پائو صاحب کو وزیراعظم ہائوس میں نواز شریف کو عمران خان کے خلاف مشوروں میں مصروف دیکھ کر اُن کی قسمت پر رشک آیا۔ اگر اس رشک میں کوئی کسر رہ گئی تھی تو وہاں موجود پرویز رشید کو مسکراتے دیکھ کر پوری ہوگئی۔ 
یاد آیا جنرل مشرف کا مارشل لاء لگا تو آفتاب شیرپائو پاکستان سے فرار ہوگئے تھے کیونکہ وہ مبینہ طور پر کچھ مالی سکینڈلز میں ملوث تھے ۔ کچھ عرصہ گمنام رہے اور پھر ایک دن لندن میں ابھرے۔ اپنے ایک اہم عزیز کو درمیان میں ڈالا‘ جنرل مشرف اور نیب سے ڈیل ہوئی اور پھر وہ پاکستان لوٹ آئے۔ ہمارے جیسوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے کچھ دن ریسٹ ہائوس جیسی جیل اور پھر ضمانت ۔ وقت بدلا اور کچھ عرصے بعد وہ جنرل مشرف کے دور میں ہی اس ملک کے وزیرداخلہ بن گئے تھے۔ اس وقت شوکت عزیز وزیراعظم تھے۔ جسے نیب تلاش کرتی پھر رہی تھی وہی اب اس کا باس تھا ۔
یہ کمال پاکستان میں ہی ہو سکتا ہے۔ جس سکینڈل کی وجہ سے وہ ملک سے فرار ہوئے، نیب کو مطلوب تھے‘ کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ اس کا کیا ہوا ۔
آفتاب شیرپائو صاحب کو نواز شریف کے ساتھ دیکھ کر مجھے 10 ستمبر 2007ء کا دن یاد آیا جب نواز شریف لندن سے آئے اور اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترے تھے۔ ان کا جو حشر اس وقت کے وزیرداخلہ آفتاب شیرپائو نے کرایا تھا ، وہ میرا خیال ہے ان سب کو یاد ہوگا جو اس وقت وزیراعظم نوازشریف کے خلاف چلنے والی مہم کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ میں اور ارشد شریف سب کچھ آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ 
میں نے وزیراعظم ہائوس کی طرف سے جاری کی گئی اس تصویر کو غور سے دیکھا تو آفتاب شیرپائو کے ساتھ بیٹھے وزراء میں پرویز رشید بھی شامل تھے۔ پرویز رشید لندن سے اسلام آباد کی فلائٹ میں میرے اور ارشد شریف کے ساتھ بیٹھ کر آئے تھے۔ نواز شریف صاحب کو یقین دلایا گیا تھا کہ عوام کا ہجوم ان کا استقبال کرے گا۔ نواز شریف صاحب بھی اس وقت اسی طرح کا انقلاب لا رہے تھے جیسا آج عمران خان اور طاہر القادری لانا چاہتے ہیں۔ ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ وہ لندن میں آرام دہ زندگی گزارتے ہیں لیکن ان کے دل میں لوگوں کا درد ہے۔ لوگ جنرل مشرف دور میں بری زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کا وطن اور ان کی قوم انہیں بلا رہی ہے۔ نواز لیگ کا ایک رکن بھی ایئرپورٹ نہ پہنچ سکا۔ جب جہاز اسلام آباد کی فضا میں داخل ہوا تو نواز شریف صاحب نے اپنے لیڈروں سے سٹیلائٹ فون کے ذریعے بات کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ سب جیالوں کے فون بند تھے اور ان کے قائد کی پیشانی پر پسینہ ہم سب کو جہاز میں واضح نظر آرہا تھا ۔ سب لیڈروں نے پولیس کو فون کر کے گرفتاریاں دے دی تھیں۔ احسن اقبال سیانے نکلے۔ پولیس سے پہلے میڈیا کو فون کیا اور زیرو پوائنٹ پر وکٹری کا نشان بنا کر کیمروں کے سامنے گرفتاری دی اور یہ مناظر سفارش کرا کے ہر ٹی وی شو کے پرومو میں اگلے چھ ماہ تک چلوائے گئے تاکہ میاں صاحب کی یادداشت میں ان کی گرفتاری کا منظر ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجائے کیونکہ میرے جیسے کسی بدخواہ نے میاں صاحب کے کان میں لندن میں سرگوشی کی تھی کہ ان کے ایک چہیتے نے بارہ اکتوبر کے روز جنرل مشرف کے مارشل لا کے بعد بی بی سی کے سامنے ان کے بارے میں کن ''اچھے اور نیک‘‘ خیالات کا اظہار کیا تھا ۔ 
مجھے یاد آیا کہ جب میاں نواز شریف کو آفتاب شیرپائو کی پولیس کے کمانڈو ایئرپورٹ کے باتھ روم میں بند کر رہے تھے اور انہیں سعودی عرب جانے والے طیارے کی طرف لے کر جارہے تھے تو اس وقت پرویز رشید کی آنکھوںمیں آنسوتھے۔ وہ زور سے چلا رہے تھے کہ شرم کرو‘ یہ شخص تمہارے ملک کا دودفعہ وزیراعظم رہا ہے۔ میرے دوست نادر چوہدری کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور کہہ رہے تھے‘ میاں صاحب وی لَو یُو۔ مجھے دیکھ کر نادر چوہدری نے کہا تھا: دیکھ رہے ہیں آپ‘ ملک کے سابق وزیراعظم کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ نادر چوہدری سے لندن میں ایک تعلق بنا تھا‘ کیونکہ میں نے انہیں ایک بہادر اور وفادار شخص پایا تھا اور ان کی آج تک میں عزت کرتا ہوں۔ میاں صاحب کی اپنی بھی آنکھوں میں اس صورتحال کا سامنا کر کے نمی تھی اور وہ زور سے چلا رہے تھے ''جو یہ سب کچھ کر رہے ہیں‘ انہیں اس کا حساب دینا ہوگا‘‘۔ 
آج مجھے میرا لندن کے دنوں کا دوست نادر چوہدری کہیں مل جائے تو اس سے وہی سوال پوچھوں کہ میرے دوست یہ کیاہورہا ہے؟ میاں صاحب نے تو ایئرپورٹ پر سب کو دھمکیاں دی تھیں... کیا بنا ان دھمکیوں کا؟ جن سے بدلہ لینا تھا ان سے تو آج مشورے مانگے جارہے تھے۔
پہلے میں سمجھا شاید میاں صاحب نے آفتاب شیرپائو کو اس لیے بلایا ہے کہ انہیں یاد دلا سکیں‘ کیسے وہ اس روز اس ملک کے وزیرداخلہ تھے‘ جس دن انہیں ایئرپورٹ پر گھسیٹا گیا تھا ۔ میں نے وزیراعظم ہائوس سے جاری کی گئی اس غیرمعمولی تصویر کو غور سے دیکھنے کی کوشش کی کہ شاید پرویز رشید صاحب کی آنکھوں سے اب بھی آنسو بہہ رہے ہوں جیسے اس دن اسلام آباد ایئرپورٹ پر بہہ رہے تھے کیونکہ جن کی وجہ سے آنسو بہہ تھے‘ وہ آج ان کے سامنے موجود تھے۔ پتہ چلا کہ پرویز رشید بہت خوش تھے کہ شیرپائو جیسا سمجھدار اور سخت گیر سابق وزیرداخلہ انہیں مشورے دے رہا تھا کہ عمران خان سے کیسے نبٹنا تھا ۔ 
تصویر دیکھ کر میں سوچتا رہا کہ آخر نواز شریف صاحب کو کس بات نے قائل کیا ہوگا کہ وہ اس وزیرداخلہ سے مشورہ کریں جس کے حکم پر انہیں دھکے دیئے گئے تھے۔ شاید سیاستدان سمجھتے ہیں سیاست میں کوئی بات حرف آخرنہیں ہوتی؟ آج شیرپائو عمران خان سے خفا ہیں کیونکہ ان کے وزرا کو کابینہ سے کرپشن کے الزامات پر نکالا گیا تھا۔ لیکن پھر پوچھا جا سکتا ہے‘ جنرل مشرف تو آپ کے دشمن ہیں تو ان کا دوست آپ کا دشمن ہونا چاہیے لیکن اسے آپ دوست بنائے بیٹھے ہیں کیونکہ اس وقت بڑا خطرہ عمران خان سے ہے نہ کہ جنرل مشرف سے۔ 
تو کیا وزیراعظم نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کے نزدیک ان کے ساتھ ایئرپورٹ پر جو بدترین سلوک کیا گیا تھا‘ وہ ایک روٹین کا معاملہ تھا... ان پر جنرل مشرف نے تشدد کرایا تھا تو آج وہ عمران خان اور طاہر القادری کے ورکرز اور لیڈروں پر تشدد کرا کے اپنا حساب برابر کر رہے ہیں۔ حساب کتاب ایسے ہی برابر ہوتے ہیں۔ ویسے بھی اقتدار کے سفر میں ایسی چھوٹی موٹی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ غالباً پرویز رشید صاحب کے آنسو بھی آسکر ایوارڈ یافتہ اداکاری اور گلیسرین کا کمال تھے۔ نادر چوہدری کے نعرے بھی محض میڈیا کی توجہ لینے کے لیے تھے۔ میاں صاحب کی پولیس کمانڈوز اور دیگر کو دھمکیاں کہ ان سے حساب لیا جائے گا محض ایک جذباتی اور وقتی ردعمل تھا‘ جسے میرے جیسے نادان ایک انسان کی ایک پکی قسم سمجھ بیٹھے تھے کہ انہیں موقع ملا تو وہ ایسے لوگوں سے بدلہ نہ سہی لیکن کم از کم دوری تو ضرور اختیار کریں گے۔ پتہ چلا کہ اقتدار کے لیے ذاتی انا، عزت اور مجروح روح کو سلانا پڑتا ہے۔ 
اس تصویر میں عزت مآب محمود اچکزئی بھی بیٹھے ہوئے ہیں ۔ کبھی میرے جیسے سر پھرے انہیں سر پر بٹھاتے او ر سمجھتے تھے چلیں پاکستان میں ایک سیاستدان ہے جسے لالچ، خاندانی سیاست اور اقتدار سے چڑ ہے۔ جس کی گفتگو سن کر ہم سب سر دھنتے تھے۔ پھر کیا ہوا ؟ پھر یہ ہوا کہ اچکزئی نے بلوچستان سے پہلے وزیراعظم ظفر اللہ جمالی کو ووٹ نہ دیا کیونکہ وہ بلوچ تھا؛ لیکن پنجاب کے وزیراعظم کو ووٹ دیا کیونکہ اس وزیراعظم کی وجہ سے ایک بھائی گورنر اور دوسرا وزیر بن گیا تھا۔ شاید یہی وہ منزل تھی جسے پانے کے لیے اچکزئی صاحب نے برسوں سیاست میں گزارے ۔ پنجاب کے سیاستدانوں کی طرح اچکزئی صاحب کو بھی موقع کی تلاش تھی۔ موقع ملا اور وہ پورا خاندان اقتدار میں لے آئے۔ آج کل موصوف نواز شریف کے غیرسرکاری سیاسی مشیر ہیں۔ میں ابھی تک وزیراعظم ہائوس سے جاری کی گئی اس تصویر میں اٹکا ہوا ہوں۔ اس تصویر کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے ہم سب سے کتنے جھوٹ بولے گئے ۔ کتنے فریب ہوئے ۔ جھوٹے وعدے اور پھر کہیں جا کر اقتدار ملا اور خدا کی قدرت دیکھیں... اقتدار ملا تو بھی کیسا کہ اسے بچانے کے لیے آج انہی شیرپائو سے مشورہ کرنا پڑ رہا ہے جن کے حکم پر 10 ستمبر 2007ء کو ہم سب نے ایک وزیراعظم کو اسلام آباد ایئرپورٹ پر باتھ روم میں بند کرتے ہوئے دیکھا تھا! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved