تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     10-08-2014

آزمائش کی گھڑیاں

اہلِ فلسطین پر ہونے والے ظلم و تشدد نے ہر حساس دل کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔دنیابھر میںمسلمانوں نے اس واقعہ پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے ۔ یہودیوں کی ریاستی دہشت گردی کے خلاف اجتماعات ،جلسے اورجلوسوں کا انعقاد کیاجارہا ہے۔ 8اگست کو بھی اس حوالے سے ملک بھر کی مساجد میں خطبات جمعہ اور اجتماعات میں احتجاج کیاگیا۔
مسلمان آج اپنے غافل حکمرانوںکی وجہ سے جس ذہنی اذیت اور پریشانی کاشکار ہیں اس کا اظہار تحریر و تقریر کے ذریعے کرنا ممکن نہیں ہے ۔ آزمائش کی گھڑیوں میں اپنے بہنوں اور بھائیوںکے کام آنا مسلمانوںکی ذمہ داری ہے۔
عقیدے اور ایمان کی وجہ سے اہل فلسطین آج جس آزمائش کا نشانہ بن رہے ہیں، اس کی تاریخ بہت قدیم ہے ۔ہر دور میں اہلِ طاقت نے کھل کرمظلوم اہلِ ایمان کو ظلم و تشددکا نشانہ بنایا ۔فرعون نے بنی اسرائیل کے ہزاروں بچوںکواپنا اقتدار بچانے کے لیے شہید کر دیا مگرپھر بھی اللہ کے حکم سے حضرت موسیٰ علیہ السلام منظر عام پر آ کر رہے ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعوت اورپیغام کو قبول کرنے کی پاداش میں حضرت آسیہ سلام اللہ علیہا کو فرعون کے ظلم و تشدد کا نشانہ بننا پڑا ۔حضرت آسیہ ؑ نے جب دعوت توحید پر استقامت اختیار کی تو فرعون نے ان کے قتل کا حکم جاری کر دیا ۔سیدہ آسیہ ؑ نے پروردگار عالم کی بارگاہ میں جو دعا مانگی اللہ تعالیٰ نے اس کو رہتی دنیا تک اپنے کلام کا حصہ بنایا دیا۔سورۃ تحریم کی آیت 11میں حضرت آسیہ سلام اللہ علیہا کی دعا مذکور ہے ۔ انہوں پروردگار عالم کی بارگاہ میں آکرعرض کی: ''اے میرے رب !میرے لیے اپنے پاس ایک گھر بنا دیجئے اور مجھے فرعون کے عمل اور اس کی ظالم قوم سے نجات دلا دیجئے۔‘‘اللہ تعالیٰ نے توحید کی خاطر قربانی دینے والی سیدہ آسیہ ؑ کو استقامت کی ایک علامت بنادیا تاکہ بعد میں آنے والے لوگ آپ ؑ کی سیرت سے رہنمائی حاصل کر تے رہیں۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سورۃ بروج میں اصحاب الاخدودکا ذکر کیا جنہیں دعوت توحید سے تعلق استوار کرنے کی پاداش میں خندقوںمیں جلا کر راکھ کر دیا گیا ۔اصحاب الاخدودنے جلنا گوارا کر لیا مگر اللہ تعالیٰ کی توحید پر سمجھوتہ کرنا گوارا نہیں کیا۔جدالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی اللہ تعالیٰ کی توحید کے لیے بے مثال قربانیاں دیں ۔آپ ؑ نے نمرود کے دربار میں صدائے توحید بلند کی۔ آپ ؑ نے بتوںکو پاش پاش کر اپنے عقیدے کو بستی والوں پہ واضح کر دیا ۔آپؑ کو اس عقیدے کی پاداش میںجلتی ہوئی چتا میں پھینک دیا گیا لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی خاص تائید و نصرت سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو محفوظ ومامون رکھا۔
اللہ تعالیٰ کے نبی کریم حضرت محمد رسول اللہ ﷺ بھی پیغام توحید اور اللہ تعالیٰ کے دین کا پرچار کرتے ہوئے جبر و تشدد کا نشانہ بنے ۔آپ ﷺ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے ۔آپﷺ کے گلوئے اطہر میں کپڑا ڈال کر آپ کی گردن مبارک کو بھینچاگیا،لیکن آپﷺ نے کفار کے تمام مظالم کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔طائف کی وادی میں آپ ﷺ کے ساتھ جو سلوک کیاگیاوہ ہر اعتبار سے ناقابل قبول اور ناقابل برداشت تھا ۔ اللہ تعالیٰ کے عظیم نبی ﷺکے وجودکو پتھروںکا نشانہ بنایا گیا۔نبی کریم ﷺ کے ساتھ کیے جانیوالے ناروا سلوک پر اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کے فرشتے کو حضرت جبرائیل علیہ السلام کی معیت میں بھیجاجنہوں نے حضر ت رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میںعرض کی کہ اگر آپ حکم دیں تو طائف کی اس وادی کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دیا جائے ۔اس موقع پر نبی مہربان حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:''اے اللہ !میری قوم کے لوگوں کو ہدایت دے،یہ مجھ کو پہچانتے نہیں ہیں۔‘‘حضرت رسول اللہﷺ کی رفاقت اورصحبت نے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو بھی کند ن بنا دیا ۔ایمان اور عقیدے کے حوالے سے جتنی بھی آزمائشیں آئیں صحابہ کرام ؓانہیں خندہ پیشانی سے برداشت کرتے رہے ۔حضرت بلا ل حبشی ؓ کو حراکی تپتی ہوئی سرزمین پر لٹاکر سینے پر سنگ گراںرکھا جاتا ۔آپ ؓ کی کمر مبارک تپتی ریت پر لگنے کی وجہ سے جھلس جاتی لیکن وہ اس عالم میں بھی ''احد ،احد ‘‘کا نعرہ لگاتے رہتے ۔اُمیہ حضرت بلال ؓ سے معبودانِ باطل کے سامنے جھکنے کا تقاضا کرتا رہتا لیکن حضرت بلال ؓ لمحہ بھر کے لیے بھی اس کے ظلم کے سامنے جھکنے کے لیے تیار نہ ہوئے ،یہاں تک کہ سید المرسلین حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے خود معراج سے واپسی پر اس امر کا اعلان فرما دیا کہ میں نے ساتویں آسمان پر بلا لؓ کے جوتوں کی آہٹ سُنی ہے ۔حضرت یاسر ؓ اور ان کے گھرانے کو بھی توحید سے تمسک اختیار کرنے کی وجہ سے ابتلاؤںکا نشانہ بننا پڑا ۔ خصوصاً حضرت سمیہؓپر تو ابو جہل نے ظلم کے پہاڑ توڑ ڈالے ۔ ابوجہل نے آپؓ کے جسم کے نازک حصے پر نیزے کی انیاںماریں اور ستم بالائے ستم یہ کہ آپ ؓ کی ایک ٹانگ کو ایک اونٹ کے ساتھ باندھا گیااور دوسری ٹانگ کو دوسرے اونٹ کے ساتھ باندھ کر دونوں اونٹوںکومتضاد سمتوں میں ہانک دیا گیا ۔حضرت سمیہ ؓ کا وجود چرچرایااور دو ٹکروںمیں تقسیم ہوگیا ۔تاریخ انسانی میں بہت سے لوگ گردن کٹنے کی وجہ سے شہید ہوئے لیکن حضرت سمیہؓ کی شہادت کا واقعہ اس اعتبار سے منفرد تھا کہ آپ ؓ کا پورا وجود دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ۔
حضرت زنیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مکہ مکرمہ کی ایک غریب عورت تھیں۔ آپ ؓ کا جرم صرف یہ تھا کہ آپؓ نے اسلام کی دعوت پورے شرح صدر سے قبول کرلی تھی ۔ ابوجہل کے لیے مکہ کے ناتواں لوگوں کا قبول اسلام ہر اعتبار سے ناقابل قبول تھا اور وہ ایسے افراد کو نشانہ عبرت بناکر دیگر لوگوں کو اسلام کی دعوت سے باز رکھنا چاہتا تھا۔اس ظالم نے حضرت زنیرہ ؓ پر ظلم وتشدد کرنے کے لیے لوہے کی سلاخوں کو آگ پر تپایا اور ان سلاخوں کو حضرت زنیرہ ؓ کی آنکھوں میں پھر وادیا ۔جب تکلیف سے سیدہ زنیرہ ؓ کی آہ نکلی تو اس ظالم نے آپ ؓ کا استہزا کرتے ہوئے کہا کہ یہ لات و منات کو نہیں مانتی اس لیے ان بتوں نے اس کی آنکھوں کو چھین لیا ہے ۔عالم ابتلامیں بھی سیدہ زنیرہ ؓ نے اپنے عقیدے کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ رب کعبہ کی قسم ! لات ومنات نقصان پہچانے کی طاقت نہیں رکھتے ۔
رسول اللہ ﷺکی حیات مبارکہ میں ہی اللہ تعالیٰ نے اہل اسلام کو جزیرۃ العرب پر غالب فر مادیا اور جزیرے کے مسلمان ، کفار کی چیرہ دستیوں سے محفوظ و مامون ہو گئے ۔اسلام کے ظہور کے بعد سے لے کر خلافت کے سقوط تک غرناطہ کے مسلمانوں کے علاوہ تقریبا ً تمام مسلمان اپنی مرضی کے ساتھ اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے میں آزاد رہے لیکن خلافت کے خاتمے سے لے کر آج تک دنیا کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کو ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔کشمیر کے مسلمان کئی عشروں سے اپنی آزادی کے لیے تڑپ رہے ہیں ۔فلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا جا رہے ہے ،برما کے مسلمانوں کی نسل کُشی اور انگولا میں مساجد کی تالہ بندی کی جارہی ہے ۔
مسلمان اُمت کے قتل عام پر مسلمان حکمران خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں ۔اپنی کرسی اوراقتدار کو بچانے اوراپنے نام نہاد مینڈیٹ کو تحفظ دینے کے لیے مسلمان حکمران ہر قسم کی تدبیراختیار کرنے کے لیے تیارہیں لیکن مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف صحیح طریقے سے احتجاج کرنے پر بھی رضامند نہیںہیں ۔جتنی توانائیاں ہمارے حکمران اپوزیشن جماعتوں کا احتجاج روکنے کے لیے صرف کرتے ہیں اگراس کا صرف 10فیصد بھی مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف جدوجہد کرنے کے لیے استعمال کریں تو پوری اُمت مسلمہ کفار کے مظالم سے چھٹکارا حاصل کر سکتی ہے ۔
دکھ اور تاسف کا مقام یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو اپنے عقائد ،مذہب اور نظریات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ان سے بہتر تو برطانیہ کی وزیر سعیدہ وارثی ثابت ہوئیںجنہوں نے آزمائشوں میں پھنسے ہوئے مظلوم فلسطینی مسلمانوں کے لیے مناسب اقدامات نہ کرنے پر برطانوی حکومت کو خیرباد کہہ دیا ہے ۔اے کاش !ہمارے حکمران آزمائش کی ان گھڑیوں میں ظلم کے شکنجے میں پھنسے ہوئے مسلمانوں کے لیے کچھ قابل ذکر اور قابل قدر کردار ادا کرنے کے قابل ہوجائیںتاکہ اُمت کو لگنے والے زخموں کی کچھ نہ کچھ تلافی ہو سکے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved