جب ہم ڈرائیونگ اور تیراکی سیکھتے ہیں اور ایک سائنسدان جب یورینیم کی افزودگی میں مہارت حاصل کرتا ہے ۔ جب ایک بچہ اپنی پہلی شرارت سیکھتاہے تو جسمانی طور پر اس میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ یہ دماغ ہے جو بدلتا رہتاہے ۔ علم و ہنر اور مہارت میں اضافہ دماغی خلیات میں نئے روابط اور نئی ترتیب کا نتیجہ ہوتاہے ۔یہی کنکشن اور یہی پیٹرن ایک آدمی کو خودکش بمبار اور دوسرے کو سپاہی بنا ڈالتے ہیں۔ ایک کو وہ عبد الستار ایدھی اور دوسرے کو منشیات کا سوداگر بنا دیتے ہیں ۔ ایک کو صوفی اور دوسرے کو مخلوق کی مال و دولت اور عزت و آبرو لوٹنے والا جعلی پیر۔
دماغ کاسۂ سر تک محدود نہیں ۔ وہ ریڑھ کی ہڈی سے منسلک ہے ، جس سے نکلنے والی باریک تاریں (Nerves)جسم کے کونے کونے میں پھیلی ہوئی ہیں۔ رابطے کے اسی نظام کے ذریعے دماغ دل کو دھڑکنے کا حکم دیتاہے اور یہی پائوں میں چبھنے والے کانٹے کی تکلیف کا احساس دماغ تک پہنچاتاہے ۔اسی کی مدد سے ہم لقمہ توڑتے اور اسی کے ذریعے قدم اٹھاتے ہیں ۔ دماغ ، ریڑھ کی ہڈی اور اس سے منسلک نروز کے اس نیٹ ورک کو مجموعی طور پر اعصابی نظام (Nervous System)کہا جاتاہے ۔یہی جاندار اور بے جان اشیاء کے درمیان بنیادی فرق ہے ۔رحمِ مادر میں سب سے پہلے یہی جنم لیتاہے ۔ یہ عمارت کھربوں عصبی خلیات کی اینٹوں پہ مشتمل ہے ۔
عظیم سائنسدان کارل ساگان نے کہا تھا: روز مرّہ کی زندگی گزارتے ہوئے ہم کائنات کے بارے میں کچھ بھی جان نہیں پاتے ۔مثلاً زندگی کی بنیاد بننے والا وہ عمل ، جس کے دوران سورج روشنی(اور حرارت) پیدا کرتاہے ۔مثلاً وہ کششِ ثقل ، جس نے ہمیں زمین سے جوڑ رکھاہے اور جس کی عدم موجودگی میں ہم خلا میں محوِ پرواز ہوتے... اور مثلاًہمارے اجسام کوتشکیل دینے والے وہ ایٹم ، جن کے استحکام پہ ہماری زندگیوں کا دارومدار ہے ۔ زمانہ بدل گیا ہے ۔ کارل مارکس کے اقوال دہرانے والے اگر کارل ساگان کی تعلیم عام کرتے تو پاکستانی معاشرے کے کتنے ہی اذہان علمی بیداری کے عمل سے گزرتے ۔
کائنات کجا، روزمرّہ کے امور انجام دیتے ہوئے، خود اپنے بارے میں بھی ہم لاعلم رہتے ہیں ۔ دیر تک سیدھے کھڑے رہنا ہماری نگاہ میں کوئی بڑا کام نہیں جب کہ اس دوران متعلقہ جوڑ، مسلز، پائوں کی جلد اور توازن برقرار رکھنے والے اعضا مسلسل پیغام رسانی میں مصروف ہوتے ہیں ۔ دو چار نہیں ، اس دوران کئی ملین پیغامات کا تبادلہ ہوتا ہے۔سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے ، سفر میں اور دوستوں سے گپ شپ کرتے، یہ پیغام رسانی جاری و ساری رہتی ہے ۔رکتی تب ہے ، جب آدمی مرجاتاہے ۔
ماں کی ممتااور باپ کی محبت، اسرائیلی فوج کی بربریت اور حماس کی شجاعت، علّامہ طاہر القادری کا ''غیظ و غضب‘‘ اور حکومتی بدحواسی، بعض وزرا کا طرزِ عمل، یہ سب ایک خالص سائنسی عمل کا نتیجہ ہے ۔ جی ہاں،ایک عصبی خلیے کا دوسرے سے کامیاب رابطہ ۔ Transfer of signal from one nerve cell to the other۔مثبت اورمنفی ، یہی رابطہ ہر قسم کے طرزِ فکر اور طرزِ عمل کی بنیاد ہوتا ہے ۔ یہی انسانی تاریخ کی عظیم الشان کامیابیوں کے پسِ منظر میں روپوش ہے ۔ قارئین ، ایک عصبی خلیے سے دوسرے تک برقی اور کیمیائی پیغام کی درست منتقلی کے بغیر ہم سانس تک لے نہیں سکتے ۔ اس میں خلل سے انسان ایک عضوِ معطل ، اپنے اہل و عیال پہ ایک بوجھ بن کے رہ جاتاہے ۔اسے فالج ہو جاتاہے ۔اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے ۔ وہ مرگی، ڈیمنشیا اور دوسری دماغی بیماریوں کا شکار بن جاتاہے ۔وہ دوسروں کے رحم و کرم کا محتاج ہو جاتاہے ۔
یہاں مجھے اپنا دوست غلام صدیق یاد آجاتاہے ۔ ابھی چند ہفتے قبل ہی تو راولپنڈی سی ایم ایچ سے اس کا فون آیا تھا۔ ایکسیڈنٹ میں اس کے بھائی کی ریڑھ کی ہڈی تڑخ گئی ہے ۔ ایک کامیاب کاروباری شخص عمر بھر کے لیے معذور ہو چکا ہے ۔ حوصلہ نہ ہاریے ، بے بسی اور سمجھوتہ نہیں، زندگی جدوجہد ہے ۔
انسانی جسم تہہ در تہہ پیچیدہ توازنوں پہ استوار ہے ۔کیا کبھی آپ نے محسوس کیا کہ زندگی کو برقرار رکھنے ، دل دھڑکانے، پھیپھڑوں اور معدے کو حرکت دینے کی خاطر دماغ کتنے تسلسل سے احکامات جاری کرتا رہتا ہے ۔ صلہ مانگنا درکنار ، وہ تو کبھی ان احسانات کا احساس تک ہمیں ہونے نہیں دیتا۔کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ کون سی ہستی ہے جو دوڑ لگاتے ہی ہمارے دل اور پھیپھڑوں کو زیادہ تیزی، زیادہ قوّت سے متحرک کر دیتی ہے ۔ اس لیے کہ مشقت کے لیے درکار زیادہ توانائی جسم کو ملتی رہے۔ ارشاد ہوا: اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔ جی ہاں، خدائے بزرگ و برتر ہمارے اس قدر قریب ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ جن عناصر سے ہمارے جسم بنے ہیں وہ ماضی کے فنا ہو جانے والے ستاروں کے قلب میں پیدا ہوئے تھے... اور وہ ستارے کیسے تخلیق ہوئے تھے ؟ اللہ نور السمٰوٰت والارض۔ اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے ۔ یہ کائنات خدا نے اپنے نور سے پیدا کی ہے ۔ اس پسِ منظر میں یہ حیرت کی بات نہیں کہ پہلے ہی سے وہ جانتاہے کہ ہم کیا کرنے والے ہیں ۔
اللہ نور السمٰوٰت والارض۔ اسے لا علاج بیماریوں کی دعا کہا جاتاہے۔ معروف شاعر اور ''دنیا‘‘ کے سینئر کالم نگار خالد مسعود خان ا س کی زندہ مثال ہیں۔ اسی کا ورد کرتے (اور ہر ممکن دوا لیتے ہوئے )انہیں آنکھوں کی لا علاج بیماری سے نجات نصیب ہوئی ۔ اللہ نے یہ کائنات اپنے نور سے پیدا کی ہے۔ ''اللہ نور السمٰوٰت والارض‘‘ تخلیق کے کلمات ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ لا علاج بیماری میں اسے پڑھا جاتاہے ۔
اپنے اندر جھانکیے، آپ کو حیرتوں کا جہاں ملے گا۔ اپنے اندر جھانکیے، آپ کو خدا ملے گا۔ ارشاد ہوا: جس نے خود کو پہچان لیا، اس نے اپنے خد اکو پہچان لیا۔ میں قسم کھا کے کہتا ہوں ، جو دیانتداری کے ساتھ اپنے جسم کا سائنسی جائزہ لے ، وہ خداکا منکر ہو ہی نہیں سکتا۔ پھر کیوںنہیں مانتے ؟ ماننا چاہتے ہی نہیں ۔
زندگی کچھ ہے ، نظر کچھ اورآتی ہے ۔ ایک بار پھر وہی بات، خوردبینی سطح پہ اترے بغیر آدمی کائنات کو سمجھ سکتاہے اور نہ خود کو ۔